سوشل میڈیا پر “کورونا وائرس” کی دھوم

714

سوشل میڈیا پر اس ہفتہ کاآغاز تو پی ایس ایل کے گرد ہی رہا مگر آگے چل کر یہ گَرد چھٹتی گئی اور ’کورونا‘ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بات شروع ہوئی تھی پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب سے جس کے غیر متوقع میزبان ’ احمد گوڈیل‘ کوسوشل میڈیا ’ٹرولنگ‘ یعنی شدید تنقیدکا سامنا رہا ۔ریٹنگ اور مقبول موضوع کا گراف دیکھتے ہوئے اگلے ہی روز سے اُنہیںکئی ٹی وی شوز میں مدعو کیا گیا کہ وہ اپنی صفائی پیش کر سکیں بہر حال احمد نے یہی اپیل کری کہ ’براہ کرم اُن کا جتنا مذاق بنانا ہو بنا لیں لیکن اُن کے گھر والوں کو اس میں شامل مت کریں۔‘بات یہاں ختم نہیں ہوئی پی ایس ایل کی اور اسکی افتتاحی تقریب کو اور بھی کئی ’گرہن‘ لگے ، خصوصاً جب یہ بات لیک ہوئی کہ اس تقریب کو منعقد کروانے کیلیے ایک ’بھارتی‘ ایونٹ آرگنائزر کمپنی کو ٹھیکا دیا گیا۔ جی ہاں اُسی بھارت کو جو کشمیرمیں اپنے ناجائز فوجی تسلط کے ساتھ 230 دنوں سے لاک ڈاؤن کیے ہوئے ہے، جسکی وجہ سے پاکستان کی پارلیمنٹ میں فیصلہ ہوا کہ بھارت کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات منقطع کر دیئے جائیں گے لیکن اُس دو روزہ اجلاس اور اس کے بعد کئی اور حکومتی نمائشی دعوؤں اور اقدامات کے باوجود کچھ نہیں ہوا بلکہ شاید تجارت میں اور اضافہ ہوا۔ ٹوئٹر پر ’جواب دو پی سی بی‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیاکہ تقریب کا انتظام ہندوستانیوں کے حوالے کر کے 20 کروڑ روپے کس کھاتے میں پھونک دیئے گئے؟۔ایک جانب مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، ہندوستان کسی بھی پاکستانی کو اپنے ملک میں قدم رکھنے کی بھی اجازت نہیں دے رہا، مگر دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے کرکٹ ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب کا انتظام ایک بھارتی کمپنی کو دے کر کیا پیغام دیا گیا؟ یہ بھی کہا گیا کہ پی ایس ایل 5 کی ناکام ترین افتتاحی تقریب پر بھارتی کمپنی نے جتنا بھی منافع کمایا، اس سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں کیا گیا۔ بات یہاں رکی نہیں اچانک سے ہی اسی پی ایس ایل کے تھیم سانگ ’ تیار ہو‘ پر بھی تنقید شروع ہوگئی اور ایک ٹی وی شومیں اس گانے کے گلوکار ’ علی عظمت‘ نے گلوکار ’ علی ظفر‘ کی جانب اشارہ کرکے یہ کہہ دیا کہ ’پی ایس ایل ۵ کے گانے کے خلاف بلاگرز کو پیسہ دے کر خلاف لکھنے کا کہاگیا‘۔ یہ ٹھیک ہے کہ علی عظمت ایک سینئر گلوکار ہیں اور اندرون خانہ معلومات اُن تک بھی پہنچ جاتی ہوں لیکن اپنی نہاد میں یہ ایک ایسا مضحکہ خیز الزام تھا کہ ’ علی ظفر‘ نے اپنی صفائی جس منفرد انداز سے پیش کی وہ بہر حال قبول عام ہو گئی بلککہ ’وائرل‘ بھی ہو گئی۔ ’بھائی حاضر ہے‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ علی ظفر نے اپنی اداکاری گلوکاری و رقص کے ایسے ایسے جوہر دکھائے کہ مت پوچھیے۔ وہ از خود ’کنسلٹنٹ بھائی‘ بھی بن گئے یعنی مسائل کا حل پیش کرنے والے ’بھائیجس کے اشاروں پر بلاگرز کام کرتے ہوں اور ایک اچھے خاصے گانے کو ناکام و نامراد قرار دلوا دیں ۔ یہی نہیں انہوں نے ایک نیا گانا بھی بنا لیا اور پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر سے لوگوں کو اُس گانے کی ویڈیو بنانے کے لیے بھی شامل کرلیا۔ اگلے روز خود نیشنل کالج آف آرٹس پہنچ گئے اُس مبینہ گانے کی دھن پر ’رقص‘ کی پریکٹس کروانے ۔
