۔’’حیدر بھائی، جب بھی ملک ترقی کی طرف گامزن ہونے لگتا ہے، کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ جس دن سے خان صاحب کی حکومت برسراقتدار آئی ہے، اسے ناکام کرنے کے لیے مصنوعی بحران پیدا کیے جا رہے ہیں۔‘‘
’’مثلاً کون سے بحران؟‘‘
’’کبھی اپوزیشن، تو کبھی ذخیرہ اندوز، کہیں میڈیا تو کہیں خاندانی سیاست دان مافیا کی صورت ترقی کے سفر کو روکنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
’’یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، اس میں کون سی نئی بات ہے!‘‘
’’حیدر بھائی، نئی بات تو ہے۔ ہر روز نئے محاذ پر لڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ ابھی دو روز قبل خان صاحب کہہ رہے تھے کہ انہیں ہر روز نئے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقائق بھی یہی ہیں۔ اب سرکاری ملازمین کو ہی دیکھ لیجیے، تنخواہ میں اضافہ نہ کرنے پر اسلام آباد سیکرٹریٹ کے ان ملازمین نے پہلے روزانہ کی بنیاد پر ایک گھنٹہ صبح اورایک گھنٹہ دوپہر وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے آفس واقع کیو بلاک پاک سیکرٹریٹ میں کئی روز تک احتجاج کیا، اب مستقل ہڑتال پر ہیں۔ اور تو اور ان ملازمین نے اب تو سیکرٹریٹ کی تالا بندی کرنے کی دھمکی تک دے دی ہے۔ اس احتجاج کی وجہ سے تمام دفاتر میں کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ایک منتخب حکومت کے خلاف سازش نہیں تو اور کیا ہے!‘‘
’’اگر کوئی اپنا جائزحق مانگتا ہے تو اس میں سازش کہاں سے آگئی!‘‘
’’کون سا جائز حق؟ میرے نزدیک سرکاری ملازم تو ریاست کا نوکر ہوتا ہے، وہ عوام کا خادم ہوتا ہے، اسے کارِ سرکار میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ایک سرکاری ملازم جسے ریاست باقاعدہ تنخواہ دیتی ہے، ریاست کے خلاف کس بنیاد پر ہڑتال کرسکتا ہے!‘‘
’’سرکاری ملازمین کی بھی ضروریاتِ زندگی ہوا کرتی ہیں، وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی بچے ہوتے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دیگر سہولیاتِ زندگی ان کا بھی حق ہیں۔ اگر وہ اپنے جائز مطالبات کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو اس میں کیا برائی! اور ویسے بھی ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ اب بچہ ماں سے نہ کہے تو پھر کس سے کہے؟‘‘
’’سرکاری نوکری، اچھی تنخواہ… اس کے علاوہ اور کون سے حقوق ہیں جو ان ملازمین کو چاہئیں؟‘‘
’’جو تم سوچ رہے ہو ایسا نہیں ہے۔ پاک سیکرٹریٹ کے ملازمین کے کچھ ایسے جائز مطالبات ہیں جو حکومت منظور نہیں کررہی، جس کی وجہ سے وہ سراپا احتجاج ہیں۔‘‘
’’مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ حکومت کسی ایسے جائز کام میں رکاوٹ ہو جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے۔‘‘
’’یہ بات سمجھنا آسان نہیں، اس کے لیے تحمل اور خاصا وقت درکار ہے۔ دیکھو میری بات بہت غور سے سنو، ہمارے یہاں ہمیشہ ارکانِ پارلیمنٹ ایسے تمام بلوں کو متفقہ طور پر منظور کرلیتے ہیں جن میں اُن کے لیے مراعات یا اُن کی تنخواہوں میں اضافہ کیے جانے کا ذکر ہو، جبکہ عوامی مسائل پر ان کا اختلاف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کسی بھی ایسے بل کے سلسلے میں جس میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سفارشات شامل ہوں، ہر جماعت نئے نکات شامل کرنے کی آڑ میں عوام کے بہترین مفادات کا نعرہ لگا کر مخالفت کردیتی ہے۔ ان کا اتفاق صرف اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے سلسلے میں ہی ہوتا ہے۔ میں نے متعدد مرتبہ ایسے بلوں کو چند منٹوں میں پاس ہوتے دیکھا ہے۔ میں سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی آدمی بھی ہوں، اس لیے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اُن کی مشکلات اور مسائل پر بات کرنا مجھے پسند ہے، یہی وجہ ہے کہ میں زیادہ تر ایسی جگہ وقت گزارنا پسند کرتا ہوں جہاں لوگوں کا رش ہو… کبھی کسی چوک پر، تو کبھی کسی چائے کے ہوٹل پر… اس طرح مجھے عوام کے معاشی حالات جاننے کا موقع مل جاتا ہے۔ میرا تعلق چونکہ ملازمت پیشہ طبقے سے ہے، اس لیے ایک سرکاری ملازم کے مالی حالات کے بارے میں مجھ سے زیادہ بھلا کون جان سکتا ہے! اور مجھ سے بہتر انداز میں کون حکمرانوں کو اس بات کا احساس دلا سکتا ہے کہ جن کے ووٹوں سے وہ آج ایوانوں میں بیٹھے ہیں اُن کی زندگی کیسے گزرا کرتی ہے! سرکاری ملازمت کرنے والے افراد، خاص کر گریڈ ایک سے پندرہ تک کا جو حال ہے اُسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ دفتر میں بابو ہوتے ہیں، لوگ انہیں سرکاری نوکری کرنے کی وجہ سے بااختیار اور مالی طور پر انتہائی مستحکم سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے جس کے لیے دفتر میں ایک میز کرسی ہو، عام آدمی کی رائے اُس کے بارے میں یہی ہوگی۔ کسی کو کیا خبر کہ اس شخص کی تنخواہ اتنی بھی نہیں جس سے وہ اپنا گھر چلا سکے۔ نچلے درجے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر ملازمین مشکل سے اپنے گھر کا دال دلیہ ہی کر پاتے ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا کیبن چلانے والا شخص مالی طور پر خاصا خوش حال ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمت کرنے والے افراد معاشرے میں سفید پوشی کی زندگی گزارتے ہیں، ان کی زندگی ایک حصار میں قید ہوا کرتی ہے، ماہانہ تنخواہ آتے ہی دودھ والے اور کریانہ والے کا ادھار چکانے میں چلی جاتی ہے، بجلی وگیس کے بل جمع کروانے یا دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انہیں ہر ماہ قرض لینا پڑتا ہے، دوسرے لفظوں میں ان کی ساری نوکری قرض کے بوجھ تلے دب کر پوری ہوجاتی ہے۔ بچوں کی تعلیم اور دوا دارو کے چکر میں کب وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو آن پہنچتے ہیں اِس کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا۔ کہنے کو وہ سرکار کے ملازم ہوتے ہیں لیکن مالی حالات کو دیکھتے ہوئے انتہائی قابلِ رحم ہوتے ہیں، جو ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے کہ اپنے گھرانے کی جائز خواہشات کو پورا کرسکیں۔ دن رات محنت کے بعد دو وقت کی روٹی ملنا ہی ان کا مقدر ہوا کرتا ہے۔ ایسی پریشانیاں دورانِ ملازمت ہی نہیں بلکہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی سرکاری ملازمین کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین معاشرے کا وہ بوجھ ہوتے ہیں جنہیں وہ محکمہ جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بیسیوں سال گزارے، کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ وہ اپنے جائز واجبات کے لیے اُسی دفتر کے چکر کاٹتے ہیں،کبھی اِس دفتر تو کبھی اُس دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے ذلیل ہوتے ہیں، اپنے حق (گریجویٹی) کے لیے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ نچلے درجے کے ملازمین کو ساری عمر نوکری کرنے کے بعد فقط چار سے پانچ لاکھ روپے گریجویٹی دی جاتی ہے، یہ رقم اتنی بھی نہیں ہوتی جس سے ایک پلاٹ بھی لیا جا سکے، جبکہ واجبات ملنے سے قبل ہی یہ رقم گھر کے ضروری کاموں مثلاً بچی کی شادی، تعلیم حاصل کرتے بچوں کی تعلیم کی تکمیل، لوگوں سے لیے گئے قرض کی واپسی کی نذر ہوجاتی ہے۔ پھر اس بات سے بھلا کون ناواقف ہوگا کہ مہنگائی کے اس دور میں چار سے پانچ لاکھ کی کیا حیثیت ہے! نوکری سے فارغ ہونے پر انہیں جو رقم ملتی ہے وہ خیرات سے زیادہ نہیں ہوتی۔ زیادہ تر سرکاری ریٹائرڈ ملازمین تو اسی غم میں دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اگر کوئی زندہ رہتا بھی ہے تو کم پینشن ہونے کی وجہ سے روزی روٹی کا محتاج ہوجاتا ہے، اورگھر کے حالات دیکھ کر اُسے بھی کوئی نہ کوئی بیماری لگ جایا کرتی ہے، یوں اس ریٹائرڈ سرکاری ملازم کے گھر بھوک اور افلاس کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر دورانِ ملازمت کسی شخص کی موت واقع ہوجائے تو اس کی بیوہ پر کیا گزرتی ہے، خدا کی پناہ۔ اسے اپنے خاوند کے واجبات کے لیے تنگ کیا جاتا ہے۔ عورت ذات، اوپر سے بیوہ… معاشرہ اس کے ساتھ جو ’’تعاون‘‘ کرتا ہے وہ ناقابلِ تحریر ہے۔ اور تو اور، جہاں پوری تنخواہ میں بھی گزارہ کرنا مشکل ہوتا ہو، وہاں ایک بیوہ آدھی پینشن سے بچوں کی تعلیم و تربیت، گھر کے اخراجات کس طرح پورے کرسکتی ہے! یہ حکمرانوں کا وہ ظلم ہے جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تم میری بات سمجھ گئے ہوگے۔‘‘
’’یہ جو کچھ بھی تم نے کہا، یا جن پریشانیوں کا ذکر کیا، یہ تو ہر شخص کی داستان ہے، تو پھر سرکاری ملازمین ہی قابلِ رحم کیوں؟ نجی اداروں یا کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے مالی حالات تو سرکاری ملازمین سے کئی گنا زیادہ خراب ہیں۔‘‘
’’سرکاری ملازم ہو یا نیم سرکاری ملازم… دہاڑی دار مزدور ہو یا کسی کارخانے میں نوکری کرتا شخص… جب کسی کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں اور حکمران بجائے دادرسی کرنے کے، اپنی عیاشیوں میں مشغول ہوں تو وہاں عذاب نازل ہوا کرتے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کو چھوڑیے، میں خان صاحب سے کہتا ہوں کہ خدارا اب بھی وقت ہے آنے والے بجٹ میں غریبوں کے لیے کسی ریلیف پیکیج کا اعلان کردیں، اور دورانِ ملازمت انتقال کرجانے والے تمام اداروں کے ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کے لیے نیب، ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرز پر قوانین بنادیں۔ ہرسرکاری ملازم یا کسی کارخانے میں کام کرنے والا شخص ریاست کا ہی نوکر ہوتا ہے، اس لیے تمام ملازمین کی ضروریات بھی ایک سی ہی ہوتی ہیں، اور سب سے بڑھ کر انسانوں کے درمیان کسی بھی قسم کی تفریق خدا کے بنائے ہوئے نظام کے خلاف ہے، لہٰذا موجودہ حکومت کو چاہیے کہ انسانیت کی قدر کرتے ہوئے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ خاص طور پر خان صاحب کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدے کے مطابق ملک کا خزانہ لوٹنے والوں سے لوٹی ہوئی دولت برآمد کروائیں اور عوام کی خوشحالی کے لیے ایسے اقدامات کریں جس سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔‘‘