عورت کیا چاہتی ہے۔۔۔۔؟۔

1347

یومِ خواتین کے سلسلے کا ایک پروگرام

فرحی نعیم
عورت گھر اور خاندان کی بنیادی اکائی ہے۔ خاندان کا قیام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ جب تک خاندان کا یونٹ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مضبوط اور متحرک ہے، انسانی زندگی بھی پُرسکون اور مطمئن ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہے تو انسانی زندگی بھی پُرامن نہیں۔
عورت تو تہذیبوں کا ستون اور نسلوں کی امین ہے۔ آج ہمارے معاشرے کو دین و اقدار کی حامل ایک ایسی تعلیم یافتہ عورت کی ضرورت ہے جو اپنے خاندان و سماج کو گمراہی کی سمت لے جانے کے بجائے مثبت اور سیدھے راستے پر چلا سکے۔ وہ راستہ جس کی رہنمائی دین کرتا ہے۔
اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے محترمہ فریدہ پراچہ کے گھر ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا جہاں مؤثر خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
گفتگو کا عنوان تھا ’’آج کی عورت کیا چاہتی ہے؟‘‘ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد جے آئی یوتھ کی نگراں محترمہ کہکشاں حنفی نے کہا کہ عورت ہر روپ میں محترم ہے، گھروں میں سکون تب ہی ہوتا ہے جب آپس میں احترام اور اتفاق ہو۔ ہم آج کی نشست میں صرف عورت کے مسائل ہی نہیں دیکھیں گے بلکہ اس کا حل بھی ڈھونڈیں گے۔
کالم نگار اور مصنفہ محترمہ غزالہ عزیز نے ’’اسلام کی روشنی میں عورتوں کا کردار‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے پہلے تو خواتین کا شکریہ ادا کیا، اور پھر اپنی گفتگو کی ابتدا کرتے ہوئے کہا:’’ آج کی عورت کیا چاہتی ہے؟ اس عنوان کے تحت میڈیا کچھ بھی کہتا رہے، لیکن ہم یہاں قرآن و حدیث کے حوالے سے غوروفکر کریں گے۔ مغرب کی چمک دمک نے آج کی عورت کی نظر کو خیرہ کردیا ہے۔ آج کی عورت کی چاہت قدردانی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اسے سراہا جائے، اس کی تعریف و پذیرائی کی جائے۔ بحیثیت گھریلو خاتون جب اس کی تعریف نہیں ہوتی تو وہ اس راستے کا انتخاب کرتی ہے جہاں اس کی ستائش کی جائے۔ اسلام نے عورت کی قدردانی رکھی ہے، اس کو حقوق عطا فرمائے ہیں۔ اسلام عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مردوعورت کے دائرے الگ رکھے ہیں لیکن ان میں انصاف رکھا ہے۔ آج کی دنیا میں مال اور سرمائے کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے معاش اور عورت کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد کو تفویض کردی۔ مرد کا دائرہ گھر سے باہر کردیا اور عورت کو گھر کے اندر کی ذمہ داری دی۔ بچوں کی پیدائش، ان کی پرورش عورت کو دی، کیوں کہ وہی اتنی تکلیف برداشت کرکے بچوں کو پالتی ہے۔
مغرب کا مطالبہ عورت سے یہ ہے کہ خود کمائے، خود کھائے، جو کہ بالکل متضاد ہے۔ اسلام سے قبل عرب کے جو حالات تھے اُن میں عورت کا وجود باعثِ شرم و ندامت تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ کا چہرہ غم و غصے اور پشیمانی سے سیاہ پڑ جاتا۔ اسلام نے ایسے وقت عورت کے حقوق وضع کیے جن کے حصول کے لیے آج یہ ترقی یافتہ قومیں شور مچا رہی ہیں۔ جو حقوق مسلمان عورت کو آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے مل گئے تھے مغرب آج اُن پر سوچ بچار کررہا ہے۔ وہ عورت پر گھر اور معاش کی دہری ذمہ داری ڈال کر سمجھتا ہے کہ عورت آزاد ہے۔ حالانکہ یہ آزادی نہیں بلکہ آزادی کے نام پر جبر ہے۔
اسلام نے عورت کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا۔ پاک دامن شوہر کے انتخاب کا حق، نکاح کو ختم کرنے کا حق، نکاح کی پیش کش کرنے کا حق، اور شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کا حق دیا ہے جو احادیث سے ثابت ہے۔ عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ بلند کردار، اچھے اخلاق اور صاف ستھری عادات کے مالک مرد سے نکاح کی خواہش کرے۔ اگر وہ بیوہ یا طلاق یافتہ ہے تو اسے اپنے لیے آنے والے رشتوں کو پسند یا مسترد کرنے کا بھی پورا اختیار ہے۔ اگر شادی شدہ زندگی مسائل اور جھگڑوں کا شکار ہے تو عورت کو اختیار ہے کہ وہ خلع لے کر اس بندھن کو توڑ ڈالے۔ اسی طرح وہ نکاح کی پیشکش بھی کرسکتی ہے جس طرح حضرت خدیجہؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی۔
یہ وہ پاک صاف راستہ ہے جو برائی اور بے راہ روی پر جانے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ہم نے ان اسلامی راستوں کو ازخود برا سمجھ کر سائیڈ پر کردیا جس کی وجہ سے آج کا نوجوان برائی پر چلتے ہوئے ہر حد پار کررہا ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے، جب کہ مغرب ہمیں، خاص طور پر عورت کو یہ باور کرا رہا ہے کہ تمہارے مذہب نے تم کو چادر اوڑھا کر قید کردیا، تم کو وراثت اور گواہی میں آدھا حصہ دیا، تم کو مرد کی باندی بنادیا، بچے پیدا کرنے کی مشین بنادیا۔ ایک ہی بات دہرا دہرا کر وہ یہ باتیں دماغوں میں بٹھا دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی اسلام میں دیے گئے خواتین کے حقوق کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔‘‘
محترمہ غزالہ عزیز اپنے نرم اور میٹھے لہجے میں اسلام کے لطیف اور روشن اصول بتا رہی تھیں اور خواتین پوری توجہ سے اُن کی گفتگو سے فیض یاب ہورہی تھیں۔ اپنی بات سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’آج کی نوجوان لڑکی کو چاہیے کہ لبرل نہ بنے۔ والدین کی نافرمانی اور غلط راستے کو اپنانے کے بجائے اسلام نے عزت و شرف کا جو مقام بخشا ہے اُس کی پیروی کرے۔ سمجھ دار ماں، بیوی، بہن اور بیٹی بنے، تاکہ ہمارا معاشرہ سنور جائے۔‘‘
محترمہ غزالہ عزیز کی گفتگو کے اختتام پر محترمہ کہکشاں نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے محترمہ حمیرا خالد کو جو جماعت اسلامی کراچی کی نائب ناظمہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں، اظہارِ خیال کی دعوت دی کہ وہ اپنی گفتگو سے حاضرین کو یہ بتائیں کہ ’’عورت آج کے معاشرے میں رہتے ہوئے مسائل سے کیسے نبرد آزما ہو۔‘‘
محترمہ حمیرا خالد نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ’’ہم پہلے یہ دیکھیں کہ آج کی عورت معاشرے سے کیا چاہتی ہے؟ وہ محبت، عزت، احترام، تحفظ اور آزادی کی طلب گار ہے جو کہ اسے اس معاشرے سے پوری طرح نہیں مل پاتی۔ ایک طرف وہ خواتین ہیں جو پورے دردِ دل کے ساتھ عورتوں کی آزادی اور حقوق کے لیے کوشاں ہیں، لیکن وہ یہ کام مذہب سے آزاد رہ کر کررہی ہیں۔ تو کیا وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوئیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ اس آزادی کے حصول میں وہ دوسرے مسائل میں پھنس گئیں۔ قرآن تو عورت کو مرد کے مساوی حقوق عطا کرتا ہے۔ وہ عورت کو علم کے حصول کے لیے پوری آزادی دیتا ہے۔ وہ عورت کو ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکلنے کی بھی آزادی دیتا ہے۔ اگر کچھ سال پیچھے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ادارہ اقوام متحدہ اپنی کانفرنس میں خواتین کے مسائل کو زیر بحث لایا، جن میں غربت، صحت اور تعلیم کے مسائل اور عورت کی ذرائع ابلاغ میں حیثیت کا تعین کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں ایسا فتنہ بپا کیا گیا جو اسلامی معاشرے میں عورت کے حقوق کے حوالے سے نئے راستے کھولنے کی بنیاد بنا۔ اگرچہ پاکستان نے اس کانفرنس کے اعلامیے پر اس شرط پر دستخط کیے تھے کہ مستقبل میں اس حوالے سے کوئی ایسا کام نہیں ہوگا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ لیکن وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اس میں نرمی ہوتی چلی گئی، اور آج ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح قوم کو سلوپوائزن دے کر اسے دین اور مذہب سے دور کیا جارہا ہے۔ نصاب سے وہ تمام اسلامی مواد نکالا جا چکا ہے جو عمر کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے بچے کی اخلاقیات اور روحانی طور پر ضروری ہے، جو بچے کو اسلام اور اس کی اقدار، اس کے اصول و قوانین سے جوڑے۔
