کرونا وائرس: ڈرنا کیوں، لڑنا کیوں نہیں؟۔

633

کرونا وائرس سے دنیا بھر میں انسانی جانے ختم ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ خطرناک مرض کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 22 جنوری 2020 کو چین میں جب یہ احساس ہوا کہ یہاں تک یہ وائرس پہنچ چکا ہے جس کا نام ” کورونا ” ہے تو اس کی وجہ اس روز ملک میں 56 افراد ہلاک اور ایک ہزار 870 افراد اس کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ چین کو معلوم ہو چکا تھا کہ یہ کورونا 19 ہے جسے کنوڈ 19 ( Convid 19 ) کا نام دیا گیا۔ یہ وائرس محض چند روز میں دنیا ایک ایک سو 96 ملکوں کو اپنی لپٹ میں لے کر 25 مارچ تک ان ملکوں کے چار لاکھ 60 ہزار 659 افراد میں پہنچ کر 20 ہزار 843 افراد کو نگل گیا۔ اگرچہ 25 مارچ تک اس وائرس کے چنگل میں پھنس جانے والے ایک لاکھ 13 ہزار 799 افراد اس سے بچ نکل کر صحت مند ہوچکے۔ تاہم اس کی خارج کی گئی بیماری سے تاحال 3 لاکھ 26 ہزار 17 افراد بستروں پر اپنے صحت مند ہونے کا انتظار کررہے ہیں تاہم ان میں بھی 14 ہزار 197 کی حالت تشویشناک ہے جبکہ 3 لاکھ 11 ہزار 820 کی کیفیت درمیانی ہے۔ مگر وائرس مختلف ممالک میں ہنور بدستور موجود ہے۔
اس وقت پاکستان میں اس وائرس کا شکار ہوکر بدھ تک نو افراد جاں بحق اور ایک ہزار 63 افراد بیمار ہوچکے ہیں جن میں نئے آنے والے مریضوں کی تعداد 91 ہے جن میں 5 کی حالت تشویشناک جبکہ 21 افراد صحت مند ہوکر گھروں کو رخصت ہوچکے ہیں۔
اس جان لیوا وائرس نے تھوڑی سی غفلت اور احتیاط کرنے میں تاخیر کے باعث جیتے جاگتے اٹلی کی سڑکوں کو غیر مدفون لاشوں کا قبرستان بنادیا ہے۔ جہاں 25 مارچ 74 ہزار 386 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ جبکہ یہاں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 8186 ہے۔ یہاں 57 ہزار 521 افراد اسپتالوں اپنے صحتمند ہونے کے منتظر ہیں۔ ان میں 3489 کی حالت خطرے میں ہے۔اٹلی میں صحت مند ہونے والے افراد کی تعداد 9362 ہے۔ جبکہ چائنا جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا وہاں مجموعی طور 25 مارچ تک 3285 ہلاک ہوئے جبکہ یہاں اس وائرس کا شکار ہونے والوں کی کل تعداد 81265 تھی جن میں 73 ہزار 650 صحت مند ہوچکے ہیں۔ تاہم تاحال 4287 افراد میں اب بھی کرونا وائرس پایا جاتا ہے۔ جن میں 1399 افراد کی حالت خطرے میں ہے۔ کرونا وائرس کا شکار ہونے والا تیسرا ملک امریکا ہے جو سپر پاور کہلاکر دنیا بھر میں حکمرانی کرنے کا خواب دیکھا کرتا ہے۔ اس وائرس نے امریکا 74 ہزار 674 کو نقصان پہنچا چکا ہے جس کے تنیجے وہاں کے ایک ہزار 40 افراد کی جانیں جاچکی ہیں۔ امریکا اب تک 393 افراد صحت مند ہوسکے حالانکہ وہاں عالمی معیار کی طبی سہولیات دستیاب ہونے کا دعوٰی کیا جاتا ہے۔
دلچسپ امر یہ کہ اٹلی حکومت نے جمعہ 20 مارچ کو بتایا تھا کہ اس وائرس سے 627 افراد ہلاک ہوچکے لیکن صرف 5 دن کے اندر یہ تعداد بڑھ کر 8186 ہوگئی تھی۔اسی طرح مجموعی طور پر دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد چار لاکھ 64 ہزار 683 ہوچکی ہے۔
