عورت کو کبھی ہیچ سمجھنا نہ خدارا

1290

قدسیہ ملک
بہت سی دعاؤں ،آرزوؤں اور امیدوں کے درمیان جب پل کر جوان ہوئی تو ماں کو رشتے کی فکر ستانے لگی۔فکر کیوں نہ ہوتی۔آخر کو عورت ذات تھی۔پرائے گھر کی ہوناتھا۔باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ماں کے دل کا نور بڑے چاؤ محبتوں میں پل کر جوان ہوئی تھی۔
ماں کے سامنے اپنی جوانی کے سبھی واقعات ایک ایک کرکے ذہن میں آتے تھے۔ واقعی اس کا شوہر ایک نفیس،باکردار،خوش اخلاق اور ذمہ دار مرد تھا۔جس نے بیوی اور ماں کے حقوق کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی بہت احسن انداز میں تربیت کی تھی۔
بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں اس کے زیادہ لاڈ مت اٹھایا کیجئے،ماں فکرمندی کے عالم میں باپ کو سمجھاتی ۔ ارے میری بیٹی بہت سمجھ دار ہے تم دیکھنا جہاں بھی جائے گی گھر کا نام روشن کرئے گی۔اورپھرماں دن بھر کے داستان کے ساتھ کچھ رشتے بھی بتاتی جاتی۔جنہیں باپ کچھ ڈر کچھ خوف کچھ سوچتے ہوئے رد کردیتا ۔ بالآخر دونوں ایک رشتے پرراضی ہوگئے لڑکا بھی کچھ پڑھا لکھا تھا ۔ اپنا کاروباری تھا۔تین مہینے میں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا۔
سب کچھ بالکل صحیح چل رہا تھا۔ بس آنا جانا تھوڑامشکل تھا سو ماں باپ بھی چپ رہے کہ لڑکیاں اپنے سسرالوں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔اچانک ایک دن بیٹی کے سسرال سے فون آیا تیری بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ماں نے سینہ پیٹ لیا۔باپ کو چپ لگ گئی۔نہیں میری بیٹی ایسا نہیں کرسکتی۔
وہ دونوں روتے دهوتے بیٹی کے سسرال گئے ۔ سسرال والوں کا رویہ بہت ہتک آمیز تھا۔اور کیوں نہ ہوتا شوہر کے ہوتے ہوئے کسی کے ساتھ بھاگ جانا سراسر رسوائی ہے۔میں تو پہلے سال ہی سمجھ گئی تھی لیکن کچھ نہ کہتی تھی اب دیکھا کیا انجام ہوا تربیت کی تھی۔ہائے میرے بیٹے کی تو زندگی برباد ہوگئی۔اس نامراد کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔
یہ کہتے ہوئے ساس نے چھوٹی چار ساله نازش کو نانی کی طرف اچھالا ۔ وہ سہم کر اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگی جو منہ بسور کر گھر سے باہر نکل گیا۔نانی ننھی نواسی کو آنکھوں میں آنسو اور دل میں کرب لیے خاموشی سے اپنے ساتھ لے آئی ۔ باپ نے دوسرے دن تھانے میں بیٹی کی رپورٹ درج کروادی۔بابا تیری بیٹی بھاگ گئی ہے۔ ہم نے اسکے سسرال جاکر پوچھا تھا۔دوسرے دن تھانے آنے پر دور سے ہی تھانے دار نے اسے صدا لگائی۔نہیں ساب جی میری بچی ایسی نہیں تھی ۔ میں یہ نہیں مان سکتا۔آپ اس کے شوہر سے پوچھیں وہ سب بتادےگا میں آپ سے سچ کہتا ہوں یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ اس کے باپ نے روتے ہوئے تھانیےدارسے التجا کی۔ او بابا گھر جاؤ ایس پی صاحب راؤنڈپرآنےوالے ہیں ۔اور باپ کچھ سوچتے ہوئے خاموشی سے تھانے سے باہر آکھڑا ہوا۔ایس پی کی گاڑی رکتے ہی غموں کا مارا باپ بیٹی کا غم سنانے لگا۔اس کی التجا میں اس قدر سوز تھا کہ ایس پی فوری متعلقہ علاقے میں کاروائی کرتے ہوئے شوہر کو گرفتار کرلیا ۔ تھانےپہنچ کر دو چار چھترول لگتے ہی اسنے سچ اگل دیا۔وہ بیٹی سسرال والوں کے ظلم و ستم کا ایسا نشانہ بنی کہ لاش بھی ٹکڑے کرکے گھرکے قریب زیرتعمیر مکان میں دفنائی گئی تھی۔
کم جہیز لانے پر روز طعنے سننے کےباوجودوالدین سے کبھی کچھ نہ کہاتھا۔لیکن قدرت کو شاید اس ظالم خاندان کا ظلم کا پردہ فاش کرناتھا ۔ جبھی تو باپ کے دل میں رب نے یہ بات ڈالی۔یہ واقعہ ایک سال پہلے جنوبی پنجاب کے علاقے میں پیش آیا۔پچھلےسال کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں پولیس نے کاروائی کرتے ہوئےزیادتی کےبعدقتل کرنےوالےملزم کو گرفتار کرلیا۔ایس پی گلشن غلام مرتضیٰ نے بتایا مسمات کنیززوجہ نزیرحسین نےسی پی ایل سی کو اطلاع دی اس کے شوہر کا ذہنی توازن درست نہیں۔جس کی وجہ سے وہ اسے چھوڑ کر چلاگیا ہے۔اس کی چاربیٹیاں تھیں۔جن میں سےتین بیٹیاں یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں صرف ایک آٹھ سالہ بیٹی بچی تھی۔اس عورت کے شوہر کا ایک چچازاد جو اسے کے گھر آتا رہتاتھا۔ اس دن بھی بچی کو ٹافی دلانے کا بہانہ کرکے لےگیا ۔ دو دن بعد اس کافون آیا کہ ایک لاکھ روپے کابندوبست کردو ورنہ بچی کو مار دوں گا۔۔اس کے فون کے دو دن بعد کچرے کے ڈھیر سے بچی کی متعفن زدہ ملی ۔
جسے گلا گھونٹ کر قتل کیاگیا تھا۔گذشتہ سال ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے چودہواں میں 16 سالہ پر ذاتی دشمنی کے باعث معصوم لڑکی سے عبرتناک،شرمناک انتقام سے کون واقف نہیں۔اخبارات کے مطابق ظلم کا یہ رقص مخالف خاندان کی لڑکی پر پورے ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
آج کے ہمارے معاشرے میں انسانیت کی یہ تحقیر بہت تیزی کے ساتھ اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہے۔کہیں عورت اس ظلم کی چکی میں مرد کے ہاتھوں پستی ہے تو کہیں مرد مرد کے ہاتھوں مظلوم اور ظالم کا کردار ادا کرتاہے تو کہیں یہ مرد عورت کے ہاتھوں مظلوم ہے۔میری اور آپ کی آنکھیں آئے روز کسی اخبار کسی چینل کسی خبر میں انسانیت کا جنازہ اٹهانے کا منظر دیکھتی رہتی ہیں۔فائزہ الیاس ڈان اخبار میں لکھتی ہیں “پاکستان میں ہر سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی خاتون گھریلو تشدد(domestic violence)کا شکار ہوجاتی ہے”۔
آغا خان ہسپتال کے زیراہتمام منعقدہ تین روزہ قومی صحت و سائنس سیپوزیم سے خطاب کرتےہیں ڈاکٹر تزئین سعید علی نے کہاہےکہ گھریلو تشدد کے باعث عورت کی طبعی اور ذہنی کیفیت مکمل یا جزوی طور پر شدید متاثر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔مشہور ابلاغی محقق ڈاکٹر نثار احمد زبیری اپنی کتاب ابلاغ عامہ افکار و نظریات میں لکھتے ہیں ذرائع ابلاغ عامہ اور خاص طور پر ٹیلی ویژن اور فلمیں تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہیں کہ ناظرین کو کوئی کام دکھاکر انہیں وہ کام کرنا سکھادیا جائے۔ اس ضمن میں ایک مشہور تحقیق سماجی محقق نیل ملر (Neal Miller) اور جان ڈولر(John Dollard )نے کی ہے۔انہوں نے مشاہداتی آموزش کا نظریہ (Learning by Oberservation theory) پیش کیا جس میں اسی دیکھنے اور عمل کرنے کے نظریئےکو واضح کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جتنا گہرا مشاہدہ ہوگا۔اتنا تیزی سے عمل ہوگا۔اس ضمن میں انہوں نے چند نکات پیش کیے۔ 1۔جب پیغام میں دیکھنے کے لیے کچھ واضح طور پر موجود ہو۔ 2۔جب مشاہدہ کرنے والے اپنے طور پر سیکھی ہوئی بات بیان کریں یا اس پر عمل کر کے دکھائیں ۔ 3۔پیغام متاثر اسی وقت ہوگا جب سیکھی ہوئی بات پر عمل کر کے دکھایا جائے۔
