جوہر سعیدی کی یاد میں بزم نگارِ ادب پاکستان کا طرحی مشاعرہ

616

نثار احمد نثار
اردو کے ممتاز شاعر حضرتِ جوہر سعیدی 26 نومبر 1922ء کو ہندوستان کے مسلم ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے اور 20 فروری 1997ء میں اس دنیا سے کوچ کر گئے‘ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’بادِ سبک دست‘‘ 1980ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’سفارتِ گل‘‘ 1998ء میں ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے اختر سعیدی نے شائع کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب سیکڑوں اردو شعرا ہندوستان کے ہر حصے سے ہجرت کرکے کراچی آرہے تھے تو سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا کہ ’’تقسیم ہند کے نتیجے میں دہلی‘ لکھنؤ اور حیدرآباد دکن میں تو اردو شاعری کے مراکز اجڑ گئے ہیں‘ لیکن سندھ میں شاعری کا ایک نیا شہر آباد ہورہا ہے جس میں ہر مکتب فکر کے شعرا موجود ہیں۔‘‘ اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کی بھرپور عکاسی نثر کے علاوہ نظم میں بھی ہوتی تھی اور کبھی کبھی ایک ہی شعر پورے عہد کی اجتماعی فکر کا آئنہ دار ہوتا تھا۔ مثلاً ایک زمانے میں کراچی کی ثقافتی‘ سیاسی اور ادبی محفلوں‘ جلسوں اور جلوسوں میں اکثر مقررین اس شعر سے گفتگو کا آغاز کرتے تھے:۔

شب پرستو! درِ امکانِ سحر بند کرو
مجھ سے پہلے مرے خوابوں کو نظر بند کرو

اس عظیم شعر کے خالق حضرتِ جوہرسعیدی ہیں۔ جوہر سعیدی کے مجموعہ کلام ’’بادِ سبک دست‘‘ کی تعارفی تقریب کے موقع پر اردو کے ممتاز شاعر عبیداللہ علیم نے کہا کہ تھا کہ ’’جوہر سعیدی بوڑھے پہلے ہوئے جوان بعد میں۔‘‘ اس تناظر میں ان کا یاک شعر ملاحظہ فرمائیں:۔

نرم و نازک ہے گلابوں جیسا
وہ بھی نکلا مرے خوابوں جیسا

راقم الحروف کو اس تمہید کی ضرورت اس محسوس ہوئی کہ گزشتہ دنوں ادبی تنظیم بزم نگار ادب پاکستان نے فاران کلب کراچی میں بیادِ رفتگان کے سلسلے میں سینئر شاعر جوہر سعیدی کی یاد میں رشید اثر اور ظفر محمد خان ظفر کی مجلس صدارت میں ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا۔ مہمان خصوصی منیف اشعر ملیح آبادی تھے جب کہ مہمان اعزازی نسیم شیخ اور مہمانان توقیری ڈائریکٹر جنرل وفاقی محتسب جناب مبشر نعیم صدیقی اور پی ٹی وی پروڈیوسر سکندر رند تھے۔ پروگرام کا آغاز ننھی قاریہ شارقہ علی کی آواز میں تلاوت ِ کلام پاک سے کیا گیا بعدازاں نظر فاطمی نے نعت رسولؐمقبول پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ نظامت کے فرائض بزم نگار ادب پاکستان کمے صدر واحد رازی نے ادا کیے۔ پروگرام کے پہلے حصے میں جوہر سعیدی کے نزدیک ترین دو شعرا نے ان کی شخصیت اور فن پر گفتگو کی۔ مجلس صدارت کے پہلے صدر ظفر محمد خان ظفر نے جوہر سعیدی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مجلس کے دوسرے صدر جوہر سعیدی کے انتہائی قریبی ساتھی رشید اثر نے جوہر سعیدی کی شخصیت اور انکے فن پر سیر حاصل گفتگو کی اور ان کے ساتھ اپنی یادداشتوں کو شیئر کیا۔ رشید اثر نے جوہر سعیدی کو ایک بڑا شاعر قرار دیا بعدازاں جوہر سعیدی کے صاحبزادے معروف شاعر اختر سعیدی نے اپنے والد کا کلام سامعین کی نذر کیا اور خوب داد سمیٹی۔ پروگرام کا دوسرا حصہ طرحی مشاعرہ تھا جس میں 38 شعرا نے طرح پر کلام پیش کیا۔ بقول صدر مشاعرہ اتنی بڑی تعداد میں شعرا کا طرحی کلام کہنا یقینا شعرا کی بزم نگار ادب پاکستان سے محبت کا سبب ہے انہوں نے کہا کہ بزم نگار ادب پاکستان تسلسل کے ساتھ مشاعروں کا انعقاد کر رہی ہے اور شعرا واقعی بہت عمدہ کلام کہہ رہے ہیں‘ بزم شعرا دم توڑتی ہوئی طرحی روایت کو زندہ کر رہی ہے اس میں بزم کے چیئرمین سخاوت علی نادر کی خداداد صلاحیتوں کا بھی بڑا دخل ہے وہ بڑی محنت سے ادب کی محفلیں سجاتے ہیں اور شعرا کی ادبی خدمات پر انہیں نگار ادبی ایوارڈ اور دیگر تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔ رشید اثر نے بھی بزم نگار ادب کو اتنے اچھے اور معیاری طرحی مشاعرہ کے انعقاد پر زبردست خراج تحسین پیش کیا اور ان کی ادب نوازی کی تعریف کی۔ شعرا کو جوہر سعیدی کا مصرع طرح ’’ہے تنگ اگر دشت نوردی سے تو گھر جا‘‘ مشاعرہ سے پندرہ دن قبل ہی دے دیا گیا تھا جس پر نہ صرف ملک کے مختلف شہروں سے شعرا نے طبع آزمائی کی بلکہ بیرونی دنیا سے بھی بذریعہ فیس بک اور واٹس ایپ کلام بھیجا گیا۔ بیرون کراچی کے جو شعرا براہ راست مشاعرے میں شریک نہ ہو سکے لیکن اپنا طرحی کلام ارسال کیا ان کے سمائے گرامی ہیں اختر امام انجم‘ سہسرام بہار (بھارت)‘ اسلم راہی (اسلام آباد)‘ امین اوڈیرآئی (اودیرو لعل)‘ قیوم واثق (جدہ) اس کے علاوہ دبستان کراچی کے وہ شعرا جو مشاعرے میں بوجوہ شریک نہ ہوسکے لیکن اپنا کلام ارسال کیا ا ن میں ریحانہ احسان‘ شجاع الزماں خان اور علی اوسط جعفری شامل ہیں۔ اس طرحی مشاعرہ میں 38 شعرا نے اپنا طرحی کلام پیش کیا اور سامعین سے خوب داد سمیٹی۔ جن شعرا نے مشاعرہ میں براہ راست کلام پیش کیا ان مین رشید اثر‘ ظفر محمد خان ظفر‘ منیف اشعر ملیح آبادی‘ نسیم شیخ‘ اختر سعیدی‘ عبدالمجید محور ‘حامد علی سید‘ محمد علی زیدی‘ سخاوت علی نادر‘ احمد سعید خان‘ حنیف عابد‘ نورالدین نور‘ کاشف علی ہاشمی‘ واحد رازی‘ نظر فاطمی‘ افسر علی افسر‘ عاشق شوکی‘ ضیا زیدی‘ زاہد علی سید‘ تنویر حسین سخن‘ یاسر سعید صدیقی‘ شارق رشید‘ علی کوثر‘ چاند علی‘ شائق شہاب‘ فخر اللہ شاد‘ ظفر بلوچ‘ ہما عظمیٰ‘ طاہرہ سلیم سوز‘ خضر حیات‘ ناز عارف‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ قمر آسی‘ سید عتیق الرحمن‘ سید عرفان محب اور اوج ترمذی شامل تھے۔ اس موقع پر بزم نگار ادب پاکستان کی جانب سے صدر مشاعرہ ظفر محمد خان ظفر اور مہمان خصوصی منیف اشعر آبادی کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات پر نگار ادب ایوارڈ پیش کیا گیا جب کہ مشاعرے کے دوسرے صدر رشید اثر‘ مہمانان توقیری مبشر نعیم صدیقی اور سکندر رند کو اجرک پیش کی گئی جب کہ اختر سعیدی کو جوہر سعیدی مرحوم کی تصویر کا ایک پورٹریٹ پیش کیا گیا۔

ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کا 13 واں سمندری مشاعرہ

ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کسی تعارف کی محتاج نہیں‘ اس ادارے کے تحت ریڑھی گوٹھ لانڈھی کراچی میں اسپتال‘ اسکول‘ مدارس اور ہانی دستر خوان عوام الناس کی خدمت کے لیے موجود ہیں اس کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں بھی اس ادارے کے

 تحت رفاہی کام جاری ہے اس ادارے کے روح رواں مظہر ہانی ہیں جو کہ عبدالستار ایدھی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں‘ وہ ایک شاعر بھی ہیں اس حوالے سے وہ اکثر و بیشتر مشاعرہ ترتیب دیتے ہیں۔ سمندری مشاعرہ بھی ان کی ایجاد ہے کہ وہ پندرہ شاعروں کو کشتی میں بٹھا کر سمندر کی سیر کراتے ہیں‘ کشتی کو سمندر میں لنگر انداز کرکے مشاعرہ شروع ہوتا ہے‘ مغرب سے ذرا پہلے کشتی ساحل پر آجاتی ہے‘ تقریباً چار گھنٹوں پر محیط یہ پروگرام دلچسپی کا حامل ہوتا ہے۔ گزشتہ اتوار کو مظہر ہانی نے طاہر سلطان کے اعزاز میں 13 ویں سمندری مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت حامد اسلام خان نے کی اور نظامت کے فرائض رشید خان رشید نے انجام دیے اس موقع پر طاہر سلطانی کو دس ہزار روپے اور نشان سپاس سے نوازا گیا۔ صاحب صدر نے کہا کہ انہوں نے مظہر ہانی کے اداروں کا دورہ کیا ہے اور وہ ان کے کام سے بہت خوش ہیں نیز سمندری مشاعرہ بھی ایک خوش گوار تجربہ ہے‘ آج کی محفل میں بہت اچھی شاعری پیش کی گئی جن شعرا نے حمدو نعت پڑھیں وہ بھی فکر انگیز کلام تھا۔ اس قسم کے پروگرام ہوتے رہنے چاہئیں۔ مظہر ہانی نے کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کے لیے ہر ممکن حد تک تمام ادبی اداروں سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ ادبی ذوق میری فطرت کا حصہ ہے‘ میرے گھر پر بے شمار مشاعرے ہوئے ہیں جن میں پاکستان کے نامور شعرا بھی شریک ہوتے رہے ہیں میںآج بھی شعر و سخن سے جڑا ہوا ہوں حالانکہ فلاحی کاموں کی مصروفیت اپنی جگہ ہے لیکن یہ میرا شوق ہے کہ میں اچھی شاعری سنوں لہٰذا میں اپنے دوستوں کو جمع کر لیتا ہوں اور ہم سب انجوائے کرتے ہیں اس موقع پر مظہر ہانی نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ ایک مشاعرہ فارم ہائوس میں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کی طرف سے غریب و نادار شاعر کی بیٹی کی شادی پر پچاس ہزار روپے کا جہیز کا سامان مہیا کیا جائے گا۔ صاحبِ اعزاز طاہر سلطانی نے کہا کہ وہ ممنون و شکر گزار ہیں کہ مظہر ہانی نے ان کے لیے پروگرام ترتیب دیا۔ اس سمندری مشاعرے میں اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ طاہر سلطانی‘ رشید خان رشید‘ یوسف چشتی‘ گل انور‘ شارق رشدی‘ افضل ہزاروی‘ آسی سلطانی‘ اسحاق خان‘ حامد علی سید‘ مظہر ہانی‘ عزیز الدین خاکی اور ذوالفقار حیدر پرواز نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