امریکہ اور انڈیا نے 22 مارچ سے ایک ہفتے کے لیے بین الاقوامی پروازوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین نے 30 روز کے لیے یونین کے باہر سے تمام مسافروں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ واشنگٹن نے اپنے شہریوں کو بیرون ملک سفر کرنے سے منع کر دیا ہے۔ کروناوائرس سے دنیا بھر میں ہونے والے نقصانات کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
بہرحال سندھ کی صوبائی حکومت نے کرونا وائرس کے مزید پھیلاو سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرکے بہتر ہی کیا ہے۔ کیونکہ اس وائرس سے بچاؤ کا آسان اور واحد حل یہی ہے کہ خود کو سارے سماجی و معاشرتی معاملات سے جدا کرکے اپنی سرگرمیاں اپنے گھر اور بیوی بچوں تک محدود کردی جائیں بلکہ گھروں کے اندر بھی احتیاط کی جائے۔
قرنطینہ لفظ اطالوی زبان کے لفظ quaranta giorni سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چالیس دن۔ ریکارڈ کی گئی انسانی تاریخ میں 3 بار پلیگ ( بیکٹیریا ) نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ پہلی بار بازنطینی سلطنت کا صفایا541-542 AD میں کیا۔ پھر آیا یورپ کا بلیک ڈیتھ جو 1348 عیسوی سے شروع ہوا تو 4 سال میں 25 ملین افراد یعنی یورپ کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی نگل گیا۔ اس دوران جو تجارتی جہاز شہر وینس کی بندرگاہ پر داخل ہوتے ان پر موجود تاجر اور عملے کے لیے لازم تھا کہ وہ چالیس دن جہاز میں ہی رکے رہیں۔ مقصد شہری آبادی سے دور رکھنا تھا۔ تاکہ اس دوران جس کو پلیگ کا مرض ہے اس کی علامات ظاہر ہو جائیں اور اس کو صحت مندوں سے الگ کر لیا جائے کہ یہ واحد طریقہ تھا باقی انسانوں کو بچانے کا۔ قرنطینہ انسانی تہذیب جتنی ہی پرانی ہے اس کا تذکرہ صحیفوں میں ہے۔ بنی امیہ کے عبد الملک ابن مروان نے کوڑھ کی وبا کے دوران دمشق میں قرنطینہ بنوایا۔ شہر کو کئی دن کے لیے بند کردیا اور کوڑھیوں کو صحت مندوں سے الگ کرکے دمشق قرنطینہ میں منتقل کیا۔ آپ کو قرنطینہ کی ضرورت اس لیے ہے کہ 14 دن بعد صحت مند کو بیمار سے الگ کرکے علاج کے ذریعے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ یہ نا ہی قید ہے نا سازش نا ہی چھٹیاں گزارنے کا بہان یہی واحد طریقہ ہے انسانی سسٹم میں داخل ہونے والے ان جانے وائرس سے لڑنے کا۔

سندھ حکومت کا لاک ڈاؤن

سندھ حکومت کو لاک ڈاؤن کے دوران یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ جبکہ نجی اداروں، فیکٹریوں، ملوں اور کاخانوں میں کام کرنے والے ورکرز کو بھی تنخواہ کے ساتھ چھٹیاں دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ممتاز غضنفر علی خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا وائرس سے جنگ کے لیے گئے اقدامات بہترین ہے مگر بہتر ہے کہ لوگوں کو گھروں رکھنے کے لیے وائی فائی کی سہولت فری کردی جائے، جبکہ صوبے خصوصا شہر کراچی میں روزمرہ کی اشیاء ضرورت مندوں کے گھروں تک پہنچانے کے لیے نظام وضح کیا جائے جس کے تحت سٹیزن ہیلپ لائن متعارف کرواکر لوگوں کی مدد کی جائے۔ یہ اطلاعات بھی ملیں ہیں کہ شہر کی متعدد صنعتوں میں ورکرز کولاک ڈاؤن کے دوران پندرہ دن کے لیے ملوں میں ہی روکنے کی کوشش کی گئی انکار کی صورت میں انہیں پیغام دیا گیا کہ پھر آج کے دن کوآخری دن سمجھو، پندرہ دن کے بعد آکر اپنا حساب لے لینا۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے کس قیمت پر لوگوں کا کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تحفظ کررہی ہے۔ کیا لوگوں کے اس تحفظ کی قیمت انہیں بیروزگاری اور ان کے کاروبار کی بندش سے ہونے والے مالی نقصان کی صورت میں ملے گی۔ حکومت پہلے ہی مد میں دس کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے۔ جبکہ عالمی اداروں سے بھاری فنڈز بھی مانگے جارہے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی حکومت بھی سندھ صوبے کا کرونا وائرس سے بچاو کے انتظامات کے لیے خصوصی فنڈ دینے کااعلان کرچکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت یہ رقم کہاں خرچ کرے گی ؟ حکومت لاک ڈاؤن کے دوران غریب افراد کی مدد کا بھی ابھی تک کوئی پروگرام نہیں دے سکی جبکہ یومیہ اجرت پر اپنا گزارہ کرنے والے ہزاروں افراد کو دو روز بعد ہی مالی پریشانی کی وجہ سے ان کے گھروں میں فاقے شروع ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے کم از کم ان کی یومیہ خوراک کا انتظام کرے۔ اس مقصد کے لیے علاقائی بلدیاتی نمائندوں (ناظمین اور کونسلرز) کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ کرنی بھی چاہیے۔ وہ منتخب کونسلرز کے غریب متاثرین کے گھر ضروری فنڈز کے ساتھ یومیہ خوراک بھی بھیج سکتی ہے۔ اگر حکومت غریبوں کی مالی مدد یا لاک ڈاؤن تک انہیں خوراک کی فراہمی یقینی نہیں بنا سکی تو حکومت کے لیے کرونا سے بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ کیونکہ جب کھانے کو کچھ نہ ملے تو ویسے بھی لوگوں کو عزت سے مرجانے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ اب یہ بات حکومت کے سوچنے کی ہے کہ وہ لوگوں کو بھوک سے مارنا چاہتی ہے یا کرونا وائرس سے ؟
عالمی ادارہ صحت کے بروقت خبردار کرنے سے پاکستان میں کیے گئے اقدامات کے بہتر نتائج نکل رہے ہیں، ماہرین کا موقف۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے کرونا وائرس سے بروقت دنیا کو خبردار کرنے اور اس کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو ماہرین نے سرا ہایا ہے جبکہ دنیا کے وہ ممالک جو اس وائرس سے خبردار کیے جانے کے باوجود اقدامات نہ کرنے پر آج اپنی قوم سے شرمندہ بھی ہیں کیونکہ وہ تاخیر کی وجہ سے بہت جانی نقصان برداشت کرچکے ہیں اور کر بھی رہیں ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں کیے جانے والے اقدامات خصوصاً سندھ حکومت کی احتیاطی تدابیر پر ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے ماہر مالیکیولر پتھالوجی اور مالیکیولر پتھالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سعید خان کا کہنا تھا کہ یہ دسمبر 2019 میں چائنا کے شہر وہان سے جنریٹ ہوا وہاں سے پورے چائنا میں پھیلا پھر وہاں سے لوگ دوسرے ملکوں میں گئے جہاں یہ لوگ گئے وہاں اپنے جیبوں، ہاتھوں اور جسم کے ذریعے یہ لے گئے، اس طرح یہ لوگ پھیلتے گئے اور یہ وائرس پھیلاتے گئے، ہمارے پڑوس ملک ایران میں آیا جہاں زیارت کے لیے جانے والے لوگوں کے ذریعے یہاں بھی پہنچ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے قبل کرونا کی دو نسل آچکی ہیں پہلی نسل 2002 میں سارس کے نام سے سامنے ائی تھی جو 2004 میں ختم ہوگئی تھی اس کے بعد میرس (MERS) کے نام سے 2012 میں دوسرے کرونا وائرس کی نسل سامنے آئی۔ سارس چمگادڑ سے نکلنے والا جراٹم تھا جبکہ میرس اونٹوں سے نکلنے والا جراثیم تھا جو مشرق وسطی مین تخلیق پایا تھا۔ کرونا وائرس پرانے دو وائرس سے زیادہ خطرناک کہلاتا ہے کیونکہ یہ انسانوں سے انسانوں کو لگتا ہے۔ یہ وائرس انسانوں کو اپنا بہترین میزبان سمجھتا ہے لیکن تشویش ہے لوگوں کی بے احتیاطی پر کہ وہ اس کی خوب میزبانی بھی کرنا چاہ رہے ہیں، لوگوں کو چاہیے کہ حکومتی فیصلوں اور مشوروں پر عمل کریں۔ اس سے بچنے کے لیے “سماجی فاصلے” استوار کرنا بھی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس وائرس کا ٹیسٹ پازیٹو آنے کے باوجود بعض مریضوں پر اس کی علامات ظاہر کیوں نہیں ہورہی ہیں۔ ایسے مریضوں کو چاہیے کہ کسی اور اسپتال سے بھی دوبارہ ٹیسٹ کرالیں تاکہ انہیں اطمینان ہوسکے۔ ڈاکٹر سعید نے بتایا ہے کہ یہ وہ بیماری ہے جو منہ، آنکھ اور ناک کے ذریعے کسی دوسرے کے جسم میں داخل ہوسکتا ہے جسے ہم ’’پورٹل اف انٹری‘‘ کہتے ہیں۔ چونکہ ہاتھوں کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کے زیادہ خدشات ہیں اس لیے یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ ہاتھوں کو بار بار دھویا جائے اور کم از کم 20 سیکنڈ تک دھویا جائے۔ پروفیسر سعید نے یہ بھی بتایا کہ اب یہ وائرس صرف انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہورہا ہے۔ اس سوال کہ جواب میں کہ کیا اس مرض سے مرنے کے بعد بھی اس کے اثرات مردہ جسم میں باقی رہتے ہیں ، ڈاکٹر سعید نے بتایا ہے کہ بالکل رہ سکتے ہیں مگر غسل و کفن اور تدفین کے عمل میں بس احتیاط کرنی چاہے کہ دستانے وغیرہ پہن کر غسل وغیرہ دینا چاہیے بہت سے معاملات اللہ پر بھی احتیاط کے بعد چھوڑ دینا چاہیے ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہیے جو شرعی نہ ہو۔
جناح سندھ یونیورسٹی کی ہیڈ آف کمیونیٹی میڈیسن پروفیسر ڈاکٹر غزالہ عثمان نے کرونا وائرس کے بارے میں “جسارت سنڈے میگزین” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس وائرس سے ہونے والے نقصانات کا علاج صرف احتیاط اور اپنی صحت کا خود تحفظ کرنا ہے۔ بخار کی صورت میں پیناڈول لی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر بخار کے ساتھ سانس لینے میں تکلیف بھی ہونے لگے تو کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ” باوجود اس کے کہ کچھ لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے اس وائرس کو عام نزلے یا فلو سے جوڑ رہے تھے اور لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کررہے تھے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بہترین اقدامات کی وجہ سے خوش قسمتی سے اس وباء سے لوگوں کو اب تک کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچا مگر یہ یقین کرنا چاہیے کہ یہ ایک خطرناک وائرس ہے جس سے بچنے کے لیے بداحتیاطی کی گنجائش نہیں ہے۔ ڈاکٹر غزالہ کا کہنا ہے کہ” لوگ احتیاط کے بجائے گھروں سے باہر نکلنے کے لیے اللہ توکل کی بات کرنے لگے ہیں جبکہ ہمارے دین میں بھی “اللہ پر توکل” سے پہلے احتیاط کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، احتیاط نہیں کی گئی تو نتائج “خودکشی” کے مترادف ہوسکتے ہیں۔ لوگوں کو دنیا بھر میں کیے جانے والے حفاظتی انتظامات کو دیکھ کر بھی بہت کچھ سمجھنا اور دوسروں کو سمجھانا چاہیے۔ ڈاکٹر غزالہ عثمان کا کہنا تھا کہ فیڈرل گورنمنٹ پبلک ہیلتھ کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مرحلہ وار اقدامات کررہی ہے جو بہتر ہے۔
کرونا وائرس سے اگرچہ پاکستان کی صورتحال اس قدر خراب نہیں ہے تاہم دنیا بھر میں اس وائرس سے تشویش برقرار ہے جس کی وجہ چند روز میں ہزاروں افراد کی ہلاکتیں ہیں۔
کرونا وائرس کے خوف سے لوگ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں، ڈاکٹر واسع شاکر۔
کرونا وائرس کی وباء سے خوف و ہراس کی فضاء پھیلنے پر ملک کے نامور معالج نیورولوجسٹ و وزیراعظم کی ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے رکن، اور جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر ڈاکٹر واسع شاکر نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے دماغ پر براہ راست اثرات نہیں پہنچتے۔ لیکن اس وباء کے بارے میں پیدا ہوجانے والے خوف سے لوگوں کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کے خدشات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن میں چار سو افراد فالج کا شکار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں مگر مرض کا خوف کسی کو نہیں ہے، کرونا وائرس سے اب تک ملک بھر میں نو افراد جاں بحق ہوئے مگر اس سے خوف پیدا ہوچکا ہے۔ حالانکہ اس وائرس سے بچاؤ کے لیے لوگوں کو بغیر خوفزدہ ہوئے صرف احتیاط کرنی ہے اور یہ احتیاط اس لیے ضروری ہے کسی کو معلوم ہی نہیں کہ کس جگہ اور کس کے جسم میں کرونا وائرس موجود ہے جو انہیں بھی اپنی لپٹ میں لے سکتا ہے۔ اس لیے صرف مختصر مدت کے لیے ہر کسی کو احتیاطی تدابیر کے طور پر خود کو آئسولیشن میں رکھنا چاہے۔ ڈاکٹر واسع شاکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے آپ کو اور دوسروں کو اس وائرس سے بچانے کے لیے بھی گھروں تک محدود ہوجانا چاہیے اور اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انہیں تنہائی میں آرام کا موقع تو اللہ نے فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کروناوائرس کا صرف خوف ہے اور کا تعلق دماغ سے ہے ، سانپ کے کاٹنے سے مرنے والوں میں 70 فیصد وہ ہوتے ہیں جنہیں زہریلہ سانپ نہیں ڈستا یا کاٹتا بلکہ یہ لوگ سانپ کے کاٹنے سے خوفزدہ ہوکر اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ بغیر خوف کے کرونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاط کریں ان کا کہنا تھا کہ اس وائرس سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوتی جتنی خوف کی وجہ سے لوگوں کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونے کے خدشات ہیں ،وائرس پھیل کر خطرہ بنتا ہے جس سے محفوظ رہ کا واحد حل خود دوسرے سے دور اپنے آپ تک محدود رکھنا ہے ۔

حصہ