راحت عائشہ
۔’’شش۔۔۔ چپکے چپکے آئو۔‘‘ ہانیہ نے انابیہ کے پیروں کے چلنے کی آواز آنے پر اسے گھور کر دیکھا اور سر گوشی کی۔
ہانیہ نے آگے قدم بڑھائے۔ انابیہ نے بھی دبے قدموں چلنا شروع کیا۔
ہانیہ اور انابیہ دراصل الماری کھولنا چاہتی تھیں لیکن یہ دوپہر کا وقت تھا اور کمرے میں امی سو رہی تھیں۔ اگر امی کی آنکھ کھل جاتی تووہ یقینا غصہ کرتیں اور ایسے میں کبھی کسی کی پٹائی بھی لگ جانے کا بھی اندیشہ تھا۔ہانیہ نے چپکے سے الماری کھولی اور اس میں رکھی ہوئی خوب صورت گڑیا نکالی۔ گڑیا انابیہ کو پکڑا کر اس نے اپنا گڈا بھی نکالا۔ الماری آہستہ سے بند کی اور دبے قدموں دروازے کی راہ لی۔ دوپہر کا وقت امی کے آرام کا وقت تھا اور اس وقت سب بچوں کو لیٹنے کی ہدایت تھی۔ آج کل اسکول کی چھٹیاں تھیں۔ فجر کے بعد بچے تو دوبارہ سو جاتے اور پھر آرام سے نو دس بجے تک اٹھتے جب کہ امی کی مصروفیت تو فجر کے بعد سے ہی شروع ہو جاتی تھی۔ اور دن میں کھانے کے بعد وہ قیلولے کی سنت پوری کرنے کے لیے ضرور لیٹتی تھیں اور بچوں کو بھی لٹا تیں۔
لیکن ان بچوں میں نہ جانے کون سی بجلی بھری ہوئی تھی کہ مجال تھی جو ٹک کرتو بیٹھ جائیں۔ ابھی اِدھر ابھی اُدھر۔۔۔ دن بھر دھما چوکڑی مچائے رکھتے۔ امی جان ان کے کھلونے سمیٹتے سمیٹتے تنگ آجاتیں۔ اور پھر آخر میں یہی ہوتا کسی نہ کسی بچے کی پٹائی لگتی دوسرے سہم کر یوں ہی کونے کھدرے میں دبک جاتے لیکن اگلے دن پھر وہی سب ہوتا چھٹیوں میں تو یہ مصروفیات اور بڑھ جاتی اوپر سے نیچے تک گھر بھر میں ہنگامہ بپا رہتا۔ آج بھی ہانیہ انابیہ کے ساتھ ساتھ ان کے چچا اور پھوپھو کے بچے بھی کھیلنے کے لیے تیار تھے کمی تھی تو صرف ایک گڑیا اور گڈے کی جو امی کے کمرے کی الماری میں موجود تھے۔ آخر کار ہانیہ انابیہ نے ہی اس مسئلے کو حل کرنے کا سوچا اور اب وہ کامیابی کے بالکل قریب ہی تھیں کہ انابیہ کا پیر کمرے میں رکھی میز سے ٹکرایا۔
’’ہائے۔۔۔‘‘ انابیہ نے ہلکی سی چیخ کے ساتھ اپنا پائوں پکڑا۔ لیکن ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑی گڑیا کی نہ جانے کون سی کل دبی تھی کہ اس نے زور و زور سے اپنی رٹی رٹائی نظمیں میوزک کے ساتھ پڑھنی شروع کردیں۔ انابیہ نے اپنا پیر چھوڑ کر جلدی سے گڑیا کے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔ لیکن گڑیا اپنے اسی تسلسل سے گاتی رہی۔ ہانیہ نے سوچا وہ اپنا گڈا اٹھا کر رفو چکر ہو جائے لیکن امی کی آنکھ اب کھلچکی تھی۔
انھوں نے گھور کر دونوں کو دیکھا۔ ہانیہ نے امی کے بیڈ سے اٹھنے اور ان تک پہنچنے والے فاصلے کو غنیمت سمجھا اور اپنے گڈے کے ساتھ تیزی سے دوڑ لگا دی۔
’’مجال نہیں دومنٹ آرام کرنے دیں۔۔۔‘‘ امی جان نے انابیہ کو دیکھتے ہوئے دانت پیسے جیسے انابیہ ان کے بیچ میں ہو۔
’’دو منٹ۔۔۔ حالاں کہ دس منٹ ہوچکے۔‘‘ انابیہ نے گھڑی دیکھ کر سوچا۔
’’خبردار جو تم باہر نکلیں۔۔۔ لیٹ جائو شرافت سے یہاں۔۔۔ ‘‘ امی نے انابیہ کی گڑیا اپنے قبضے میں لیتے ہوئے اسے اپنے برابر میں لیٹنے کا حکم دیا۔
’’اوریہ ہانیہ کو میں بعد میں بتاتی ہوں اور یہ جتنے اپنے گھر چھوڑ کر آئے ہوئے ہیں سب کو ان کے گھروں میں واپس بھیجتی ہوں۔‘‘ امی غصے میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کررہی تھیں۔
’’ابھی آئے ہوئے دو ہی دن تو ہوئے ہیں۔‘‘ انابیہ نے سوچا۔
امی کو دوبارہ سوتے سوتے کم از کم دس منٹ تو لگے۔ ایک ایک منٹ بڑی مشکل سے گزرا۔۔۔ جب امی سو گئیں تو انابیہ چپکے سے باہر نکل آئی۔۔۔ سارے بچے اب مل کر پرچیوں پر ’’چور سپاہی‘‘ کھیل رہے تھے۔
