لوہے کی مضبوط چادر سے تیار کردہ کنٹینر بھی خوب ہیں۔ بیرونِ ملک سے مال کی درآمد ہو، یا اندرون ملک اشیائے خورونوش کی ترسیل… مذہبی اجتماعات ہوں یا پھر سیاسی جلسے کے لیے تیار کیا جانے والا اسٹیج… ہر جگہ کنٹینر ایک خاص حیثیت رکھتا ہے، بلکہ ملکی سیاست میں تو کنٹینر کچھ زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں کنٹینر کے استعمال کے انداز ہی وکھرے ہیں، یا یوں کہیے کہ سیاسی میدان میں دو قسم کے کنٹینر پائے جاتے ہیں… ایک وہ جو وزیراعظم عمران خان، سابق وزیراعظم نوازشریف، ڈاکٹر طاہرالقادری اور مولانا فضل الرحمن نے اپنے مارچ یا دھرنے کے دوران استعمال کیے، یا ان کو بطور اسٹیج استعمال کیا، جن میں مواصلاتی نظام سمیت تمام سہولیات موجود تھیں، یہاں تک کہ ان میں ٹوائلٹ اور آرام کے لیے بیڈ بھی بنائے گئے تھے۔ جبکہ کنٹینر کی دوسری قسم جسے رستہ روک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، یعنی ایسے کنٹینرکو رکاوٹی کنٹینر بھی کہا جاسکتا ہے۔ رکاوٹی کنٹینر اصل میں ہر حکومت کا ایک ایسا ہتھیار ہوتے ہیں جنہیں مخالفین کے جلسوں، مارچوں اور دھرنوں کو روکنے یا ان کی شدت میں کمی لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومت ان رکاوٹی کنٹینروں سے راستے اور سڑکیں بند کردیتی ہے، جس سے ہر دوسرا پاکستانی بخوبی واقف ہے، بلکہ اس طرح کی صورت حال سے آپ کا بھی ضرور واسطہ پڑا ہوگا۔ اسی طرح کنٹینرکی ایک قسم قاتل کنٹینر بھی ہے جو انسانی اسمگلنگ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، یعنی پاکستانی نوجوانوں کو بائی روڈ یورپ لے جانے کا جھانسہ دے کر کنٹینروں میں بند کردیا جاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحراؤں میں ترقیاتی کام ہوں، یا سڑکوں کی تعمیر… آئل اینڈ گیس کے منصوبے ہوں، یا پھر بجلی گھروں کی تعمیر… یہاں بھی کنٹینر خاصا اہم کردار ادا کرتے ہیں، مثلاً مزدوروں کی رہائش اور افسران کے دفاتر کے طور پر بھی یہی کنٹینر استعمال کیے جاتے ہیں۔ کنٹینر کہاں کہاں اور کیسے استعمال ہوتے ہیں، اگر اس کی فہرست مرتب کی جائے تو خاصی طویل ہوگی۔
دوسری طرف صوبہ سندھ کی تباہ حال سڑکیں ہوں یا برباد ہوتا تعلیمی نظام،کرپشن، لوٹ مار اور اقرباپروری… سب اپنی جگہ، جس کی نشاندہی اکثر ہم کرتے بھی رہتے ہیں، لیکن سائیں سرکار نے صحت کے میدان میں جس طرح کنٹینر کو استعمال میں لیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ میرا اشارہ سینے کے درد میں مبتلا افراد کی فوری امداد کے لیے بنائے جانے والے موبائل اسپتالوں کی جانب ہے۔ پچھلے دنوں میں خود کنٹینروں میں قائم ان طبی یونٹس کو اُس وقت داد دیئے بغیر نہ رہ سکا جب ہمارے ایک دوست کو بلڈ پریشر بڑھ جانے کے باعث ایسے ہی ایک کنٹینر یونٹ میں لے جایا گیا، جہاں نہ صرف اُن کا تسلی بخش طبی معائنہ کیا گیا بلکہ ای سی جی وغیرہ کرنے کے بعد ہائی بلڈ پریشر اور امراضِ قلب کی علامات اور ان سے بچاؤ سے متعلق احتیاطی تدابیر بھی بتائی گئیں۔ کنٹینر میں موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ سینے کے درد کی شکایت لے کر آنے والے مریضوں کی یہاں ای سی جی کی جاتی ہے، اگر ای سی جی میں ہارٹ اٹیک کی تشخیص ہوجائے تو فوری طبی امداد کی صورت مریض کا علاج کنٹینر میں قائم چیسٹ پین یونٹ سے ہی شروع ہوجاتا ہے، اور پھر اس مریض کو بذریعہ ایمبولینس اسپتال منتقل کردیا جاتا ہے، جہاں اس کی پرائمری انجیو پلاسٹی ہوتی ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک کنٹینروں میں بنائے گئے ان یونٹس کے ذریعے ہزاروں قیمتی جانیں بچائی جا چکی ہیں، ان موبائل یونٹس میں ایسے تمام جدید طبی آلات موجود ہیں جو فرسٹ ایڈ کے وقت ضروری ہوتے ہیں، ان موبائل یونٹس کو ضرورت پڑنے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمارے دوست میں امراضِ قلب کی کوئی تشخیص نہ ہوئی۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے اُن کا بلڈپریشر معمولی سا بڑھا ہوا تھا۔ ماشااللہ وہ اب ٹھیک ہیں اوراپنے گھر میں ہیں۔
