میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو

4798

قدسیہ ملک
انسان کی تخلیق اللہ کے بے شمار معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے۔ ’آدم‘ عربی زبان میں انسان کے معنی رکھتا ہے۔ عبرانی میں ’ا‘ کے اضافے سے یہ آدام ہے، جس کے معنی مٹی کے ہیں۔ صحیح بخاری میں حدیث سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ’’اللہ نے آدم علیہ السلام کو مٹھی بھر مٹی سے بنایا جو مختلف زمینوں سے لی گئی تھی، اور آدم علیہ السلام کی اولاد اسی لیے مٹی کی ترکیب کے مطابق ہے۔ اسی لیے ابنِ آدم سفید، سرخ، سیاہ اور زرد ہے۔‘‘ تخلیقِ انسان سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور جنّات کو تخلیق فرمادیا تھا۔ ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہاکہ ’’میں زمین میں ایک فرماں روا بنانے والا ہوں‘‘ تو انہوں نے کہا ’’کیا تُو وہاں اسے بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری تعریف میں لگے ہیں اور تیری پاکیزگی کو عیاں کرتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا ’’مجھے ان کے نام بتائو اگر تم سچے ہو‘‘۔ وہ کہہ اٹھے ’’تُو پاک ہے! ہمیں کوئی علم نہیں سوائے اس کے جو تُو نے ہمیں دیا ہے۔ تُو ہی علم والا، حکمت والا ہے‘‘۔ اس نے کہا ’’اے آدم! انہیں ان کے نام بتا‘‘۔ پھر جب اس نے انہیں ان کے نام بتا دیے تو اللہ نے کہا ’’کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی باتیں جانتا ہوں، اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔‘‘ (بقرہ: 33)۔
اسی لیے تو کسی دانا نے کہاہے:۔