اب ہم پاکستانی معاشرے پر اس نظریئے کی روشنی سے دیکھیں تو مقصد صاف واضح ہوجاتا ہے۔پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور بالعموم پرنٹ و سوشل میڈیا پر کی جانے والی ہر فعل و عمل کا تعلق اسی نظریئے کی روشنی میں جانچنے کی چھوٹی سی کوشش کرتےہیں۔
1۔ان ڈراموں فلموں میں مجرم جرائم اور مجرمانہ ذہنیت کا پرچار جس تواتر سے ہوتا ہے ایک عام فرد کے نزدیک اس پر عمل کرنے کی قوت میں اسی قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔اس حوالے سے جرم کی داستان،کرائم رپورٹنگ وغیرہ جیسے ڈرامے تواتر سے چینلوں پر نشر کیے جاتے ہیں۔
2۔ہمارے پاکستانی ٹی وی چینلوں میں عورت کے لباس کو مختصر کرتے کرتے اتنا مختصر کیا جاچکا ہے۔ ان ڈراموں کی بدولت پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی معاشرے کےہر طبقے ہر گروہ میں واضح دیکھی جاسکتی ہے۔
3۔خاندانی نظام کو منتشر کرنا اور اس کا شیرازہ بکھرنا ایک پاکستانی ڈرامے میں معمولی بات بن چکی ہے۔پاکستانی ڈراموں میں ہرشوہر کسی اور عورت سے اور ہربیوی کسی اور مرد کو اپنے شوہر سے زیادہ اپنے دکھ درد کا ساتھی سمجھتی ہے۔
4۔پاکستانی نیوز چینل پر ہونے والے قومی و بین الاقوامی مباحثوں میں بهی جو زبان سیاست دان اور بیوروکریٹ استعمال کرتے ہیں ۔وہی زبان عمومی طور پر عوام میں وقوع پذیری کے اثرات کے باعث اپنا اثردکھارہی ہے۔جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی انحطاط پذیری و اخلاقی گراوٹ کا شکار ہورہاہے۔
5۔زندگی میں صرف عیش و آرام اور بقول بابر بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق “کھالے پی لے جی لے” کی باربار تکرار کے باعث خوف آخرت رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہاہے۔
6۔ڈراموں میں خاندانی رشتوں سے نفرت اور ددھیالی سسرالی رشتوں سے بے تحاشا نفرت دکھائی جاتی ہے جس کے سبب ون یونٹ فیملی کا تصور عام ہوگیاہے۔جس کی توجیہہ کے لیےاسلام کاسہاراکیاجاتاہے ۔
7 ۔ان ڈراموں میں رشوت سفارش جهوٹ لالچ دهوکہ فریب مکاری کو مصلحت کے پردے میں لپیٹ کر اتنا خوشنما خوب صورت بناکر دکھایا جاتاہے کہ عوام الناس کے نزدیک ان افعال میں گناہ کا تصور قدرے کم ہوگیا۔اب لوگوں کے نزدیک مصلحت کے تحت ان سب کاموں کی ادائیگی باآسانی ہوجاتی ہے جس سے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے۔
8۔شراب نوشی و جوا اور مختلف منشیات کا استعمال دکھاکران پاکستانی ڈراموں میں ان تمام جرائم و گناہ کی طرف ہونے والی جھجھک تقریباً ختم کردی گئی ہے۔
9۔عورت کی آزادی اور حقوق نسواں کا نعرہ لگاکر عورت کو ایک سازش کے تحت اس کے قلعے،مضبوط حصار یعنی گھر سے نکال کر شمع محفل بنانے پر زور دیاجارہاہے۔ہر ڈرامے میں آفس لیڈی،جاب کرنے والی لڑکی یا اپنے فرائض کو یکسر نظرانداز کرتی خواتین کاکردار اسی سازش کی چند کڑیاں ہیں۔
