موت ایک اٹل حقیقت، جس کی یاد دہانی ضروری ہے

8404

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
۔’’آپؐ ان سے کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم کو آ پکڑے گی، پھر تم اس پاک پروردگار کی طرف لے جائے جائو گے جو ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جاننے والا ہے، پھر وہ تم کو سب کیے ہوئے کام جتائے گا۔ (اور ان کا بدلہ دے گا)۔‘‘ (سورہ جمعہ)
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کثرت سے یاد رکھنا امیدوں کے مختصر ہونے کا سبب ہے، دنیا کی طرف سے بے اعتنائی کا ذریعہ ہے، گناہوں سے توبہ کرتے رہنے پر ابھارنے کا سبب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک نوجوان کھڑے ہوئے اور عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ! مومنین میں سب سے سمجھ دار کون ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’موت کو کثرت سے یاد کرنے والا اور اس کے آنے سے پہلے پہلے اس کے لیے بہترین تیاری کرنے والا۔‘‘ آپؐ نے مَردوں کو قبرستان جانے کی ہدایت کی، کیوں کہ قبر کی زیارت موت کو یاد دلاتی ہے، دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی تیاری کے لیے انسان کمربستہ ہوجاتا ہے۔ آپؐ نے مُردوں کو غسل دینے کا حکم دیا کہ یہ (نیکیوں سے) خالی بدن کا علاج ہے اور اس سے انسان کو نصیحت اور عبرت حاصل ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’بیماروں کی عیادت کیا کرو اور جنازوں کے ساتھ جایا کرو کہ یہ آخرت کی یاد دلاتا ہے۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ کا ارشاد ہے کہ تعجب اور بہت زیادہ حیرت اُن لوگوں پر ہے جن کو (آخرت کے) سفر کے لیے توشہ تیار کرلینے کا حکم ملا ہوا ہے اور روانگیِ عنقریب کا اعلان بھی ہوچکا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ کھیل میں مشغول ہیں۔ مشکوٰۃ شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن بندہ مر کر دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے راحت پا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اندر چلا جاتا ہے، اور فاجر شخص کی جب موت وارد ہوتی ہے تو دوسرے لوگ اور آبادیاں، درخت، جانور سب اس کی موت سے راحت پاتے ہیں۔‘‘ اس لیے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں آفات نازل ہوتی ہیں، بارش بند ہوجاتی ہے، شہروں میں فتنہ فساد ہوتا ہے، درخت خشک ہونے لگتے ہیں، جانوروںکو چارہ ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مشکوٰۃ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ میرا مونڈھا پکڑ کر فرمایا ’’دنیا میں ایسے رہ جیسے کوئی اجنبی بلکہ مسافر ہوتا ہے، جب تُو صبح کرے تو شام کا انتظار نہ کر، اور جب شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر، اور صحت کے زمانے میں مرض کے زمانے کے لیے توشہ لے لے (کہ جو اعمال تندرستی میں کرتا ہوگا، بیماری کی حالت میں ان کا ثواب ملتا رہے گا)، اور اپنی زندگی میں موت کے لیے تیاری کرلے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔
موت کو یاد کرنا توبہ کا سبب بنتا ہے۔ اس سے مال میں قناعت نصیب ہوتی ہے، عبادت میں سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ موت سے غفلت گناہوں کے ارتکاب کا باعث ہوتی ہے۔ انسان کی ہوسِ دنیا اور حرصِ زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ عبادت سے بے نیازی آجاتی ہے۔ سمجھ دار ہے وہ شخص، جو اپنے نفس پر قابو رکھے اور موت کے بعد کام آنے والی چیزوں میں مشغول رہے۔ اور کسی بھی کام کے لیے اس کی تیاری ضروری ہے۔ جو شخص دنیا کے مشاغل میں الجھا رہے اُس کا دل موت کے ذکر اور اُس کے خیال سے غافل ہوجاتا ہے۔
