افشاں نوید
کورونا وائرس کی پاکستان میں تشخیص کے بعد، کراچی میں مریض کا پایا جانا… اس کے بعد جو شہر بھر میں خوف کی فضا ہے، تعلیمی ادارے بند کیے جارہے ہیں، احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں۔گھروں میں صرف ایک موضوع ہے۔ میڈیا پر ایک ہی بحث ہے۔
اس وقت ہم سورہ قریش کا فہم حاصل کرسکتے ہیں۔ بظاہر ہم سے کچھ نہیں چھنا،کوئی سونامی نہیں، جس کو کیمروں کی آنکھ دیکھ رہی ہو۔ ایک مائیکرو اسکوپک جرثومے نے ہم سے نیندیں چھین لیں۔ خوف دل کی اسی کیفیت کا نام ہے کہ پھر انسان کو نہ گھر اچھا لگتا ہے، نہ دوست، نہ کھانا پینا۔ ڈپریشن ایسی چیز ہے جو انسان کو حاضر و موجود سے بیزار کردیتی ہے۔
ہم بھی اس وقت آٹا، چینی اور مہنگائی کو بھول کر صرف ’’کورونا‘‘ ہی کی بات کررہے ہیں، اسی موضوع کی شیئرنگ کررہے ہیں، پوسٹیں ڈال رہے ہیں۔
یہ خوف کیا چیز ہوتی ہے، اور جو خوف سے نجات دیتا ہے وہی خوف میں مبتلا بھی کرتا ہے تو اس کی کوئی تو وجہ ہوگی؟
ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم مقبوضہ وادی کشمیر کے عوام کی حالتِ خوف کو محسوس کرسکیں، کہ وہ کس درجہ شدید حالتِ خوف میں ہیں اور عشروں سے ہیں، کہ کبھی کوئی دیوار پھاند کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرسکتا ہے۔ کسی وقت جوان بیٹے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ کس وقت کب، کہاں کریک ڈاؤن ہوجائے؟ گھر سے باہر جو بیٹا گیا ہے واپس بھی آئے گا کہ نہیں؟ مظاہرے میں جانے والے گھروں کو پلٹیں تو اس حال میں نہ ہوں کہ پیلٹ گنوں نے بینائی چھین لی ہو۔ اب کیا کھائیں گے، کرفیو نے زندگی جہنم کی ہوئی ہے۔ بچوں کے تعلیمی سال برباد ہونے کا خوف۔
دشمن کا خوف کچھ کم تو نہیں ہوتا… اور دشمن بھی ایسا سفاک۔ ہم اس وقت بآسانی سوچ سکتے ہیں کہ حالتِ خوف کس حالت کا نام ہے۔ ہمارے کلمہ گو بہن بھائی کئی عشروں سے اس حالتِ خوف میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اپنے دال دلیہ اور حکومت اپوزیشن جھگڑوں ہی سے فرصت نہیں کہ ان کے خوف کو محسوس کرسکیں…
اللہ نے اپنے احسانات کے ضمن میں سورہ قریش میں تذکرہ کیا کہ’’ہم نے اہلِ قریش کو بھوک اورخوف سے نجات دی۔‘‘
اگر ہمیں من حیث القوم ایک خوف میں مبتلا کیا گیا ہے تو کیا یہ ’’ویک اپ کال‘‘ نہیں ہے؟کیا اب بھی بیدار ہونے کا وقت نہیں آیا؟
کیا ہم حکومتی ذمہ داریوں اور بچاؤ کے طریقوں پر ہی بات کرتے رہیں گے؟ سائنسی توجیہات تلاش کرتے رہیں گے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر گہرے بادل دیکھتے تھے یا تیز آندھی چلتی تھی تو اپنے اصحاب کے ساتھ مسجد کا رخ کرتے تھے۔آپؐ نے بارش کی دعا سکھائی۔ کسوف وخسوف کی امت کو تعلیم دی کہ ہم مادہ پرستوں کی طرح مادے کی بحثوں میں ہی نہ الجھے رہیں۔ ہمارے شعور کی سطح کو بلند کیا کہ ہم جانیں کہ
وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے… وہی خدا ہے
اگر ہمیں آزمائش میں وہ خدا نظر نہیں آتا تو ہماری اور ایک منکرِ حق کی نگاہ میں کیا فرق ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ فرمایا کہ
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی طبعی عوامل جاننے والا نہ تھا۔ جب طاعون یا کسی بیماری کی وبا عام ہوتی تھی تو آپؐ علاج پر زور دینے کے ساتھ دعا و وظائف بھی بتاتے تھے۔ علاج بھی سنتِ نبویؐ ہے، لیکن ساتھ ساتھ پلٹنے والا دل، جو صرف سائنسی توجیہات پر مطمئن نہ ہوجائے۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رجوع کرتے تھے، مسجد کا رخ کرتے تھے اور ذکر کی تلقین کرتے تھے تو آپؐ سے زیادہ کون صاحبِ فہم پیدا ہوسکتا ہے قیامت تک…؟ لہٰذا اس کو بیداری کا لمحہ بنایا جائے۔ اب مسجدیں بھری ہونی چاہئیں۔ اب فجر کے وقت گھر کے دروازے کی کنڈی کھلنی چاہیے، اب ہر گھر کو قرآن مرکز ہونا چاہیے، جہاں قرآن کھولا جائے اور اہلِ خانہ کے ساتھ پڑھا جائے۔
یہ کورونا وائرس جس کی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی، جو سانسوں کے ذریعے منتقل ہورہا ہے، جو اتنا خطرناک ہے کہ ممالک اپنی سرحدیں بند کررہے ہیں۔ سعودی عرب نے عمرہ زائرین پر پابندی لگادی ہے… یہ بہت خوفناک وائرس ہے۔ یہ خوف سورہ قریش والے خوف کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
یہ پلٹنے کی گھڑی ہے، معرفت کی گھڑی ہے۔ ہم کیا حاصل کرتے ہیں، ان لمحوں سے کیا کھوتے ہیں اور کیا پاتے ہیں…؟
اللہ اس آزمائش کو ہمارے لیے معرفت کا ذریعہ بنادے۔
اللہ پاک آپ ہمیں اپنے غضب اور عذاب سے ہلاکت میں نہ ڈالیے۔ ہمیں اپنی عافیتوں کی چادر میں ڈھانپ لیں۔ آمین یارب العالمین۔