10۔عورت کو اس کے مقصد سے ہٹاکو اسے محض تفریح طبع کے طور پر پیش کیاجارہاہے۔جس سے عورت کی عزت نہیں بلکہ تضحیک مطلوب ہے۔تاکہ مغربی عورت کی طرح پاکستان کی باوقار اور باحیاعورت بھی محض ایک ٹشو پیپربن جائے۔
ان پاکستانی ڈراموں میں سے چند انکار،باغی ،تیری رضا،محبت تجھ سے نفرت ہے،صلہ ڈر سی جاتی ہے،کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی،چیونگم،اڈاری،میں ماں نہیں بننا چاہتی،میرے پاس تم ہو، بیگانگی، جھوٹی،دیوانگی،میں ماں نہیں بننا چاہتی،آتش،دوبول،رسوائی،اور پاکستان میں کروڑوں کابزنس کرنے والی انڈین فلمیں شامل ہیں۔
ان تمام حقائق آپ کے سامنے دہرانے یا آشکار کرنے کا مقصد کسی خاص گروہ یا پارٹی کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں۔بلکہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کی جانی والی اس تجزیاتی رپورٹ کا واحد مقصد عوام کو کسی بهولےسبق کی یاددہانی،کسی مقصد کی جانب توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے۔ہمیں لوگوں کواس بات کی آگہی دینی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے پاس جینے کا ایک واضح مقصد موجود ہے ۔
یہ یہود نصاریٰ کے ترجمانی کرنے والے الیکٹرانک میڈیامالکان سوائے چند ایک کہ یہودوہنود کی خوشنودی اور ڈالروں کی امداد کی لالچ میں معاشرے کو اخلاقی گراوٹ کا اس حد تک شکار کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر رشتوں کا تقدس محبت،اخوت ، باہمی الفت اور باہمی احترام،خونی رشتوں سے پیار کی تمام کیفیات یکسرختم ہوجائیں ۔
اور وہی مادر پدر آزادیورپی معاشرہ بن جائے۔جس سے آج ایک مغربی عورت خود پریشان اوراضطراب کاشکار ہے۔آج مغربی معاشرے سے خاندان کا تصور کم سے کم ہوکرختم ہوتاجارہاہے۔ جسکے لیے اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرئے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

ہمیں اس ناپیدارمعاشرےکی زہریلی ہواسے اپنے پاک معاشرے کو بچانے کے لیےاپنے لوگوں میں آگہی پیداکرنی ہے۔لوگوں کو بیدار کرنا ہے۔اسلام کی روح اور اس کی اصل سے رائے عامہ میں شعور بیدار کرناہے۔خاندان کو انتشار سے بچاناہے۔ہر فرد کو اپنے حصے کاکام بھرپور انداز میں کرناہے۔اپنے فرائض کی آگہی کو اولین ترجیح دینی ہے۔اپنے حصے کی شمع اپنے ہاتھوں سے روشن کرنی ہے۔اپنی صفوں کو منظم کرناہے۔اپنے پاکستانی معاشرے کے مثبت پہلوؤں سے دنیاکو روشناس کروانا ہے۔اپنے خاندانوں کی باہمی اخوت کی ڈور سےمضبوط کرناہے۔ہم عورتیں ہی قوموں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔
ہم ہی وہ عورتیں ہیں جنھوں نے ہر دور میں اقوام کو مایوسیوں کی دلدل سے نکالاہے۔اقوام عالم میں ملک کا وقار بلند کیاہے۔آج بھی اگر ہم عورتیں اپنے محاذ پر کھڑی ڈٹ کر کھڑی ہوجائیں تو کوئی ہماری صفوں میں گھس کر ہمارے خاندانوں،ہماری نسلوں،ہماری بیٹیوں اور بیٹوں کو خراب نہیں کرسکتا۔اب ہمیں اپنے محاذکا خود دفاع کرنا ہے۔ ورنہ اس پاکستانی معاشرے کی شیرازہ بندی کے لیے تمام مورچے تیار اور تمام نیزےکسے جاچکےہیں۔بقول شاعر

اٹھو وگرنہ حشر بپا ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

حصہ