آوارہ کتے، ایک روپے کا گھوڑا اور نوسرباز حکمران

960
آج کا کالم قدرے مختلف ہوگا اس لحاظ سے کہ بیک وقت بہت سارے معاملات ہیں جن پر بات کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ میرے لیے اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ کس بات کو اس کالم میں جگہ دوں اور کس مسئلے کو اگلے کالم تک کے لیے اٹھاکر رکھوں۔ لہٰذا دل کی مانتے ہوئے سب معاملات کو ایک ہی کالم میں جگہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
 اکیسویں صدی اگرچہ کمپیوٹر اور سائنس کی صدی کہلاتی ہے، مگر اس میں چھو ٹا سا ٹانکہ اور لگا لیں، وہ یہ کہ اکیسویں صدی خلائی مخلوق، حقوق اور این جی اوز (نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز) کی صدی بھی ہے۔ وہ کام جو پہلے کبھی ہم نے سنے بھی نہ تھے آج ان این جی اوز کی بدولت زبان زدِ عام ہیں۔ مثلاً مردوں کے حقوق، عورتوں کے حقوق، جانوروں کے حقوق… اور جانوروں میں بھی مزید گروپنگ جیسے سور، کتے، بلی اور گائے وغیرہ کے حقوق… حقوق کی اس جنگ میں کتوں کا خاص ذکر اس لیے ضروری ہے کہ معلوم ہوا ہے ہمارے ملک کے ایک انتہائی بااثر سیاست دان کی بیٹی نے آوارہ کتوں کے حقوق کے نام پر ایک این جی او رجسٹر کروائی ہوئی ہے، اسی این جی او کی وجہ سے آوارہ کتوں کی انسانی جان سے بڑھ کر حفاظت کی جارہی ہے۔ جنرلائز زبان میں کتوں کے حقوق پر تو کوئی بحث نہیں، مگر ’آوارہ‘ اور ’سدھائے‘ ہوئے کتوں کے مابین امتیاز بہرحال کرنا ہوگا۔
ویسے تو تادمِ تحریر کوئی بھی چیز حکومت کے اختیار میں نہیں، مگر پھر بھی کچھ معاملات ہیں جو انتہائی حد تک قابو سے باہر ہوچکے ہیں، ان میں سرِفہرست سندھ اور کراچی میں کتوں کی بہتات ہے۔ ان میں آوارہ اور سدھائے ہوئے دونوں شامل ہیں (اور اس بہتات کی وجہ آپ مندرجہ بالا سطور میں جان ہی چکے ہوں گے)۔ اور دوسرے نمبر پر پورے ملک میں مہنگائی کا جن ہے جو کسی بھی طور سے حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔
 اخباری اطلاعات کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں کتوں کی بہتات پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا ہے، بلدیاتی اداروں کی کتوں کو پکڑنے اور ویکسین لگانے کی ہر مہم بے سود ثابت ہوئی ہے۔ بلدیاتی ملازمین ان کتوں کو عزت و احترام کے ساتھ پچکار کر قریب لاتے ہیں اور پھر ویکسین کے نام پر جانے کس چیز کا ٹیکہ لگاتے ہیں، مگر ہمیں معلوم ہوا کہ اس ویکسین نامی ٹیکے کی بدولت کروڑہا روپے سندھ حکومت اپنے بجٹ سے خرچ کرچکی ہے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ آوارہ کتوں کے مقابلے پر انسانی صحت کے لیے حکومت کے پاس ایک پائی بھی نہیں جو وہ  خرچ کرسکے۔ رواں سال ’ریبیز‘ کے17 کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، گزشتہ سال 2019ء میں کتوں کے کاٹنے کے باعث 25 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جبکہ اِس سال مرنے والوں کی تعداد 35 رپورٹ ہوچکی ہے۔ جبکہ سگ گزیدگی کے دو لاکھ سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ اس مہم کا بھی بالکل وہی حال ہے جو ملک میں روزافزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو قابو کرنے کی مہم اور وزیراعظم کے فوری نوٹسز کا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے خانِ اعظم جس چیز کا بھی نوٹس لیتے ہیں وہ اُسی دن دس بارہ فیصد مہنگی ہوکر مارکیٹ میں آجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت اور خانِ اعظم نے کوئی خفیہ کوڈ ورڈ بنا رکھا ہے جس کا نام ’فوری نوٹس‘ ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک زمانے میں ایک لسانی تنظیم کی جانب سے اعلان ہوتا تھا کہ ’’پُرامن ہڑتال‘‘… اور خدا جھوٹ نہ بلوائے اِن آنکھوں نے اس ’’پُرامن ہڑتال‘‘ میں درجنوں معصوموں اور بے گناہوں کو سڑکوں پر جان دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
خانِ اعظم سے گزارش ہے کہ آپ وہ کام کرلیں جو آپ کو اچھی طرح کرنا آتے ہیں، بلکہ ایک، دو، تین نہیں چار چار پانچ پانچ بار کیجیے، روکا تو کسی نے نہیں ہے، مگر خدا کے واسطے ’فوری نوٹس‘ کا کوڈ ورڈ استعمال نہ کیا کریں۔ آپ کے پیٹرول کی قیمتوں پر فوری نوٹس کا خمیازہ اگلے دن فی لیٹر قیمتوں کے اضافے سے ہم عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، چینی اور گندم کی قیمتوں پر فوری نوٹس کا مطلب ہی مہنگائی پڑ چکا ہے خان اعظم!