فرشتہ مجھ کو کہنے سے مری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو

ہندوستان میں اسلامی حملے شمالی حصے میں اموی عہد میں ہوئے۔ یہ حملے یہاں کے ہنود کے ظلم و زیادتی اور دینِ اسلام سے متعلق شر انگیزیوں اور فساد کاریوں کے انسداد کے ضمن میں ہوئے۔کیوں کہ سندھ کے راجا داہر کی سب سے پہلی اور بڑی غلطی یہ تھی کہ اُس نے دشمنانِ اسلام (علائی خاندان کے چند نوجوانوں) کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی تھی جس کی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نازیبا حرکتوں کا ارتکاب کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کا دوسرا جرم یہ تھا کہ راجا کے ہی ملک میں مسلمان مسافروں کو لوٹ لیا گیا تھا۔ یہ لوگ مظلوم تھے اور قرآن نے ایسے ظالموں سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حجاج بن یوسف نے نہایت عقلمندی سے کام لے کر اپنے سفیر کو راجا داہر کے پاس بھیجا اور مسلمانوں کی مدد کا خواستگار ہوا، مگر اس نے تعاون کے بجائے سخت سست جواب دیا اور کہاکہ تم خود ان لٹیروں سے نمٹ لو۔ گویا کہ راجا داہر کی نادانستہ غلطی تھی، اور اس طرح اُس نے مسلمانوں کو اپنے ملک میں حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کو لوٹنے والے راجا داہر کے ہی لوگ تھے۔ قرائن و شواہد سے یہی پتا چلتا ہے۔ بہرحال حملے کا آخری عمل محمد بن قاسم کے ذریعے وقوع پذیر ہوا، اور تھوڑی ہی مدت میں پورا سندھ اسلام کے زیرنگیں ہوگیا۔ محمد بن قاسم کے بعد یہاں اہم فتوحات تو نہ ہوسکیں، البتہ سندھ مرکزِ خلافت سے وابستہ رہا، اور جب خلیفہ عباسی کی سیاسی طاقت کمزور پڑگئی تو غزنی و بخارا میں ایک دوسری سلطنت قائم ہوئی جس کے حکمراں سبکتگین ہوئے۔ 712ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857ء کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔
سید شہاب الدین کے مطابق بھارت کے مسلمانوں کے مسئلے کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی، اقتصادی اور سماجی مسائل، فسادات، علی گڑھ، اردو، پرسنل لا، ملازمت وغیرہ جیسے تمام مسائل کا تعلق صرف اور ایک مسئلے کے ساتھ ہے، اور وہ مسئلہ ہے مسلمانوں کا عدم تحفظ۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند سال میں بھارت میں ایسی قوتیں زور پکڑ گئی ہیں جو دوسروں کو اپنے وجود میں جذب کرلینا چاہتی ہیں۔ یہ قوتیں ماضی میں بھی اِس کوشش میں مصروف رہیں لیکن اُنہیں کامیابی نہ ہوسکی۔ وہی قوتیں اب پھر برسرِ عمل ہیں کہ اردو ختم کرکے، تعلیمی اداروں کے نام اور نصاب تبدیل کرکے، یا مسجدوں پر قبضہ کرکے مسلمانوں کے الگ وجود، تہذیب اور کلچر کو ہندو مذہب کے اندر ضم کردیا جائے۔ یہ قوتیں مسلمانوں کے کلچرل تشخص کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اور ظاہر ہے کلچر میں مذہب ایک غالب عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی اُن کا اسلامی کلچر ہے۔ بھارت میں ہندو مت کے بعد اسلام کے پیروکار زیادہ ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی آبادی24.2 فیصد سے بھی زائد ہے، جو2011ء کی مردم شماری کے لحاظ سے 154 ملین اور 2008ء کی مردم شماری کے مطابق 272 ملین تھی۔ بھارت کی مسلم آبادی انڈونیشیا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم اقلیتی آبادی ہے۔ بھارت کے مسلمان بھارت میں پروان چڑھنے والے اسلامی کلچر کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں جو اُن کا انسانی،آئینی، قانونی اور سماجی حق ہے۔ لیکن بھارت کی حکمران جماعت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ امتیازی سلوک کسی بھی ملک اور سماج میں بدامنی کا باعث بن جاتا ہے۔ حکومتیں سمجھتی ہیں کہ بندوق اٹھاکر زبردستی امن بحال کرسکتی ہیں، یہ انتہائی غلط سوچ اور پالیسی ہے۔ کسی بھی ملک میں پائیدار امن ناانصافی اور امتیازی سلوک کے خاتمے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ بھارت دنیا کے بہترین ممالک میں شمار ہوتا تھا، جہاں آزادی اور جمہوریت کا راج تھا، لیکن یہ اس زمانے کے مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ نریندرمودی جیسا انتہاپسند اور متعصب شخص اس ملک کا وزیراعظم بن چکا ہے۔ ہندوؤں کی نفسیات زخم خوردہ ہے اور وہ ہر صورت میں ہندو عصبیت کی بنیاد پر ہندوستان پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی لیے کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا ہے تاکہ جس طرح فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے ذریعے مسلمانوں کو اقلیت میں بدلا جارہا ہے، اسی طرح کشمیر میں کیا جاسکے۔ ویسے حکومت چاہے بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی، وہ کشمیری اور ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق ایک ہی سوچ رکھتے ہیں کہ کسی طرح ہندوستان کی تاریخ سے مسلمانوں اور اسلام کے انمٹ نقوش مدہم کردیئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے تکریم انسانیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا (مفہوم): ’’جس شخص نے بغیر جان کے بدلے یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے کی سزا کے کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔ ‘‘ (سورۃ المائدہ)
