لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو غیر ضروری طور پر باہر نکلنے کی اجازت نہیں،صرف انتہائی اہم صورت میں ہی گھر سے نکلا جائے، جو باہر نکلنے اس کے پاس شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے، لاک ڈاؤن کے دوران مریض کو اسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے ایک گاڑی میں ایک ڈرائیور اور ایک مددگار کو ساتھ جانے کی اجازت ہو گی، مہنگاہی اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لاک ڈاون کے دوران ضروری سروسز، اور کھانے پینے کی چیزوں کی سپلائی جاری رہے گی، لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی کے الیکٹرک، سیپکو، حیسکو واٹر بورڈ اور ایس ایس جی سی کو ہدایت دی ہے کہ کسی بھی علاقے میں لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے، چار ہزار سے زیادہ بجلی کا بل قسطوں میں وصول کیاجائے گا، اسی طرح سوئی سدرن گیس کمپنی بھی 2000 روپے سے زائد کا بل10 قسطوں میں وصول کرے گی، مل مالکان مزدوروں کی تنخواہ پوری ادا کریں اگرعوام نے ہمارے ساتھ تعاون نہ کیا تو ہماری تمام محنت ضائع ہو جائے گی۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ دھاڑی دار طبقے کے لیے تین ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے رقم مختص کی جا رہی ہے، شرح سود میں کمی جبکہ پیٹرول کی قیمتوں میں 15روپے تک کی کمی کردی گئی ہے، اندرون اور بیرون ملک پروازیں معطل کرنے کے ساتھ ساتھ ریلوے سروس معطل کیے جانے کے بھی احکامات جاری کر دیے گئے ہیں، عوام احتیاط کریں اور اپنے گھروں میں رہیں احتیاطی تدابیر سے ہی کرونا وائرس کو شکست دی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم صوبائی حکومتیں ہوں یا وفاقی حکومت کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے عوام سے گھروں میں رہنے کی اپیل کرتی دکھائی دیتی ہے، حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت سارے پاکستان میں کہیں اعلانیہ تو کہیں غیر اعلانیہ لاک ڈاؤن ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ لاک ڈاؤن حکومتی احکامات تک ہی محدود نظر آتا ہے، عوام اس میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے یا یوں کہیے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر کیے جانے والے فیصلے کو عوام نے سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی عوام کرونا وائرس کو سنجیدہ لینے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں، وہ تمام دن شہر کی سڑکوں گلیوں اور محلے میں قائم تھڑوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں، اس طرح مجمع لگا کر بیٹھنے پر اگر سوال کیا جائے تو کہتے ہیں ہم میں سے کسی کو بخار، نزلہ، زکام یا کھانسی نہیں، ابھی کل ہی کی بات ہے گھر کا راشن ختم ہونے کی وجہ سے میرا بازار جانا ہوا، میں ابھی گلی سے باہر ہی نکلا تھا کہ میری نظر ان دس پندرہ افراد پر پڑی جو گلی سے باہر بنے چوک پر کرسیاں لگائے بیٹھے تھے، میں جونہی ان کے قریب سے گزرا وہاں بیٹھے ایک شخص کی جانب سے ادا کیے جانے والے یہ جملے میرے کانوں سے ٹکرائے۔
’’حکومت کو سختی کرنی چاہیے، لوگ بلاوجہ گھروں سے باہر نکل رہے ہیں، اگر حکومت نے سختی نہ کی تو کرونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل جائے گا، لوگوں میں شعور نہیں ہے، عوام کو چاہیے کہ بغیر کسی وجہ کے گھروں سے باہر نہ آئیں، گھروں میں رہ کر ہی اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے، میں تو کہتا ہوں کہ روس کی طرح یہاں کی گلیوں میں بھی شیر چھوڑ دیے جائیں‘‘۔
