انس معظم
زندگی انسان کو بہت سے سبق دیتی ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر مرنے تک کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے۔ سیکھنا صرف یہ نہیں ہوتا کہ انسان روایتی قسم کی تعلیم ہی حاصل کرے بلکہ ہم اپنی زندگی میں دوسروں کے روّیوں سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ دراصل جو ہم دوسروں کے روّیوں سے سیکھتے ہیں وہی اصل علم ہوتا ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ زندگی خود ہی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھا دیتی ہے۔ انسان کو زندگی میں وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ زندگی گذارنے میں اور عمر بتانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ زندگی میں ہم بڑا سنتے ہیں کہ زندگی بہت خوبصورت ہے اور حسین ہے اور زندگی آزاد فضا میں سانس لینے کا نام ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے!!!
ہم اپنی پوری زندگی رشتوں ناتوں کی ان دیکھی لیکن پاؤں میں جکڑی زنجیروں میں گزار دیتے ہیں۔ انسان اگر بے حس ہو تو وہ پوری زندگی گزار جاتا ہے لیکن اْسے ان زنجیروں کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔زندگی تلخ اْس وقت ہو جاتی ہے جب انسان حساس ہو اوراُسے دوسروں کا احساس ہو۔ انسان پھر دوسروں کی خواہشات کے لیے جیتا ہے۔ ایسے انسان زندگی سے اور ایسے حالات سے لڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، کچھ ہار جاتے ہیں، اور منوں مٹّی تلے جا سوتے ہیں، کچھ عقل مند ہوتے ہیں اور زندگی سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دنیا بڑا خوش نصیب سمجھتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کیا شخص ہے اس کی زندگی میں کوئی غم ہی نہیں۔ کوئی ایسا شخص نہیں جس سے اس کا جھگڑا ہوتا ہو، دنیا رشک کرتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ کوئی رک کر اُس انسان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتا، کوئی اُس کے سینے سے کان لگا کر اْس کی بلکتی، سسکتی اور کراہتی روح کی آواز نہیں سنتا۔ لوگ اْس کی ظاہری کامیابیوں پر داد دیتے ہیں۔ لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس کائنات کی مہنگی ترین چیز ’’احساس‘‘ ہوتا ہے اور اُن کا اس سنگ دل اور بے رحم دنیا میں حساس ہونا ہی ایک جرم کی مانند ہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ لوگ ہر بات پر ردِ عمل دیتے ہیں۔اپنوں سے لڑتے ہیں اُنھیں سنبھالتے ہیں لیکن اُن کی توقع کے برعکس اُن کو غلط سمجھا جاتا ہے اُن کا مذاق اُڑایا جاتا ہے دنیا اُن پر ہنستی ہے اور اپنے بے قدری کرتے ہیں۔ حساس انسان یہ سب برداشت کرتا ہے اور پھر اُس کی برداشت کی حد آجاتی ہے۔ وہ مر جاتا ہے!!!!
مرنے سے مراد یہ نہیں کہ اُس کی روح نکل جاتی ہے بلکہ وہ ایک زندہ لاش کی مانند ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ جوانی میں ہی مر جاتے ہیں وہ بڑھاپے تک زندہ لاش کی مانند رہتے ہیں اور طبعی موت پر دفنا دئیے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بھروسہ اور دل ٹوٹنے کا درد ناقابلِ برداشت ہوتا ہے لیکن اِس کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔ ساتھ رہنے والے دوست اور قریبی رشتہ داروں کو بھی نہیں پتا ہوتا کہ ایسا فرد کب ذہنی طور پر مرجاتا ہے۔ حساس انسان اپنے مرنے کا کسی کواحساس نہیں ہونے دیتے۔ اصل میں وہ بظاہر بہت مضبوط دکھائی دیتے ہیں اور بظاہر بہت مضبوط دکھائی دینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو کبھی یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ ایسے انسان کو بھی تسلی کی ضرورت ہوگی۔ آپ نے اپنی زندگی میں یقیناً یہ ضرور محسوس کیا ہو گا کہ کبھی کبھی ہم غلط وقت پر، غلط لوگوں کے سامنے رو دیتے ہیں، بعد کا وقت ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ لوگ غلط نہیں ہوتے بس وہ ہمارے لیے صحیح نہیں ہوتے، یہی چیز ایک حساس انسان کو بظاہر مضبوط انسان بنا دیتی ہے جو کہ عملاً اندر سے مر چکا ہو تا ہے۔
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ایسے حساس لوگوں میں جینے کی رمق ختم ہو جاتی ہے وہ دوسرں کی خواہشات پوری کرتے کرتے عمر بِتا دیتے ہیں۔ایسے لوگ زندگی بھر رشتے ناتے نبھاتے ہی گزار دیتے ہیں۔ یہ اسٹیج پر موجود فنکار کی طرح ہوتے ہیں جو بہت خوش اسلوبی سے اپنا کردار ادا کرتا ہے دیکھنے والوں کوخوش کرتا ہے، کرتب اگر غلط ہوجائے تو لوگوں کی لعنت ملامت اُن کا مقدر ہوتی ہے کوئی اُن کی زندگیوںمیں جھانک کر وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔اُن کی مثال ایسے ہوتی ہے بقولِ شاعر
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کیا آپ بھی تو حساس نہیں؟ اگرہاں تو خدارا یہ حساسیت چھوڑ دیجئے،وگرنہ
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں