مشکل سوال

631

حمیرہ جاوید
عصر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے میرے بیٹے ولی اللہ نے نہ جانے کیا سوچ کر سوال کیا کہ ’’امی کس مسلک کی مسجد میں جائوں آج تک آپ نے واضح ہی نہیں کیا کہ ہم کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا کہ پہلے قریب کی مسجد سے باجماعت نماز ادا کر آئو پھر اس بات کی وضاحت کرتی ہوں۔
نماز کی ادائیگی کے بعد وہ میرے سامنے دوبارہ سراپا سوال تھا۔ میں نے اسے سورۃ روم کی ایک آیت کا ترجمہ سنایا ’’اے جماعت مومنین تم مومن ہونے کے بعد شرک کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا‘ تم ان میں سے نہ ہو جانا جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور اپنے اپنے فرقہ پر مطمئن ہوکر بیٹھ گئے جس پر بدستور کاربند ہیں۔‘‘
بیٹا فرقہ بندی سے دور رہنے کی بہت سی مثالیں ہیں‘ آپ نے اپنی نصابی کتابوں میں کئی مرتبہ حضورؐ کا آخری خطبہ پڑھا لیکن صرف اسے پڑھا‘ سمجھا نہیں‘ اس کے لفظوں پر غور نہیں کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں واضح طور پر فرمایا:
’’اے مسلمانو! میرے بعد اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور فرقہ فرقہ نہ ہو جانا۔‘‘
اور آج جھگڑا ہی اس بات پر ہے کہ آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ یا ہمارا مسلک سب سے بہتر ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس بات کو اپنے اشعار میں یوں ڈھالا:۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کو یہی باتیں ہیں

مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو فروغ دے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا وہ مسلمان جو کہ جسدِ واحد کی طرح تھے کہ جسم کے کسی حصے میں درد ہوتا تو پورے جسم میں درد ہوتا ایک جان دو قالب کے مثل تھے مسلمان ایک جتھا تھے جب مل کر دین اسلام کی سربلندی کی خاطر چڑھائی کرتے تو دشمن کے دل دہل جاتے لیکن آج اس جتھے کو فرقہ واریت میں تقسیم کرکے کفار نے ان پر غلبہ پا لیا اور ہر میدان میں مسلمانوں کو مات پر مات ہوتی گئی۔
سورۃ آل عمران میں ارشاد ربانی ہے ’’مضبوطی سے پکڑ لو اللہ کی رسی اور ’’جدا جدا‘‘ نہ ہوجاناا ور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت جو اس نے تم پر عطا کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے الفت پیدا کردی تمہارے درمیان اور آپس میں تم بھائی بھائی بن گئے۔

دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

اور آج مسلک کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ حد تو یہ ہے کہ مساجد بھی علیحدہ علیحدہ کر لیں ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سننے کو راضی نہیں‘ ایک مسلک کہتا ہے اذان سے پہلے درود و سلام بھیجیں گے اور اپنی محبت کا اظہار کریں گے اور دوسرا اس کا انکاری ہے‘ کسی کو رفع یدین کرنے پر اعتراض ہے تو کسی کو نماز ادا کرنے کے طریقے پر سورۃ توبہ میں ارشاد فرمایا گیا ’’جو مسجد مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی ہو اس میں قدم نہ رکھو۔‘‘
اور ہم خود کو سنی وہابی‘ دیوبند اور اہل حدیث کہنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں۔ کیا محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف چاہنے کا نام ہے یا اپنی ذات کو آپؐ کی ذات میں گم کر دینے کا۔
اپنے رب اور نبیؐ سے محبت کا اظہار احادیث اور سنت نبویؐ پر یکساں عمل کرنے پر ہے نہ کہ دین کو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کا۔ سورۃ فرقان میں ارشاد ہے ’’حکم خداوندی اور حکم رسولؐ پر عمل نہ کرنے والوں کے متعلق حضورؐ قیامت کے روز فرمائیں گے کہ اے باری تعالیٰ! یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیرے قرآن پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔‘‘
اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ وہ نبیؐ جن کی محبت کے دعوے پر ہم جان لینے دینے پر تلے ہیں‘ اگر اس نبیؐ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہو گئے تو اس نبیؐ کی امت اس لمحہ کا سامنا کیسے کرے گی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دین پر جمع کیا‘ ہم اُن کے امتی ہیں ‘ ان کی محبت کے دعویدار خود کو فرقہ واریت میں کس طرح بانٹ سکتے ہیں‘ یہ ہمارے لیے لمحہ فکر ہے۔ میری وضاحت سن کر ولی اللہ آج واقعی ولی اللہ لگے‘ پلٹ کر جواب ہی ایسا دیا انہوں نے۔
’’امی میں بنائوں گا وہ مسجد جہاں سب مل کر نماز پڑھیں گے‘ جو فرقہ واریت کی فضا سے پاک ہوگی۔‘‘

منفعت ایک ہی اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی‘ اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ماں ہونے کے ناتے ہمارا فرض ہے کہ بچوں کے دماغ میں دین سے قربت اور اس کے لیے سمجھ پیدا کرنے کا بیج بویں۔ یا اللہ ہمیں ہمارے نیک مقاصد میں کامیاب فرما‘ آمین۔

حصہ