بات بھارت سے تجارت کی آئی تو اُسی کے ساتھ ایک اور ایشو بھی سامنے آیا وہ تھا 3ماہ قبل (اکتوبر2019) حکومت کی جانب سے ’ٹائیفائیڈ‘سے بچاؤکی مہم اور اس کی ویکسین سے تعلق رکھتا تھا۔ پاکستان میں ٹائیفائیڈ کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار اور بیماری کی کسی ترتیب کی معلومات کے بغیر ہی نا معلوم افراد کے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ مہم زبردستی چلائی گئی۔اس ویکسین کے لیے بھارت کی ایک غیر رجسٹرڈ کمپنی سے 3ارب روپے مالیت کی ویکسین خریدی گئی ۔ اہم بات یہ ہے کہ سندھ کے سوا کروڑوں بچوں کو اسکولوں مین خط لکھ لکھ کر زبردستی یہ ویکسین پلوا دی گئی۔ ڈاکٹر ظفر مرزا وفاقی مشیر صحت اور صوبائی وزیر صحت عذرا پیچوہو کی خصوصی نگرانی میں جس طرح یہ مہم چلی سب نے اُس کو دیکھا مگر یہ سب باتیں اُس وقت عام نہیں ہوئی البتہ شک سب نے کیا۔جب پاکستان ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی سے تعلق رکھنے اور پس پردہ حقائق جاننے والے ایک سینئر افسر نے بحیثیت ایک باپ اپنے بچہ کے اسکول سے ویکسین پلوانے کے لیے سرکلر پر سوالات اٹھائے تو عقدہ کھلا۔انہوں نے متعلقہ حکام سے بھی سوال پوچھے کہ کیوں پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں یہ مہم نہیں چلی ؟ویسے خود بھارت میں ٹائیفائیڈ کے اعداد و شمار آدھی دنیا کے برابر بتائے جاتے ہیں، لیکن بھارت کیا دنیا بھرمیں ٹائیفائیڈ کے خلاف ایسی کوئی ویکسین مہم نہیں چلی۔انکا دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر واقعی ضرورت تھی تو ویکسین کو کیوں رجسٹریشن کے بغیر لانچ کیا گیاجبکہ یہ پارلیمنٹ سے منظورشدہ قانون ہے کہ ایسی ہر دوائی کو متعلقہ اتھارٹی سے رجسٹرڈ کرایا جائیگا؟اگر اتنی بڑی تعداد میں خریداری اور 3 ارب روپے کی خطیر رقم بھارتی کمپنی کو دینی پڑ رہی تھی تو کیوں نہ اس ویکسین کی تیاری اپنے ہی ملک میں کی گئی ؟معصوم بچوں کی رگوں میں شامل کرنے سے پہلے کیا اس ویکسین کا کوئی کلینیکل ٹرائل پہلے پاکستان میں کیا گیا تھا ؟پاک بھارت تناؤکو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی حرکت بھارت کر گزرے یا پیچیدگی یا کوالٹی کا مسئلہ سامنے آجائے گا تو نئی نسل میں اُس عظیم نقصان کا اصل ذمہ دار کون ہوگا اس بات کا تعین آج تک کیا گیا کہ نہیں ؟ یہ سب دل دہلا دینے والے سوالات ہیںجو بار بار یہ سلوگن واضح کررہے ہیں کہ ’کشمیر کا سودا ہو چکا پیارے باقی سب اوکے ہے ‘۔ اور ’پیسہ،کک بیک ،کمیشن کے لیے کچھ بھی کرے گا۔‘‘ شکر ہے میں نے اپنے بچوں کو بغیر ٹیسٹ شدہ بھارتی ویکسین نہیں پلائی۔
بات ویکسین سے چلی ہے تو چلتے چلتے ’کورونا‘ پر آکر رُک گئی ۔ یہ وائرس تو سب کچھ ساتھ لے گیا۔بدھ کی شب پاکستان میں ایران سے آئے کسی زائر کے جسم میں اِس وائرس کی جب تشخیص فائنل ہوئی تو جیسا کہ ایک طوفان مچ گیا ۔ ویسے برطانوی موقر اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ ’ایرانی نائب صدر معصومے ابتکار بھی اس کا شکار ہو گئے ہیں، مجموعی طور پر ایران میں اب تک 254کیسز دریافت ہو چکے ہیں۔‘‘بس ایسے میں جب کراچی میں ایک کیس آیا توسندھ حکومت نے راتوں رات نا معلوم خوف ا ور عدم معلومات کی بنا پر2 دن کیلیے تمام اسکولوں کی چھٹی کرنے میں عافیت جانی۔اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جو کام الیکٹرانک میڈیا انجام دے رہا تھا یعنی سنسنی پھیلانے کا اُسے ’دو آتشہ ‘کر دیا ۔