جسم دنیا کی وہ واحد حقیقت ہے جس پر ہر کوئی اپنی مرضی چلانا چاہتا ہے۔ لیکن اس پر صرف اور صرف میرے اللہ کی مرضی چلتی ہے۔ وہ جتنی دیر تک اسے کمزور اور محتاج رکھتا ہے، یہ اُس سے ایک سیکنڈ پہلے بھی اٹھ کر اپنی مرضی نہیں دکھا سکتا۔ اللہ کا دعویٰ ہے کہ ’’وہی ہے جو ماؤں کے پیٹوں میں جس طرح چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے۔‘‘ (آل عمران:6)۔
وہ مالکِ کائنات جتنی دیر چاہتا ہے، اس جسم کو جاذب ِنظر، خوب صورت، توانا اور تندرست رکھتا ہے، اور پھر اُسے واپس محتاج و بے نوا بنادیتا ہے۔ میرا اللہ فرماتا ہے ’’اور ہم جسے لمبی عمر دیتے ہیں اسے تخلیقی اعتبار سے الٹ ہی دیتے ہیں‘‘ (یٰسین:67)۔ یہ جسم ہی تو ہے جسے منوں مٹی تلے دفن کرکے جب لوگ گھروں کو لوٹتے ہیں تو زمین میں موجود حشرات الارض اس کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ اسے دفن نہ بھی کریں تو چند دنوں کے اندر اس میں خود اتنے کیڑے پیدا ہوجائیں کہ وہ اسے اپنی خوراک بنالیں۔ یہ جسم اللہ نے مرد اور عورت دونوں کو یکساں عطا کیا ہے۔ یہ انسان اس قدر مجبور ہے کہ پیدائش سے پہلے پیٹ میں موجود اندھے، گونگے، بہرے، ذہنی طور پر معذور اور جسمانی طور پر لاغر بچوں کو بھی ایک صحت مند بچے کے طور پر دنیا میں لانے پر قادر نہیں ہے۔ پیدائشی معذوری، بڑھاپا اور جسمانی زوال، ایسی حقیقتیں ہیں جو حضرتِ انسان کی بے بسی کا مسلسل مذاق اڑاتی ہیں۔ اس بے بسی کے باوجود یہ انسان اپنی زندگی کے ایک مختصر سے عرصے میں… جسے شباب، جوانی یا تنومندی کہتے ہیں… بڑے بڑے دعوے کرتا ہے، اچھل اچھل کر خود کو دکھاتا ہے۔ یہ معاملہ صدیوں سے جاری ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں یکساں برابر ہیں۔ ہر کوئی عنفوانِ شباب میں خود کو یہی سمجھتا ہے جیسے وہ کبھی بچہ نہیں تھا اور اسے کبھی بوڑھا نہیں ہونا۔
لیکن گزشتہ ایک صدی سے جدید مغربی تہذیب کے کرتا دھرتا کارپوریٹ سرمایہ کاروں نے اسی مختصر عرصۂ شباب یعنی جوانی کو مرکز بنایا ہے، اور پھر صرف اور صرف خواتین کے جسم پر اجارہ داری کے لیے ایک نظام ترتیب دیا ہے، جسے مغرب میں نافذ کرکے اب دنیا بھر میں بزور نافذ کیا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے اصولِ فطرت بدل دیے ہیں اور اب یہ ’’بے چاری عورت‘‘ ساری عمر جوان ہی رہے گی اور اس کا جسم بھی قابلِ توجہ ہی رہے گا، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اس ’’بے چاری عورت‘‘ کی جوانی کے ان محدود پندرہ بیس سال کے دوران اُسے دنیا بھر کے میڈیا کا مرکز بنادیا گیا ہے۔ اس چکاچوند میں اس ’’بے چاری عورت‘‘ کو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا، اور ایک دن وہ جب اپنے جسم کے زوال کی سیڑھیاں اترنے لگتی ہے تو اسے اس روشن، چکاچوند معاشرے کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا جاتا ہے۔
عورت کو اس پیکر میں ڈھالنے کے لیے بہت محنت کی گئی ہے۔ اسے لاتعداد ترغیبات دی گئی ہیں۔ اُسے اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ تم ایک جسم ہو، صرف اور صرف ایک جسم… اور تمہیں اسی جسم کی آزادی اور خودمختاری کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ اس جسم پر صرف تمہارا ہی اختیار ہے۔ اگر تم سمجھتی ہو کہ اولاد کو دودھ پلانے سے اس جسم کی زیبائش متاثر ہوتی ہے تو چاہے اولاد نفسیاتی و جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجائے، اُسے اپنا دودھ مت پلاؤ، ہم تمہارے لیے دیگر بندوبست کیے دیتے ہیں۔ تمہاری شمع محفل زندگی، اگر تمہیں گھریلو زندگی نہیں گزارنے دیتی تو اس کے لیے یہ معاشرہ تمہارے بچوں، گھر، خاوند اور ماں باپ کے لیے لاتعداد کاروباری ادارے کھول دے گا۔ بچے ’’ڈے کیئرسینٹر‘‘ یا ’’بے بی سٹر‘‘ کے حوالے ہوسکتے ہیں، ماں باپ اولڈ ایج ہوم میں جا سکتے ہیں، خاوند کسی کلب یا ڈانسنگ فلور پر رات گزار سکتا ہے۔ تمہیں اس دنیا کے بازاروں میں جلوہ گر کرنے کے لیے ہی تو ہم نے لاتعداد فوڈ چینز کا جال بچھایا ہے۔ کچن کی ’’غلام زندگی‘‘ پر لعنت بھیجو اور خود بھی اس نئے ذائقے سے لطف اندوز ہو اور خاندان کو بھی اس میں شریک کرو۔ کس قدر ظالم ہیں یہ لوگ کہ اسکول میں پہلے دن داخلے سے لے کر جوان ہونے تک ایک بچی کو معیارات کے عذاب کے خواب دکھاتے ہیں۔ کارٹون اور کہانیوں میں ایسی زندگی پیش کی جاتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے وہ زندگی بھر ہلکان ہوتی رہتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں باربی گڑیا پکڑائی جاتی ہے جس کا جسم انتہائی متناسب ہوتا ہے، اور یہ بے چاری لڑکی پوری زندگی اس طرح کے جسم کی خواہش کرنے، اسے سنبھالنے اور اسے زوال سے بچانے کی جدوجہد میں غرق رہتی ہے۔
عورت کی اسی تگ و دو پر کئی سو ارب ڈالر کے کاروبار کی عمارت کھڑی ہے۔ پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بالوں تک عورت کا کون سا ایسا مقام ہے جسے بازار میں لاکر نہیں کھڑا کیا گیا! ہر چند سال بعد معیار بدل دیے جاتے ہیں۔ کبھی نسبتاً فربہ جسم خوبصورتی کا معیار ہے تو کبھی ’’سائز زیرو‘‘۔ بے چاری عورت اسی ترازو پر خود کو تولتی رہتی ہے۔ گندمی رنگت حسن قرار دی جاتی ہے تو ساحلوں کی ریت پر لیٹے لیٹے اپنا جسم جلا لیتی ہے۔ ایک تماشا گاہ ہے جس میں اسٹینڈرڈ کے طور پر کوئی معزز، محترم اور صاحبِ علم عورت نہیں دکھائی جاتی، معیار کے طور پر کوئی ماں پیش نہیں کی جاتی، کوئی محبت کرنے والی بیوی اور کوئی جان چھڑکنے والی بہن آئیڈیل نہیں ہے۔ اس عورت کو اس کے فطری کردار ماں کے اعلیٰ ترین منصب سے علیحدہ کرنے کے لیے بہت محنت کی گئی ہے۔ اس کے لیے دنیا کے ہر عالمی ادارے یا ریاست میں ایوارڈ اور انعامات تخلیق کیے گئے ہیں۔ بہترین ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، سائنس دان، ایتھلیٹ، ماڈل، اداکارہ وغیرہ۔ تخلیق، پراڈکٹ یا پرفارمنس کی بنیاد پر عورت کو اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا۔ لیکن اولاد کی تخلیق اور اس کی تربیت، جس میں کوئی مرد عورت کی برابری نہیں کرسکتا، جو ایک عورت پر اللہ کی عنایت ہے، مگر آج تک کسی آئن اسٹائن، اسٹیفن ہاکنگ، نیلسن منڈیلا یا سارتر کی ماں کو ایوارڈ یا انعام سے نہیں نوازا گیا۔ اُس ماں کو جس نے پوری انسانیت کو یہ لوگ تربیت کرکے تحفے میں دیے ہیں۔ جب تک یہ عورت ان خاندانی رشتوں کو ذہن سے محو کرکے صرف ایک فرد نہیں بنتی، ایک جسم نہیں بنتی، جدید کارپوریٹ نظام کا کاروبار نہیں چلتا۔ اس قدر ظالم ہے یہ تہذیبی نظام کہ جب تک یہ عورت ان کی جاذبیت کے معیارات پر پوری اترتی رہتی ہے اس پر کیمرے کی روشنیاں پڑتی رہیں گی، لیکن جیسے ہی وہ ان معیارات سے نیچے گرتی ہے تو کیمرے تو دور کی بات، محاورتاً کوئی اس پر تھوکتا بھی نہیں۔ وہ اپنے گھر کے باتھ روم میں گر کر مر جائے یا اولڈ ایج ہوم کی راہ داریوں میں، اسپتالوں میں کسمپرسی میں جان دے یا سڑک پر عبرت کا نشان بن جائے۔
اس جدید دنیا کے مقابلے میں میرے اللہ کی تعلیمات ہیں جن کا منظر ہی عجیب ہے۔ ایک لاغر، بیمار، نحیف و نزار اور پیپ زدہ جسم والی ماں کو ایک بیٹا جسے عرفِ عام میں مرد کہا جاتا ہے، آنکھوں سے لگاتا ہے، نازک پھول کی طرح اٹھاتا ہے۔ یہ منظر آپ کو گھروں، اسپتالوں اور سڑکوں پر جا بجا نظر آئیں گے۔ اگر کسی نے کثرت سے یہ مناظر دیکھنے ہوں تو حرمِ پاک میں عمرہ یا حج کرنے چلا جائے، اور دیکھے کہ کیسے اکڑی گردنوں والے مرد اپنی ماؤں کو کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، ان پر نچھاور ہوتے ہیں۔ کیسے بوڑھے بوڑھے خاوند اپنی بیویوں کو ہاتھ کا چھالا بنائے طواف کروا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بالکل برعکس آپ خالصتاً امریکا، یورپ سے ممبئی تک جسم کے گرد گھومتے دنیا کے کسی بھی بازار ِحسن کی گلیوں میں بوڑھی بوڑھی سسکتی، دم توڑتی عورتوں کو دیکھیں، وہ خوبصورت عورتیں جن کے ناز و ادا پر کبھی لوگ ہزاروں ڈالر نچھاور کیا کرتے تھے، آج ان کی جانب کوئی رحم کی نظروں سے بھی نہیں دیکھتا۔ یہ ہے اسی دنیا میں جسم کی معراج۔