مغربی تعلیم کا مقصد صرف سرمائے کا حصول ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرکے عورت مرد کی کفالت سے نکل کر خودکفیل ہو جائے، اور خودمختاری کی زندگی گزارے۔ مغرب کے نزدیک جو کام کرے وہ آزاد، اور جو نہیں کرتا وہ غلام ہے۔ آج مغرب کی ہر عورت کام کرتی ہے۔ ایک ماہ کے بچے کو ڈے کیئر اور ڈیڑھ سال کے بچے کو اسکول کے حوالے کرکے بچے کی آزادی چھین کر وہ خود آزاد ہوچکی ہے۔ مستقبل میں یہی مائیں پھر اپنے بچوں کی محبت، الفت اور احترام سے محروم ہوجاتی ہیں۔ جس معاشرے میں ’’ڈے کیئر‘‘ کھلتا ہے اُسی معاشرے میں پھر ’’اولڈ ہوم‘‘ بھی کثرت سے کھل جاتے ہیں۔ والدین پندرہ سولہ سال کے نوجوانوں کی ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھا کر انہیں آزاد کردیتے ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے کو مغرب کا جبر نظر نہیں آتا لیکن اسلام کی پابندیاں نظر آجاتی ہیں۔
پچھلے دو تین سال میں ہمارے معاشرے میں چند نام نہاد خواتین نے آزادی کے جو نعرے لگائے ہیں جن میں ’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘، ’’اپنا موزہ خود ڈھونڈو‘‘ کیا یہ محبت کے سلوگن ہیں؟ حالانکہ میاں بیوی کے تعلق میں عزت و مؤدت بڑی اہم ہے۔ مغرب عورت کو مرد کے برابر لانے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کررہا ہے۔ یہ غیر فطری مطالبہ ہے۔ مرد کی قوامیت سے انکار فطرت سے انکار ہے۔ مغرب کی نظر اسلامی معاشرے کے خاندانی سسٹم پر ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام تباہ ہوجائے اور ہمارے معاشروں میں بھی وہی ٹوٹ پھوٹ ہوجائے جو اُن کے معاشروں میں ہوچکی، اور اس کے لیے وہ میڈیا کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کررہے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ میڈیا کے ذریعے ایسے پروگرام نشر کیے جائیں جو ناظرین کی اخلاقیات پر اثر انداز ہوں، اور ہمارے معاشرے میں بھی میڈیا کے زیراثر ایسے واقعات تیزی سے ظہور پذیر ہورہے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے شرم ناک واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ میڈیا کے ہی غیر اخلاقی پروگراموں کا نتیجہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جہاں سو فیصد تعلیم ہے، آزادی ہے وہاں خودکشی، جرائم اور جنونی واقعات سب سے زیادہ ہیں۔ اس سب کا حل صرف اور صرف اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات میں ہے جو دنیا میں بھی سکون اور کامیابی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور آخرت میں بھی۔ سنتوں پر عمل ایک ایسا بہترین فعل ہے جو زندگی کو مطمئن رکھتا ہے۔‘‘
حمیرا خالد کی پُرمغز گفتگو ہر خاتون کے دل میں اثر کررہی تھی۔ ہر کوئی ان کی گفتگو سے متاثر نظر آرہا تھا۔ محترمہ حمیرا نے مختصر وقت میں مغرب کی سازشیں اور ہماری خواتین اور معاشرے پر اُن کی اثر انگیزی اور پھر حل پر سیر حاصل بات چیت کرکے حاضرین پر مغرب کی پالیسی بے نقاب کی۔ محترمہ کہکشاں نے گفتگو کے اختتام پر کہا کہ آج بے راہ روی کی ساری وجہ دین سے دوری ہے۔ آج کی عورت اپنے مرکز سے ہٹ چکی ہے۔

تعلیم عورت کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہو وہ صبا کی پری نہ ہو

اس شعر کے ساتھ ہی دعا کی گئی اور آخر میں مہمانوں کی تواضع کی گئی۔

حصہ