اس کورونا وائرس نے دنیا بھرمیں اسی میڈیا کی بدولت ہیبت پھیلادی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس وائرس کی شرح اموات انتہائی قلیل ہے ۔نزلہ ،کھانسی ، گلے کی سوزش کو اتنا دلوں پر طاری کرلیا ہے کہ جو ماہرین ماحولیات پورا سال بدترین آلودگی سے بچنے کیلیے ماسک پہننے کا مشورہ دیتے ہیں اُنہیں چھوڑکر از خود لوگ ماسک لینے دوڑ چلے ۔مزے دار بات یہ ہوئی کہ مارکیٹ سے اچانک ماسک شارٹ ہو گئے اور بلیک میں مہنگے داموں فروخت ہونا شروع ہو گئے ۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس کا ازالہکرنے کیلیے گھر میں خود ’ماسک ‘بنانے کے لیے آسان ٹوٹکے و ترکیبیں ڈالنا شروع کر دیں۔ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کی سکھائی ہوئی ایک مسنون دُعا بھی ’کورونا وائرس کے تحفظ ‘کے نام پر خوب وائرل ہوئی ۔کسی نے پیازکا ٹوٹکا ڈال دیا تو وہ کار ثواب سمجھ کر شیئر ہونا شروع ہوا۔بس ابھی پیاز کے نرخ مزید بڑھنے کی دیر ہے جو ابھی 60روپے کلو کے مہنگے ترین نرخ پر پہلے ہی فروخت ہو رہی ہے۔یہ بھی کہاگیاکہ چونکہ مریض کا آغاخان ہسپتال میں ٹیسٹ ہوا تو امکان ہے کہ وہاںکی فضا میں اسکے اثرات ہوں یا آغا خان ہسپتال کا وینٹیلیشن نظام لیک ہو جائے تو بھی اُس کے آس پاس یقینا وائرس پھیل سکتا ہے اس لیے وہاں سے حفاظتی انتظام کیے بغیر مت گزریں ۔اسی طرح کئی لوگ اس مصنوعی طور پر پھیلائی گئی سنسنی کو قابو کرنے کے لیے اعداد و شمار والی ان پوسٹوں احساس دلاتے رہے کہ اب تک کوئی 81294 افراد متاثر ہوئے جس میں سے 2770افراد جاں بحق ہوئے مطلب ہر 100مریضوںمیں سے کوئی 3افراد کے جاں بحق ہونے کی شرح ہے اور یہ وجہ بھی مریض کے عمر رسیدہ ہونے اور کمزور اعصابی یا مدافعتی نظام کی وجہ سے ہے ۔پوری دنیا میں کوئی بھی 10سال یا اس سے کم عمر بچہ ’کورونا وائرس ‘ سے نہیں مرا ۔اس ضمن میں اہم بات ہی یہ ہے کہ ملیریا، ٹائیفائیڈ، فالج،ہارٹ اٹیک ، انفلو ئنزا جیسے بے شمار امراض اس سے کہیں زیادہ جان لیوا ہیں لیکن اُن کے لیے کیااقدامات ہوتے ہیں یہ آپ خود جائزہ لے لیں۔ انفلوئنزا سے صرف امریکا میں اب تک ایک کروڑ تیس لاکھ سے زاید امریکی متاثر ہوچکے ہیں جس میں سے ایک لاکھ بیس ہزار کو اپنے علاج کے لیے اسپتالوں میں داخل ہونا پڑا جبکہ اب تک 6,600 امریکی انفلوئنزا (مطلب کھانسی، زکام ،بخار،گلے کی سوزش )کا شکار ہو کر موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ اب مزید سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سعودی عرب نے مبینہ وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کی خاطر کچھ ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے سفری پابندی عائد کردی۔ کئی عمرہ زائرین کو ایئر پورٹ سے واپس آنا پڑگیا۔ماحول اور خراب ہو گیا۔ پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسو سی ایشن نے بھی گلے سے پھندا نکالتے ہوئے اپیل جاری کر دی کر دیا کہ ’ ماسک مہنگا مت بیچیں۔‘ ایک دوست نے یہ سب تجاویز ، ٹوٹکے دیکھ کر لکھا کہ ’’ پچھلے 24گھنٹوں میں پاکستان میں کورونا وائرس کے مریض تو ۲لیکن اس کے علاج کے ماہرین کئی ہزار پیدا ہوگئے ہیں۔‘‘ یہ معاملہ تو اب اگلے ہفتہ بھی چلے گا ۔