بھارت میں مسلمانوں کا قتلِ عام کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ ماضیِ بعید میں مسلمان بھارت کی نصف آبادی تشکیل دیتے تھے، جبکہ اس وقت بھارت کی آبادی کا بڑا حصہ ہندوئوں کے بعد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ درحقیقت اس وقت بھارت میں ایک متشدد، تنگ نظر، انتہا پسند ہندو تنظیم کی حکومت ہے، جو کہ خطے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی حریف بنی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بین الاقوامی قوتیں جنگ لڑرہی ہیں، اور کہا جارہا ہے کہ انتہا پسندی اور مذہبی شدت پسندی عالمی امن کے لیے زبردست چیلنج اور بہت بڑا خطرہ ہے۔ مسلمان عرصۂ دراز سے اپنے ہندو بہن بھائیوں کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں اور گزشتہ چند سو سالہ تاریخ کے دوران ہرگز ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے نہیں ہوئے۔ برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے دوران بھی مسلمان عوام اور رہنما ہندو عوام اور رہنمائوں کے دوش بدوش سرگرم عمل رہے تھے، جس کا نتیجہ 1947ء میں برطانیہ سے آزادی کی صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ لیکن آج کل بھارتی دارالحکومت دہلی اور بھارت کے دوسرے شہروں میں مودی سرکار کی سرپرستی میں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور مودی سرکار کے پروردہ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ مسلم کُش فسادات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اُس سے مودی سرکار کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ دشمنی پوری دنیا کے سامنے واضح ہوگئی ہے۔
انتہا پسند بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے مسلح جتھوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکڑوں افراد کو شہید کیا اور مسلمانوں کی املاک پر بے دریغ حملے کرکے انہیں تباہ کردیا، اور وہ مساجد پر حملوں کے بعد وہاں ترنگا لہرانے سے بھی گریز نہیں کررہے۔ بھارت جو ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کا حامل ایک ایٹمی ملک ہے، عملاً ایک انتہاپسند، متعصب اور شدت پسند تنظیم کے تسلط میں جاچکا ہے، جس پر سوائے اقوام متحدہ کے زبانی دعووں کے، کسی غیر مسلم ملک کی جانب سے کوئی تشویش ظاہر نہیں کی جارہی۔
یہ انسان کدھر جارہا ہے، جو راستہ انسانیت کی طرف جاتا ہے اُس پر انسان کو چلنا برا لگتا ہے۔ آخر ہم کب انسان بنیں گے اور کب حالات بہتر ہوں گے؟ سوال یہ ہے کہ انسان کب خود کو مٹی سمجھے گا؟ کب مانے گا کہ اللہ جس نے اس کو بنایا وہ کتنا دکھی ہوگا جو انسان کے سچے دل سے بہائے جانے والے ایک آنسو پر فوری متوجہ ہوجاتا ہے۔ آخر ظالم و جابر انسان کب مانے گا کہ اللہ اُس کو اپنی انسانیت پر ظلم کرتے دیکھ رہا ہے اور سب لکھ رہا ہے، وہ دنیا میں بھی حساب لے گا اور آخرت میں بھی سخت سے سخت سزا ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’بے شک ہم نے انسان کو سب سے حسین صورت پر پیدا کیا۔‘‘(سورۃ التین) بلاشبہ انسان بہترین ساخت پر پیدا کیاگیا ہے لیکن اس نے اپنے آپ کو نیچوں سے نیچ کرلیا۔
تمام ملکوں کو چاہیے کہ کم از کم اپنے ہی مفادات اور امن کی خاطر ظلم اور امتیازی سلوک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اتحاد اور امن نعرے لگانے اور زبانی دعوے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ نعروں اور دعووں کا میدان بہت چھوٹا ہے۔ اتحاد حقیقی اور عملی ہونا چاہیے، عمل سے اس کا ثبوت دینا چاہیے۔ چین و میانمر کی حکومتیں کیوں انسانی اصول اور حقوق کو پامال کرتی ہیں؟ ان جرائم سے پتا چلتا ہے کہ جب انسان اپنی فطرت سے دور ہوجائے تو وہ رحم سے خالی ہوکر ظالم بن جاتا ہے۔ امریکا اور عالمی امن کے علَم برداروں کو چاہیے کہ وہ دہرا معیار ترک کرکے کشمیر، فلسطین، شام، برما، عراق، چین اور خصوصاً بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں، اور دنیا کے ہر خطے میں موجود انسانوں پر بے جا پابندیوں، انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور بہیمانہ قتلِ عام کا نوٹس لیں، تاکہ دنیا بھر میں پائیدار امن کا قیام عمل میں آسکے۔

حصہ