جس نے ایک منٹ میں پانچ بھارتی طیارے مارگرائے، نصف صدی بعد بھی ان کا ریکارڈ توڑا نہیں جاسکا
محمد محمود عالم… جنہیں دنیا اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے، کے آبا و واجداد کا تعلق ریاست بہار کے علاقے پٹنہ سے تھا، جہاں سے ہجرت کرکے وہ کلکۃ میں آباد ہوئے تھے… ایم ایم عالم نے 6 جولائی 1935ء کو جس گھرانے میں آنکھ کھولی، اس کا شمار کلکتہ کے تعلیم یافتہ گھرانوں میں ہوتا تھا۔ ان کے والد ایک سرکاری افسر تھے اور 1976ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو ڈپٹی سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ بہرحال 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ان کا خاندان اگلے ہی دن 15 اگست کو ایک بار پھر ہجرت کرکے کلکتہ سے ڈھاکہ منتقل ہوگیا۔ ایم ایم عالم نے اپنی ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی اور 1951ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول ڈھاکہ سے سیکنڈری سطح کا امتحان پاس کیا۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ مقابلے کا امتحان دیں اور سی ایس پی افسر بنیں، مگر انہیں بچپن ہی سے پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ پاک فضائیہ میں شمولیت کے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے انہوں نے فلائنگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ 1952ء میں وہ پاک فضائیہ کا حصہ بنے اور 2 اکتوبر 1953ء کو انہیں پاکستان ایئرفورس میں باقاعدہ کمیشن مل گیا۔ انہوں نے پوری جانفشانی سے اپنی تعلیم و تربیت کے مراحل مکمل کیے۔ 1955ء میں جب پاکستان کو امریکی ایف 86 سیبر لڑاکا طیارے فراہم کرنے کا معاہدہ ہوا تو ان کو اڑانے کی تربیت کے لیے منتخب کیے جانے والے ہوا بازوں میں نوجوان ایم ایم عالم بھی شامل تھے۔ انہوں نے یہ تربیت نہایت محنت سے مکمل کی۔ فروری 1964ء میں انہیں اسکواڈرن لیڈر کے عہدے پر ترقی دے کر ایف 86 سیبر طیاروں کے اسکواڈ نمبر گیارہ کی قیادت سپرد کی گئی۔ پاک فضائیہ میں شمولیت سے بچپن کے شوق اور جوانی کے خواب کی تعبیر تو انہیں مل گئی تھی مگر اصل مقصد کی تکمیل ابھی باقی تھی۔ یہ تمنا ان کے دل میں اکثر مچلتی رہتی تھی جس کی خاطر وہ پاک فضائیہ میں شامل ہوئے تھے۔ ستمبر 1965ء میں اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا موقع بھی فراہم کردیا… چھ ستمبر کو جنگ شروع ہوئی تو وہ سیبر طیاروں کی 1400 گھنٹے کی پرواز مکمل کرچکے تھے اور انہیں ان طیاروں کے تکنیکی اور فنی پہلوئوں پر زبردست مہارت حاصل ہوچکی تھی، اور سرگودھا میں پاک فضائیہ کے ہیڈ کوارٹرز میں تعینات تھے۔ سرگودھا کا ایئربیس اس جنگ میں بھارتی فضائیہ کا سب سے اہم ہدف تھا۔ بھارت کو طیاروں کی تعداد اور معیار کے لحاظ سے پاکستان پر واضح برتری حاصل تھی، اُس کے پاس ہمارے مقابلے میں زیادہ جدید اور تیز جہاز تھے۔ تعداد کے اعتبار سے بھی دونوں ملکوں کا عدم توازن نمایاں تھا۔ بھارت کا فضائی بیڑہ 476 لڑاکا اور 60 بمبار طیاروں پر مشتمل تھا، اس کے مقابلے میں پاکستانی فضائیہ میں سیبر لڑاکا طیاروں کی تعداد 104 اور بمباروں کی صرف 26 تھی۔ اس زبردست فرق کو پورا کرنے والی واحد قوت پاکستانی ہوا بازوں کا جذبۂ ایمانی تھا۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کے سبب انہوں نے نہ صرف پاک سرزمین اور اس کی فضائوں کا بھرپور دفاع کیا، بلکہ وہ کارہائے نمایاں بھی سرانجام دیئے کہ دنیا حیران رہ گئی۔
جنگ شروع ہوئی تو اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کو مشرقی پنجاب میں جالندھر کے آدم پور کے ہوائی اڈے کا ہدف دیا گیا، چنانچہ وہ اپنے دو ساتھیوں اسکواڈرن لیڈر علاالدین احمد اور فلائٹ لیفٹیننٹ سید اختر خاتمی کی قیادت کرتے ہوئے تین سیبر طیاروں میں روانہ ہوئے۔ جونہی وہ آدم پور کے قریب پہنچے، چار 140 ہاکسر ہنٹر طیاروں نے ان کی مزاحمت کی۔ برطانوی ساخت کے دشمن کے ان طیاروں کو سیبر طیاروں پر تکنیکی اعتبار سے واضح برتری حاصل تھی۔ مگر پاکستانی جانباز اس کی پروا کیے بغیر ان پر جھپٹ پڑے۔ ایم ایم عالم نے ’’جھپٹنا، پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا‘‘ کا دائو نہایت برق رفتاری سے آزمایا اور آن کی آن میں ایک ایک کرکے دشمن کے چاروں طیارے زمین پر آرہے۔ اس جھڑپ میں صرف تیس سیکنڈ کا وقت لگا تھا، جب کہ اپنے طیاروں کی کمک کے لیے آنے والا پانچواں طیارہ بھی ایم ایم عالم نے مزید نصف منٹ میں زمین بوس کردیا۔ یہ تاریخ کا پہلا اور شاید آخری موقع تھا کہ کسی ہواباز نے اپنے سے جدید اور بہتر تکنیکی صلاحیتوں کے حامل ایک دو نہیں، پورے پانچ طیارے صرف ایک منٹ میں مار گرائے تھے۔ یہ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کی فضائی تاریخ کا منفرد ریکارڈ ہے جسے نصف صدی سے زائد گزر جانے کے باوجود آج تک توڑا نہیں جا سکا۔
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
۔ 23 ستمبر کو جنگ بندی کے اعلان پر عمل درآمد ہونے تک ایم ایم عالم نے مختلف معرکوں میں دشمن کے 9 طیاروں کو تباہ کیا۔ اس جنگ کے دوران انہوں نے جس بے جگری سے دادِ شجاعت دی اور جرأت و بہادری کی جو بے مثال داستان رقم کی اُس کے اعتراف میں انہیں دو مرتبہ ستارہ جرأت کا اعزاز عطا کیا گیا جو نشانِ حیدر کے بعد سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ ان کا یہ کارنامہ ایسا ہے کہ وہ اس پر جتنا فخر کریں کم ہے، مگر عجز و انکسار کے پیکر ایم ایم عالم نے کبھی اس پر تکبر و غرور اور بڑائی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اسے سراسر اپنے خالق و مالک کا فضل قرار دیا۔ 1970ء میں انہیں جامعہ کراچی میں خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تو انہوں نے اس یادگار فضائی معرکے کا ذکر کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی تھی، میں نے اس معرکے میں اپنی آنکھوں سے ملائکہ دیکھے ؎۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ایم ایم عالم ایک راسخ العقیدہ مسلمان، سچے پاکستانی اور کھرے انسان تھے… وہ امتِ مسلمہ کی بیداری کے لیے شدید تڑپ اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد کے جذبے سے سرشار تھے۔ وہ جس دور سے پاک فضائیہ میں شامل ہوئے اُس زمانے میں فوجی میسوں اور کلبوں میں شراب نوشی ایک معمول سمجھی جاتی تھی، اور اس برائی سے گریز کرنے والے کو نکو سمجھا جاتا تھا، مگر ایم ایم عالم کھلم کھلا نہ صرف اس پر تنقید کرتے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکتِ خداداد کے مقاصد سے غداری اور بے وفائی ہے۔ اپنے اس مؤقف پر انہیں بارہا اپنے سینئر افسران کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑا، مگر وہ کسی کی پروا کیے بغیر استقامت اور پامردی سے اپنے مؤقف پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔
۔ 1971ء کے سانحے کے وقت ان کے خاندان کو تیسری بار ڈھاکہ سے کراچی ہجرت کرنا پڑی، کیونکہ ایم ایم عالم نے بنگلہ دیش کے بجائے پاکستان کو بطور وطن اپنانے کو ترجیح دی، حالانکہ انہیں بنگلہ دیش کی فضائیہ کا سربراہ بنانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان سے غداری کرکے اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کے بجائے اسلام کے ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے اپنی شناخت کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔ 1982ء میں ایئر کموڈور کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد ایم ایم عالم نے جہادِ افغانستان میں عملاً حصہ لیا، اور اس کے لیے پہاڑی علاقے میں کچھ دیر رہ کر جسمانی طور پر خود کو تیار کیا۔ جب وہ جہاد کے لیے سرحد پار پہنچے تو حزبِ اسلامی کے امیر انجینئر گلبدین حکمت یار نے خود ان کا استقبال کیا اور دورانِ جہاد مالِ غنیمت میں حاصل ہونے والا روسی پستول ایم ایم عالم کو بطور تحفہ پیش کیا۔
ایم ایم عالم کو خود بھی مطالعے کا بہت شوق تھا اور جو بھی ان سے ملنے آتا وہ اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتے۔ زندگی کے آخری ایام انہوں نے کراچی میں پاک فضائیہ کے آفیسرز میس میں کرایہ دار کی حیثیت سے بسر کیے، کہ اتنا بڑا قومی ہیرو ہونے کے باوجود وہ تمام عمر ذاتی گھر بنانے کے لیے وسائل فراہم نہیں کرسکے تھے۔ فضائیہ کے میس ہی سے وہ ہسپتال منتقل ہوئے، جہاں طویل علالت کے بعد آخر 18 مارچ 2013ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