مہنگائی، بے روزگاری اور گھریلو ٹینشن کے باعث جس تیزی سے دل کے امراض اور اس کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے، اس تیزی سے علاج کی سہولیات نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ گوکہ نجی شعبے میں تو امراضِ قلب کے بہت سے اسپتال اور کلینک موجود ہیں، لیکن سرکاری شعبے میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ سرکاری سطح پر دل کے امراض سے نمٹنے کے لیے کراچی کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز شہر کا بڑا اور قابلِ اعتماد سرکاری اسپتال ہے، لیکن شہر کے ایک کونے یا عام آدمی سے دور ہونے کی وجہ سے یہاں آنے والے مریضوں، خاص طور پر ایمرجنسی کی صورت میں اس اسپتال پہنچنے والوں کو انتہائی دشواری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ شہر میں ٹریفک جام ہونے کے سبب بیشتر اوقات تو یہ ناممکن بھی ہوجاتا ہے۔ یوں اسپتال وقت پر نہ پہنچنے کی وجہ سے دل کے کئی مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جبکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں مہنگا ترین علاج کروانا غریبوں کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں حکومتِ سندھ کی جانب سے امراضِ قلب میں مبتلا افراد کے لیے سندھ بھر، خاص طور پر کراچی میں فوری طبی امداد فراہم کرنے کی غرض سے موبائل کنٹینر اسپتال جیسی سہولت کا متعارف کروایا جانا قابلِ تعریف اقدام ہے۔ ویسے تو کنٹینروں میں قائم طبی یونٹس کا سلسلہ2017ء سے جاری ہے لیکن اب ان میں خاصا اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے کئی کنٹینر لانڈھی، ملیر، آئی آئی چندریگر روڈ، نیوکراچی، گلشن چورنگی،کریم آباد، ناگن چورنگی اور قیوم آباد سمیت شہر کی مختلف شاہراہوں اور فلائی اوورز کے نیچے کھڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم صبح شام حکمرانوں کی نااہلی،کرپشن اور بیڈ گورننس پر بات کرتے ہیں، بے شک حکمرانوں کا کام عوام کے لیے سہولیات کا بندوبست کرنا ہے، اگر کوئی حکومت عوام کو صحت، تعلیم سمیت دیگربنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے میں ناکام رہے تو اس پر تنقید کرنا بجا ہے، جبکہ اگر کوئی حکومت کسی شعبے میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرے تو اس کی تعریف بھی کی جانی چاہیے۔ بلاشبہ حکومتِ سندھ نے دل کے امراض میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے خاصا کام کیا ہے، حکومتِ سندھ کی جانب سے صحت کے شعبے میں جن سہولیات کا بندوبست کیا گیا ہے اس کے مطابق سندھ بھر میں این آئی سی وی ڈی کے کُل 22 یونٹ کام کررہے ہیں، جن میں این آئی سی وی ڈی کراچی کے علاوہ 15چیسٹ پین یونٹ اور 10سیٹلائٹ سینٹر شامل ہیں۔ یہ سیٹلائٹ سینٹر بھی باقاعدہ اسپتال ہیں، جن میں جدید طبی سہولیات میسر ہیں۔ یہ مراکز لاڑکانہ، ٹنڈو محمد خان، سکھر، حیدرآباد، سیہون، نواب شاہ، مٹھی، خیرپور اور لیاری میں قائم ہیں، جن میں سکھر اور ٹنڈو محمد خان کے سیٹلائٹ سینٹر 300 اور 200، جبکہ باقی تمام سینٹر 60 بستروں پر مشتمل ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ سائیں سرکار کی جانب سے چلایا جانے والا قومی ادارۂ قلب اس وقت علاج کی سہولتوں کے حوالے سے ممتاز مقام حاصل کرچکا ہے تو غلط نہ ہوگا، جہاں بغیر سینہ کھولے بائی پاس اور اینجیو گرافی پروسیجر ٹی اے وی آئی کی مدد سے کیا جارہا ہے۔ اس طریقہ علاج کے تحت مریض کے سینے میں دو سوراخ کرکے کیمرے کی مدد سے سرجری کی جاتی ہے، اس سے قبل دل کے والو تبدیل کرنے کے لیے سرجری کی جاتی تھی، جبکہ اب اس نئی تکنیک کی مدد سے درجنوں مریضوں کا کامیاب علاج کیا جارہا ہے، جس کے بعد وہ صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ قومی ادارۂ قلب میں جس تکنیک کے ساتھ علاج کیا جا رہا ہے اگر یہی علاج آپ امریکا اور یورپ میں کرائیں تو کروڑوں روپے کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں، لیکن پاکستان میں قائم اس ادارے میں مریضوں کو یہ سہولت بلامعاوضہ فراہم کی جارہی ہے، جس سے نہ صرف کراچی بلکہ سارے پاکستان کے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔
آخر میں اتنا ہی کہنے کی جسارت کروں گا کہ سندھ حکومت اگر صحت کے حوالے سے کام کی صلاحیت رکھتی ہے تو دوسرے اداروں کی بہتری کے لیے کام کرنے میں کیا قباحت؟ سائیں سرکار کو چاہیے کہ ایک ادارے پر توجہ دینے کے بجائے تمام محکموں میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرے۔ یہی حکومت کا فرض ہے اور یہی حقِ حکمرانی بھی۔ مجھے امید ہے کہ سندھ حکومت سڑکوں، تعلیمی اداروں، ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرے گی، اور بڑھتی ہوئی کرپشن کے خاتمے سمیت تباہ حال انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے بھی جلد اقدامات اٹھائے گی۔