’آوارہ کتوں‘ پر یاد آیا کہ آج ہی ایک مضمون نظر سے گزرا جو بین الاقوامی اشاعتی ادارے نیچر ریسرچ کے جریدے سے رپورٹ کیا گیا تھا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کتوں کی ناک پر ایک خاص قسم کا سینسر ہوتا ہے، جس کی مدد سے ’کتے‘ بدلتے حالات، خطرات اور دوست دشمن کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں۔
اس نئی سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کتے فوراً جان جاتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا معاملات پیش آنے والے ہیں، اور ان حالات سے نبردآزما ہونے کے لیے انہیں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
جانے کیوں یاد آرہا ہے کہ ہر الیکشن سے پہلے ہمارے سیاسی اکھاڑوں میں بھی ایک مخصوص سیاسی ٹولے میں سونگھنے اور حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے کیمپ تبدیل کرنے کا معاملہ زوروں پر دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس قدرِ مشترک کو دیکھ کر مجھے گمان ہورہا ہے کہ شاید ان سیاسی پینترا بازوں نے بھی اپنی ناک میں ’کتوں والا سینسر‘ فٹ کروایا ہوا ہے، جبھی تو انہیں وقت سے بہت پہلے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ پرانی پارٹی چھوڑ کر کس جیتنے والی پارٹی میں داخل ہونا ہے۔
سراج الحق صاحب نے اسی حوالے سے گزشتہ دنوں فرمایا تھا کہ ’’وزیراعظم صاحب نے کابینہ میں ذخیرہ اندوزوں اور چوروں کو بٹھایا ہوا ہے اور چوروں، لٹیروں کے خلاف ہی مہم بھی چلا رہے ہیں‘‘۔ اگرچہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا، مگر نام لیے بغیر ہی بہت کچھ کہہ بھی دیا۔
آئیے دیکھتے ہیں کس چور نے کتنا مال بنایا ہے؟
چینی، گندم، کھاد، گنے کے سرکاری نرخ، اور پیٹرول… کیا اس تمام تر مہنگائی سے فائدہ کوئی اور اٹھا رہا ہے، یا یہی ’سدھائے، پلے پلائے‘ سیاست دان اور وزیر اٹھا رہے ہیں جو کابینہ میں دائیں بائیں بیٹھتے ہیں؟
ایک طرف تو وزیراعظم فرماتے ہیں: ’’مجھے احساس ہوگیا ہے کہ گندم اور چینی کا بحران حکومت کے لیے ایک بہت بڑا اسکینڈل بن سکتا ہے، کیوں کہ خود حکومتی اراکین کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ مافیا سرگرم ہے اور یہ کہیں اور نہیں حکومت کے اندر موجود ہے۔‘‘
 مزید نوٹس لیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اب مہنگائی مزید نہیں بڑھنی چاہیے، اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جانا چاہیے۔‘‘
انہوں نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت فرماتے، تسبیح گھماتے اپنی معاشی ٹیم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ملک میں مہنگائی کنٹرول نہیں ہورہی، اور مجھے اس معاملے پر مس گائیڈ کیا جا رہا ہے۔
 پر یہ بتانا بھول گئے کہ مس گائیڈ کون کررہا ہے؟
البتہ یہ نام لے کر اپنی معاشی ٹیم میں شامل رزاق داؤد، حماد اظہر، حفیظ شیخ، اسد عمر سمیت پانچ وزراء کو اشارہ کرکے کہا کہ وہ سب مل کر بیٹھیں اور مجھے مطمئن کریں کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟
ان کی کور کمیٹی مطمئن تو کیا کرتی، فوری طور پر 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری حاصل کرلی، اور اس درآمد کا پہلا ٹیکہ اربوں روپے کے نقصان کی صورت میں قوم کو لگا، اور فائدہ جناب خسرو بختیار اٹھا گئے۔
وزیراعظم صاحب آپ نے تو کہا تھا کہ من مانی کرنے پر فلور ملوں کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے، اور آٹا، گندم کی فراہمی میں رکاوٹ بننے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مگر اس کے ایک دن بعد ہی مارکیٹ میں آٹے کی قیمت میں دس روپے فی کلو کا اضافہ بھی دیکھنے آیا۔ گندم کے اس بحران، اور درآمد کے سوال پر جب وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ گندم درآمد کرنے کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔
علی زیدی نے مزید کہا تھا کہ درآمد شدہ گندم کے پاکستان آتے آتے 45 دن لگیں گے، تب تک تو سندھ اور جنوبی پنجاب کی گندم تیار ہوجائے گی، پھر کیوں ہم مہنگے داموں باہر کی گندم خریدیں؟
خیر اب لکیر پیٹنے سے کچھ نہیں ہونے والا، جس کے پیٹ میں جو جانا تھا، چلا گیا۔
اب بات کرتے ہیں چینی کی۔ چینی کے حوالے سے بھی یہی دیکھنے میں آیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ملک میں چینی کی 40 فیصد پیداوار جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کنٹرول کرتے ہیں، اور مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے چینی اور آٹا بیچنے والوں کو چینی اور آٹا سستا کرنے کی ذمہ داری دے دی۔ طرفہ تماشا یہ کہ وزیراعظم عمران خان نے جب سے اِن دونوں کو چینی اور گندم کے نرخ کنٹرول کرنے کی ذمہ داری دی اُسی دن سے چینی کی قیمتوں میں 20 روپے اضافہ ہوگیا۔ اب یہ بتانا ضروری تو نہیں کہ چینی کے منافع میں کون کون ’ماہر ترین‘ پارٹنرز شامل ہیں۔
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ عمران خان سے دشمنی کون کررہا ہے؟ ذخیرہ مافیا کون ہ ؟
پیٹرول کی قیمتیں دنیا بھر میں کم ہوئیں مگر پاکستان میں جو اثر پڑا وہ محض پانچ روپے فی لیٹر ہے۔
حکومت نے یکم مارچ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی، جس کے مطابق پیٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل 5 روپے، مٹی کا تیل اور لائٹ ڈیزل 7 روپے سستا کیا گیا، جبکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 56 سے کم ہوکر 47 ڈالر فی بیرل ہوچکی ہے۔ اس تناسب سے 18 سے 20 روپے تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی توقع کی جارہی تھی، لیکن حکومت نے راتوں رات پیٹرول پر لیوی ٹیکس 4.75 سے بڑھا کر 19.75 روپے، جبکہ ڈیزل پر 7.05 سے 25.05 روپے کردیا۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناسب سے پاکستان میں بھی عوام کو بھرپور فائدہ پہنچنا چاہیے تھا تاکہ مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو ریلیف ملتا، کیونکہ پیٹرول، ڈیزل جتنا سستا ہوتا، ضروریاتِ زندگی کی عام اشیاء کی قیمتیں بھی اسی تناسب سے کم ہوتیں۔ مگر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی ٹیکس بڑھاکر اپنی جیبوں میں ہی ڈال لیا۔ واہ رے خان تیرا طرزِ حکمرانی!
خانِ اعظم سمیت نوسربازوں کی ایک ٹیم ہے جس نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ایک اور بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہر چند ماہ بعد  ’قادیانیوں‘ کے حوالے سے سرکاری کاموں میں کچھ نہ کچھ سقم کیوں رہ جاتا ہے؟ تازہ ترین واردات یہ سامنے آئی کہ حج فارم سے ختمِ نبوت کا حلف نامہ ختم کردیا گیا، اور اس حوالے سے جماعت اسلامی کے ایم این اے عبدالاکبر چترالی نے قومی اسمبلی میں تحریک التواء جمع کرائی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت نے حج فارم سے ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کردیا ہے اور اب قادیانی بھی حج پر جانے کے لیے اپنا نام پیش کرسکتے ہیں اور حرم پاک میں داخل ہوسکتے ہیں۔ انہیں حرم شریف سے دور رکھنے کا واحد ذریعہ ختم نبوت کا حلف نامہ تھا۔ عمران خان کی ڈیڑھ سال کی حکومت میں کوئی تین سے چار مرتبہ اس نوعیت کی فاش غلطی کی کیا وجہ ہے؟