دیکھا آپ نے! کس قدر قوم کی فکر ہے، کتنے مخلص اور باشعور ہیں، یعنی خود گھروں سے باہر چوپال لگا کر بیٹھے ہیں اور دوسروں کی فکر میں مرے جا رہے ہیں، یہ تو وہی بات ہوئی کہ ضیاء الحق کے دور میں لوگوں کو باجماعت نماز کی تلقین کرنے کے لیے یا یوں کہیے کہ نمازی بنانے کے لیے صلوٰۃ کمیٹیاں بنائی گئیں تھی، حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی ان کمیٹیوں کے باعث بہت سے لطیفے ہوئے، ان میں سے ایک تومجھے اب تک یاد ہے، اس زمانے میں میرا سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا، جہاں کچھ دن گزارنے کے بعد میں اپنے ننھیال والوں کے گاؤں چلاگیا، ایک روز عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد جب ہم گھر پہنچے تو نانا جان نے مجھے بتایا۔
’’ہمارے گاؤں میں بندونامی ایک شخص رہتا ہے، جو نماز ادا نہیں کرتا، ہم نے اسے نماز کا پابند کرنے کے لیے صلوٰۃ کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا، پہلے ہی دن نمازعصر کی ادائیگی کے لیے اس نے لوگوں کو مسجد کی جانب روانہ کرنا شروع کر دیا، نماز ختم ہونے کے بعد بندو نے مسجد سے نکلنے والوں سے پوچھا، آج مسجد میں نمازیوں کی تعدادکتنی تھی؟ سب نے کہا ہاں بالکل آج خاصی بڑی تعداد میں لوگ نماز پڑھنے آئے تھے، ان میں سے ایک شخص نے بندو سے کہا‘‘ بندو نمازیوں کی تعداد تو خاصی بڑھ گئی ہے، لیکن تم نہ مسجد میں اور نہ ہی نماز پڑھتے ہوئے دکھائی دیے‘‘۔
اس پر بندو نے جواب دیا،’’ارے چیئرمین کا کام لوگوں کو نماز کے لیے مسجد بھیجنا ہے اگر چیئرمین خود ہی نماز پڑھنے لگ جائے تو لوگوں کومسجد میں بھیجنے کی ذمہ داری کون پوری کرے گا‘‘۔
خدا مجھے معاف فرمائے، میں اس وقت یعنی اس انتہائی پریشان کن صورت حال میں، کوئی لطیفہ یا جوک سنانے کے موڈ میں نہیں، مجھے تو ان لوگوں کی عقلوں پر ماتم کررہا ہوں جو اپنے تئیں خود کو محفوظ سمجھے بیٹھے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس ان پر حملہ کر ہی نہیں سکتا، ہمارے ملک میں کرونا وائرس کے شکار شخص کے حوالے سے عوام اس قدر لاعلم ہیں کہ عام طور پر لوگ کھانسنے والوں یا بخار میں مبتلا افراد سے دور رہنے کو ہی اس وائرس سے محفوظ رہنے کا بہترین اقدام سمجھتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے یا جاننا ہی نہیں چاہتے کہ کرونا وائرس کا شکار ہونے والا شخص پندرہ دن تک بظاہر صحت مند ہی دکھائی دیتا ہے، اور اس دوران وہ شخص وائرس دوسروں میں منتقل کرتا چلاجاتا ہے، اس طرح ایک غیر محسوس انداز میں بڑی تعداد کورونا وائرس کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے، یہ وائرس ہوا سے نہیں بلکہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے، چیزوں کوچھونے، جس جگہ وائرس ہو وہاں ہاتھ لگانے اورگلے ملنے سے ایک دوسرے کے جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔
لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ جن ملکوں کے عوام یا حکومتوں نے کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اقدامات اٹھانے میں مختلف حربے استعمال کیے یا دیر کی وہاں انتہائی جانی نقصان ہوا، بلکہ اب تک ہو رہا ہے مثلا اٹلی کی حکومت نے لاک ڈاؤن کرنے میں دیر کی اور وہاں کے عوام نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اس لیے اٹلی میں کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد نہ صرف ہزاروں میں ہے بلکہ ہزاروں افراد موت کی وادی میں بھی جا پہنچے ہیں یعنی چند افراد کی کوتائیوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے، اسی طرح فرانس اور اسپین میں بھی تاخیر سے کیے جانے والے لاک ڈاؤن اور وہاں کے عوام کی جانب سے دکھائی جانے والی غیر سنجیدگی کے باعث ہزاروں لوگ کرونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں، جبکہ ایران بھی انہی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اپنے ملک میں اس وائرس کے پھیلنے کا انتظار کیا اور پھر کرونا وائرس ان کے قابو سے باہر ہوگیا، بے شک یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کرونا وائرس سے اس وقت تک بچا رہا جب کئی ممالک میں اس کے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہو چکے تھے، اور پاکستان میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا تھا، بے شک یہاں حکومت کی جانب سے کچھ نہ کچھ کوتاہی ضرور ہوئی جس کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہو گئی، بالکل حکومتی اقدامات پر کئی سوالات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں اور اٹھائے بھی جارہے ہیں، مثلا تفتان بارڈر کا کھولا جانا، بلوچستان میں قائم کیے جانے والے قرنطینہ سنٹر میں سیکڑوں زائرین کوایک ساتھ رکھنا بغیر چیک کیے ان کے آبائی علاقوں کی جانب روانہ کرنا جیسے اقدامات سے حکومتی غیر سنجیدگی نظر آتی ہے، اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے سے کیا حاصل، اب چونکہ پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، ہمیں حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کودیر آئے درست آئے کی نظر سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھانا ہوگا، حکومت کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سماجی رابطوں کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا، اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ یہ فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ ہم ساحل سمندر پر جائیں پارٹیاں کریں دوستوں کے درمیان بیٹھ کر گپ شپ لگائیں یا بازاروں میں گھومتے پھریں، حکومت نے یہ فیصلہ ہمارے لیے ہی کیا ہے، خدارا اسے مذاق نہ سمجھیں، اپنے گھروں میں رہیں، ذرا سوچیے حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کردیا ہے آنے والے دنوں میں شاید مزید سختی بھی ہو جائے، یقینا اس سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوگا ذرا سوچئے کوئی بھی حکومت اپنے چلتے ہوئے صنعتی ادارے، اسکول، کالجز، سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر کیوں بند کرے گی، حکومت اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ سے مانگ کیا رہی ہے؟ بات سیدھی سی ہے کہ اس معاشی نقصان کو برداشت کرنے کا واحد مقصد آپ کو محفوظ رکھناہے، میں پھر کہتا ہوں خدارا! کرونا وائرس کی وبا کو ہلکا نہ لیا جائے، عوام حکومت کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر مکمل عمل کریں، دس بارہ دن کے لیے اپنے آپ کو گھروں میں بند کرلیں، زندگی اللہ تعالی کا دیا ہوا خوبصورت تحفہ ہے اس کی قدر کریں، احتیاط کریں، کرونا وائرس کیخلاف پوری قوم کولڑنا ہوگا، لیکن ایک طریقہ کار کے مطابق! انتظامیہ اور صحت سے وابستہ اداروں کی جانب سے دی ہوئی ہدایت پر عمل کرنا ہوگا، اپنے ہاتھ بار بار دھویں، سینٹائزر استعمال کریں، چھینکتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں، رومال یا ٹشو استعمال کریں، اگر یہ موجود نہ ہو تو کہنی کی طرف چھینک دیں، اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں، گوشت، انڈے پکا کر کھائیں، جنگلی اور پالتو جانوروں سے دور رہیں، اگر کوئی کھانس رہا ہو تو اس سے فاصلہ رکھیں، غیر ضروری سفر سے پرہیز کریں اگر ضروری جانا ہو تو منہ پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے پہنیں، اپنے چہرے پر ہاتھ نہ لگائیں، اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے، ہم پر رحم فرمائے، اس وبا سے ہمیں محفوظ فرمائے۔۔(آمین)۔