موت کے بارے میں انسان کے چار قسم کے رویّے ہوتے ہیں:۔
-1 وہ شخص جو دنیا میں مشغول اور مصروف ہے اور اسے موت کا ذکر اس لیے اچھا نہیں لگتاکہ اس سے یہ ساری لذتیں چھوٹ جائیں گی، وہ موت کے ذکر سے گھبراتا ہے۔
-2 دوسرا وہ شخص ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تو ہے مگر موت کے ذکر سے اس لیے خوف زدہ ہوتا ہے کہ اس کی توبہ ابھی پختہ نہیں ہوئی۔ وہ اپنی اصلاح کی خاطر ابھی موت کو اپنے اوپر وارد نہیں دیکھنا چاہتا، کیوں کہ اپنی کوتاہی اور تقصیر سے ڈرتا ہے۔
-3 تیسرا شخص وہ ہے جس کی توبہ کامل ہے اور موت کو محبوب رکھتا ہے، موت کو اللہ سے ملاقات کا وقت سمجھتا ہے، وہ موت کو ہر وقت اور کثرت سے یاد کرتا ہے۔ حضرت حذیفہؓ اپنے انتقال کے وقت فرمانے لگے ’’محبوب سے ملنے کا وقت آگیا۔ یا اللہ تجھے معلوم ہے کہ ہمیشہ مجھے فقر، غنا سے زیادہ محبوب رہا اور بیماری صحت سے زیادہ پسندیدہ رہی، اور موت زندگی سے زیادہ مرغوب رہی۔ مجھے جلدی موت دے تاکہ تجھ سے ملوں۔‘‘
-4 چوتھا شخص وہ ہے جو رتبے کے لحاظ سے بلند ہے، کیوں کہ وہ خدا کی رضا کے مقابلے میں تمنا بھی نہیں رکھتا، وہ اپنی خواہش سے اپنے لیے نہ موت کو پسند کرتا ہے نہ زندگی کو۔ ایسے لوگ عشق کی انتہا میں رضا اور تسلیم کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لذتوں کو توڑنے والی چیز (موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ یعنی اس کے ذکر سے اپنی لذتوں میں کمی کیا کرو تاکہ اللہ کی طرف رجوع ہوسکے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’اگر جانوروں کو موت کے متعلق اتنی معلومات ہوں جتنی تم لوگوں کو ہیں، تو تم کو کوئی موٹا جانور دیکھنے کو نہ ملے۔‘‘ (یعنی موت کے خوف سے دبلے ہوجائیں)۔
حضرت عائشہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ ’’کوئی شخص بغیر شہادت کے شہیدوں میں شامل ہوسکتا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص دن میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرے۔‘‘ ان سب فضیلتوں کا سبب یہی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا انسان کے دل کی سختی کو کم کرتا ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے، آخرت کی تیاری پر آمادہ کرتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تم کو یہ معلوم ہوجائے کہ مرنے کے بعد تم پر کیا کیا گزرے گی تو کبھی رغبت سے نہ کھانا کھائو، نہ لذت سے پانی پیو۔‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’موت کو کثرت سے یاد کرو، جو شخص موت کا کثرت سے ذکر کرتا ہے اُس کا دل زندہ ہوجاتا ہے اور موت اس پر آسان ہوجاتی ہے۔‘‘ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ مجھے موت سے محبت نہیں ہے، کیا علاج کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے پاس کچھ مال ہے؟‘‘ عرض کیا: ’’ہے‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو آگے چلتا کردو۔ آدمی کا دل مال میں لگا رہتا ہے۔ جب اس کو آگے بھیج دیتا ہے تو خود بھی اس کے پاس جانے کے لیے بے قرار ہوتا ہے۔ اور جب پیچھے چھوڑ جاتا ہے تو خود بھی اس کے پاس رہنے کو دل چاہتا ہے۔‘‘
مشکوٰۃ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! اللہ کو یاد کرلو۔ اللہ کو یاد کرلو۔ عنقریب قیامت کا زلزلہ، پھر صور پھونکنے کا وقت آرہا ہے اور ہر شخص کی موت اپنی ساری سختیوں سمیت آرہی ہے۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رات کو علما کو بلاتے جو موت کا، قیامت کا اور آخرت کا ذکر کرتے… اور ایسا روتے جیسا کہ سامنے جنازہ رکھا ہو۔