’’ارے انابیہ آگئی۔‘‘ علیزہ چلائی۔
’’گڑیا نہیں لائیں؟‘‘ ماہ رُخ نے پوچھا۔
’’تم لوگوں کے لیے ایک بری خبر ہے۔‘‘ انابیہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’وہ کیا؟‘‘ سارے بچے پریشان ہوئے۔
’’امی جان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تم سب کو اپنے گھر بھیج دیں گی۔‘‘
انابیہ نے علیزہ اور ماہ رُخ ، ماہ نور کی طرف اشارہ کیا۔
’’لیکن ہم نے کیا کیا ہے؟‘‘ ماہ نور نے کہا۔
’’مامی بہت اچھی ہیں لیکن غصہ بہت کرتی ہیں۔‘‘
’’ہاں! اور صرف یہ بات نہیں کہ تم لوگوں کی وجہ سے ایسا ہے بلکہ امی ہم سب پر بھی بہت غصہ کرتی ہیں۔‘‘ انابیہ نے کہا۔
’’تم لوگوں پر کیوں کرتی ہیں؟ ‘‘ماہ رخ نے پوچھا۔
’’کوئی خاص بات نہیں، کھانا نہ کھانے پر غصہ، اسکول کے کپڑے جلدی تبدیل نہ کرنے پر غصہ، ٹیسٹ میں نمبر کم آنے پر غصہ، ماسی کے دیر سے آنے پر غصہ اور۔۔۔‘‘
’’بس بس بس۔۔۔ ‘‘ عکاشہ نے انگلیوں پر امی جان کی غصے کی وجوہات بیان کرتی ہوئی انابیہ کو ٹوکا۔
’’میرے ذہن میں ایک پلان ہے۔‘‘ عکاشہ نے چٹکی بجائی ۔
’’وہ کیا؟‘‘ سب نے پوچھا۔
’’تم لوگ اپنے بستے لے کر آئو۔‘‘ عکاشہ نے کہا۔
سب نے حیرانی سے عکاشہ کو دیکھا جیسے اس کے سر پر سینگ نکل آئے ہوں۔
’’میرا ہوم ورک کرنے کا ابھی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ علیزہ نے کہا۔
میں ہوم ورک کرنے کا نہیں کہہ رہا۔ عکاشہ جھنجھلایا۔
پھراپنا منصوبہ بتایا۔۔۔
’’اچھاٹھیک۔۔۔‘‘ سب نے عکاشہ کی بات مانی اور اپنے بستے اٹھا لائے۔
’’اب سب اپنی خوب صورت لکھائی اور آرٹ کے فن اس کارڈ پر دکھائیں گے۔ اور تم سب کو اس پر اپنے آرٹ کے علاوہ کوئی اچھی بات جو غصہ ختم کرے، چچی جان کے لیے لکھنی ہے۔ ــ‘‘عکاشہ نے ایک کارڈ شیٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر سب کو دیے۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ سب ہی خوشی خوشی اپنے خوب صورت کارڈ بنانے لگے۔ ایک گھنٹے کی محنت کے بعد سب ہی اپنے کارڈ تیار کر چکے تھے۔
امی جان عصر کی نماز کے بعد چائے بنانے کے لیے باورچی خانے میں جا رہی تھیں کہ ان کی نظر فریج پر سجے کارڈوں پر پڑی۔ انھوں نے حیرانی سے دیکھا اور تجسس سے ایک کارڈ کھولا، اس پر ان کا ہی نام تھا۔ان تمام کارڈوں پر ان کا ہی نام تھا۔ گھر میں اس وقت موجود تمام بچوں کی طرف الگ الگ کارڈ۔۔۔ وہ حیرانی سے دیکھتی جاتی تھیں۔
کسی نے انہیں بتایا تھا کہ زیادہ غصہ کرنے سے ان کی صحت خراب ہو سکتی ہے تو کسی نے ان کے خوبصورت چہرے پر جھریاں پڑنے سے ڈرایا تھا۔ماہ رخ نے ایک ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے غصہ کرنے والوں کی عمر کم ہونے اور مختلف بیماریا ں لاحق ہونے سے ڈرایا تھا۔سب سے اوپر والے کارڈ پر ہانیہ کا نام چمک رہا تھا۔ انھوں نے اسے کھولا۔
خوبصورت لکھائی میں لکھا گیا تھا۔
حضور ا نے ارشاد فرمایا:۔
’’لاتغضب‘‘
غصہ مت کرو۔
حدیث مبارکہ پڑھتے ہوئے انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ان شا اللہ بس اب اور غصہ نہیں۔ کچھ دیر پہلے جن بچوں پر غصہ آرہا تھا اب انہی کے لیے پیار کے جذبات تھے۔ وہ بچوں کے بارے میں سوچتے ہوئے دل ہی دل میں آئندہ غصہ نہ کرنے کا عزم بھی کر رہی تھیں۔ یہی سوچتے ہوئے وہ باورچی خانے کی طرف چل دیں کہ شام کی چائے کے ساتھ بچوں کے کھانے کے لیے بھی تو کچھ بنانا تھا۔