 تفصیلات یہ ہیں کہ اس ڈ ھکے چھپے وار کا کسی کو شاید پتا بھی نہ چلتا اگر جماعت اسلامی آواز نہ اٹھاتی۔ جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کے فلور پر تحریک التواء پیش کردی تو وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اور حکومتی اراکین کے چہرے فق ہوگئے، پہلے تو حکومتی اراکین نے اس شق اور فارم کے ختم کیے جانے سے انکار کیا، مگر جب جماعت اسلامی نے ثبوت پیش کیے تو وزیر مذہبی امور کی جانب سے اعلان کردیا گیا کہ غلطی سے ختم ہونے والا خانہ بحال کردیا ہے۔ یعنی تین باتیں ہوئیں، ایک تو یہ کہ حکومتی تردیدیں جھوٹ تھیں، اور دوسری یہ کہ غلطی کیوں اور کس سے ہوئی؟ اور کس نے اس پر دستخط کیے تھے؟ ظاہر ہے وزیراعظم کے دستخط یا وزیر کی مرضی کے بغیر تو یہ کام ممکن ہی نہیں تھا۔
قادیانیوں کو دائرۂ اسلام میں گھسیڑنے اور فٹ کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے؟ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی۔
 بلی اتنی جلدی اپنے بچوں کو چھپانے کے لیے گھر نہیں تبدیل کرتی، جتنی تیزی سے خانِ اعظم قادیانیوں کے لیے مراعات فراہم کرنے کی اپنی سی حرکتیں فرماتے ہیں۔
چینیوں کی کہاوت ہے کہ ’’مچھلی سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے‘‘۔ یہی معاملہ ہمارے ہاں ہے۔ ہمارے معاشرے کی خرابی اور نوسر بازی کا سرخیل حکمران مافیا ہے۔ یہی شرفاء، زرداریوں اور خانِ اعظموں کی صورت میں ہمارے سر پر ناچ رہے اور قوم کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔
ایک لطیفہ سنتے جائیں: کسی کو اپنی غربت اور مفلوک الحالی کا گلہ تھا، اس نے اپنے دوست سے کہہ دیا کہ یار میری تو قسمت ہی خراب ہے، پیسے بنانے کا کوئی ہنر آتا ہی نہیں۔ اس کے دوست نے کہا: اچھا یہ بتاؤ کہ تمھارے پاس کوئی قیمتی چیز ہے؟ غریب دوست نے جواب دیا: بھائی تم تو جانتے ہو میرے پاس سوائے ایک مریل گھوڑے کے کچھ بھی نہیں، اسی کو تانگے میں جوتتا ہوں اور جو رقم ملتی ہے اس سے دونوں کا گزارہ ہوتا ہے، رقم جوڑ نہیں پاتا۔  دوست نے مشورہ دیا اور کہا: فکر نہ کرو، اسی مریل گھوڑے سے تم لکھ پتی بن جاؤ گے، بس ایک روپے کی لاٹری چلاؤ اور انعام میں گھوڑا رکھ دینا۔ اس کے نام کی لاٹری تمہیں راتوں رات لکھ پتی بنا سکتی ہے۔ آئیڈیے میں جان تھی، سو اگلے ہی دن اس نے ایک روپے والی ’گھوڑا لاٹری‘ شروع کردی۔ تین چار دن میں پورے گاؤں والوں اور قریبی دیہات والوں نے ایک ایک روپیہ ڈالا اور گھوڑے کے انعام کے چکر میں لگ گئے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جس دن لاٹری کھلی اور ایک خوش نصیب کا نام نکلا اسی دن گھوڑا مرگیا۔ غریب کی تو گویا جان ہی نکل گئی۔ ڈر کے مارے دوست کے پاس گیا کہ اب کیا کروں؟ گھوڑا تو مر چکا ہے جس کے نام پر ہزاروں روپے وصول کیے تھے؟ دوست نے سمجھایا: فکر نہ کرو، مرے ہوئے گھوڑے کو ایک کمرے میں بند کردو، باقی میں سنبھال لوں گا۔
اس نے ایسا ہی کیا۔ اور جب لاٹری جیتنے والے نے گھوڑے کا مطالبہ کیا تو دوست نے کہا: گھوڑا کمرے میں ہے، جاکراپنا جیتا ہوا گھوڑا لے لو۔ جب لاٹری جیتنے والے نے کمرے کا قفل کھولا تو مرا ہوا گھوڑا دیکھا۔ بہت شور ڈالا کہ مرے ہوئے گھوڑے کو کون لیتا ہے، تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کو سمجھایا بجھایا کہ اللہ کے حکم کے آگے گھوڑے کی کیا مجال؟ سمجھو اس گھوڑے کی عمر ہی اتنی تھی، اور جیتے ہوئے کو روپیہ واپس کیا، معذرت کی، شکریہ ادا کیا اور باقی کی رقم جیب میں۔
یہی معاملہ خان صاحب اور ان کی نوسر باز کابینہ کا ہے کہ جب زیادہ شور شرابہ ہوجائے تو معذرت، معافی تلافی اور ’’فوری نوٹس‘‘۔
حصہ