حضرت ابراہیم تیمیؒ فرماتے ہیں: ’’دو چیزوں نے مجھ کو دنیا کی ہر لذت سے بے نیاز کردیا، ایک موت نے دوسرے قیامت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے کی فکر نے۔‘‘ حضرت کعبؓ فرماتے ہیں: ’’جو شخص موت کو پہچان لے اُس پر دنیا کی ساری مصیبتیں آسان ہیں۔‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’موت کا تذکرہ کثرت سے کیا کرو، دل نرم ہوجائے گا۔‘‘
موت کی سختی، نزع کی حالت اور اندیشہ ایسی چیزیں ہیں جو زندگی کے سارے عیش و آرام کو مکدر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ موت کی فکر اور اس کی یاد انسان کے لیے ایسی ہی ہے جیسے کوئی سپاہی گرفتاری کا وارنٹ لیے پھر رہا ہو کہ کب آکر گرفتار کرلے۔ ملک الموت ہر وقت، ہر لمحہ انسان کی تلاش میں ہے، پھر بھی انسان غافل اور بے فکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موت کی سختی آسان کرنے کے لیے ہمیشہ دعا مانگتے تھے۔ موت کی سختی اور نزع سے نجات اور آسانی کی دعا ہر صحابیؓ نے مانگی۔ حضرت لقمان کا ارشاد اپنے بیٹے سے ہے کہ ’’موت ایسی چیز ہے جس کا حال معلوم نہیں کہ کب آپہنچے۔ اس لیے پہلے سے تیاری کرلو۔ واقعی تعجب کی بات ہے کہ آدمی لذتوں میں مشغول ہو، لہو و لعب کی محفلوں میں شریک ہو، اور اس کو یہ معلوم ہوجائے کہ ایک سپاہی اس کی تلاش میں ہے تو اس کی ساری لذت، سارا عیش و آرام مکدر ہوجائے گا، بلکہ اسے صرف یہی معلوم ہوجائے کہ سپاہی کے پاس اس کے لیے وارنٹ گرفتاری ہے تب بھی اس کی راتوں کی نیند اڑ جائے گی، حالانکہ انسان کو معلوم ہے کہ ملک الموت اس پر مسلط ہے اور موت کی سختیاں اس پر وارد ہونے والی ہیں، پھر بھی اس سے غافل ہے۔
امام غزالیؒ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ موت کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دل کو سب سے فارغ کرکے موت کے بارے میں اس طرح سوچے کہ گویا وہ سامنے موجود ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب اور جانے والے احباب کا حال سوچے کہ کیونکر ان کو چارپائی لے کر مٹی کے نیچے دبادیا۔ ان کی صورتوں اور ان کے اعلیٰ منصوبوں کا خیال کرے اور سوچے کہ اب مٹی نے ان کی صورتوں کا کیا حال کردیا ہوگا، ان کے بدن کا ہر حصہ الگ ہوگیا ہوگا۔ کس طرح بچوں کو یتیم، بیوی کو بیوہ اور عزیز و اقارب کو روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کا سامان، ان کا مال، ان کے کپڑے سب یہیں پڑے رہ گئے۔ یہی حشر میرا ہونے والا ہے۔ جانے والے بھی کس طرح دنیا کی لذتوں میں مشغول تھے، آج مٹی میں پڑے ہوئے ہیں، آج کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔ دنیا کے دھندوں میں اتنے مصروف تھے کہ آخرت کی کوئی فکر ہی نہ تھی۔ مگر آج پائوں الگ پڑا ہے، زبان کو کیڑے چمٹ گئے ہیں، بدن کو کیڑے کھا رہے ہوں گے۔ کیسا کھلکھلا کے ہنستے تھے، آج دانت گرے پڑے ہیں۔ کیسی کیسی تدبیریں سوچتے تھے، برسوں کے لیے انتظام میں سرگرداں رہتے تھے، حالانکہ موت سر پر تھی۔ مرنے کا دن تو مقرر ہے، مگر انہیں نہیں معلوم تھا اور یہی حال میرا ہے۔ آج میں دنیا میں مشغول ہوں، کل کی خبر نہیں آئے کہ نہ آئے۔‘‘
امام اوزاعیؒ کہتے ہیں کہ ’’مُردوں کو قیامت میں اٹھنے تک موت کی تکلیف کا اثر رہتا ہے۔‘‘ حضرت شداد بن اوسؒ کہتے ہیں: ’’موت دنیا اور آخرت کی سب تکلیفوں سے زیادہ سخت ہے، وہ دیگ میں پکا دینے سے زیادہ سخت ہے۔ اگر مُردے قبر سے اٹھ کر مرنے کی تکلیف بتائیں تو کوئی شخص بھی دنیا میں لذت سے وقت نہیں گزار سکتا، میٹھی نیند نہیں سو سکتا‘‘۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمِ نزع تھا تو پانی سے بھرا ہوا پیالہ آپؐ کے قریب رکھا ہوا تھا۔ آپؐ بار بار دستِ مبارک کو پیالے میں ڈالتے اور منہ پر مَلتے تھے اور فرماتے تھے ’’یا اللہ نزع کی سختی پر میری مدد فرما۔‘‘
اے اللہ ہم سب کو بھی موت کی سختی سے نجات دے اور قبر کی منزلوں کو آسان کر، آمین۔

حصہ