ہم آگے بڑھتے ہیں اور شہر قائد بلکہ پاکستان کے طول و ارض میں خدمت انسانیت سے جڑی ایک اور لازوال مثالی داستان اس ہفتہ ہم سے جدا ہوئی ۔ ٹوئٹر و سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس عظیم انسان کیلیے بھر پور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ میں بات کر رہا ہوں 90سالہ بزرگ نعمت اللہ خان کی جس کی زندگی تحریک پاکستان سے نظریہ پاکستان کے تحفظ ، غلبہ دین کی جدو جہد اور خدمت انسانی سے جڑی ہوئی تھی۔ان کے جنازے اور تعزیت پر رنگ، نسل، مذہب ، سیاست سے بالا تر ہو کر سبھی شریک نظر آئے۔کیا وزیر کیا مشیر، کیا گورنر کیا سینیٹر ، کیا میئر کیا سابق میئر سبھی نے خراج عقیدت پیش کیا۔نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ مرحوم کے حوالے سے ’آگہی ‘ کی ایک مختصر تعارفی ویڈیو بہت شیئر ہوئی جس میں ان کی زندگی کا بہت جامعیت اور خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا تھا ۔ٹوئٹر ، پیجز اور گروپس میں مستقل اُن کے گھر تعزیت کے لیے آنے والوں کی تفصیلات اپ ڈیٹ ہوتی رہیں، اگلے روز جناز ہ کا روح پرور منظر بھی سوشل میڈیا پر پھیلا نظر آیا۔ اس حوالے سے بے شمار تحاریر و تبصرے لوگوں نے ان کے چاہنے والوں نے کیے۔
وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کرلیا کے عنوان سے ڈاکٹر اسامہ لکھتے ہیں کہ ،’’اگر یہ بات کسی پر صادق آتی ہے تو کراچی میں وہ نام نعمت اللہ خان کے علاوہ کوئی اور نہیں۔
2001 کے بلدیاتی انتخابات میں ایک دھماکے کے صورت میں اس شہر کو ایک مسیحا میسر آیا کہ جس نے اس شہر کے نہ صرف زخم پر مرھم رکھا بلکہ تباہ حال شہر کو دوبارہ سے روشنیوں کا شہر بنانے کی ٹھانی اور اس کو عمل کے قالب میں ڈھال کر دکھا دیا۔ یہ کارنامہ نعمت اللہ خان صاحب نے جوان عمری میں نہیں بلکہ اس پیرانہ سالی میں انجام دیا کہ جب لوگ ملازمت سے ریٹائرڈ ھونے کے بعد آرام کرتے ہیں۔اس سے قبل 15سال کی عمر میں وہ پاکستان ہجرت کرتے ہوئے اپنا سب کچھ ھندوستان میں چھوڑ کر آنے کے بعد اس شہر میں اپنی زندگی کو ایک بار پہلے بھی نئے سرے سے استوار کرچکا تھا لیکن اب چیلنج بڑا تھا پورے شہر کی آبادی و بحالی اور وہ بھی عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر۔ نعمت اللہ خان نے 4 سال میں کراچی میں جو کچھ کیا وہ ان کی ھمت کے ساتھ قدرت کا معجزہ بھی ھے۔ لیکن معجزے بھی اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ھاتھوں ھی رونما ھوتے ہیں۔ میں نے خود کراچی کے شہریوں کے دل میں نعمت اللہ خان کے لیے محبت کے وہ جذبات دیکھے ہیں جو شاید اس سے قبل صرف الطاف حسین کے حصے میں آئے تھے۔ نعمت اللہ خان صرف خدمت کا استعارہ بن کر سامنے نہیں آئے بلکہ انھوں نے اپنی نظریاتی کمٹنٹ پر کبھی کوئی سودے بازی نہیں کی۔پرویزمشرف کے ریفرنڈم کو کامیاب بنانے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے شہری حکومتوں کو ٹاسک دیا گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کراچی میں نعمت اللہ خان ناظم تھے اب ان سے کون بات کرے؟ اس مقصد کے لیے گورنر سندھ محمد میاں سومرو کو نعمت اللہ خان کے پاس بھیجا گیا کہ وہ ان کو قائل کریں۔ نعمت اللہ خان اور محمد میاں سومرو کے مراسم بہت اچھے تھے سومرو صاحب نے بات کی کہ میرا نکاح مولانا سید ابواعلی مودودی نے پڑھایا ھے اور میں بھی جماعت کا ھی کارکن ھوں اب آپ ضد چھوڑ دیں اور ریفرنڈم کی صرف حمایت کا اعلان کردیں۔ نعمت اللہ خان نے کہا اگر آپ جماعت اسلامی کے کارکن ہیں تو آپ کو بھی جماعت کے فیصلے پر عمل کرنا چاھئے اور آپ بھی میرے ساتھ اس ریفرنڈم کی مخالفت کریں۔ایک اور پیش کش پر کہا کہ میں چار سال کی شہری نظامت پر اپنے چار دھائیوں پر مشتمل نظریاتی تعلق کو قربان نہیں کرسکتا۔اس دور میں کہ جب لوگ ایک کونسلر کے لیے بھی اپنے نظریاتی تعلق کو قربان کر دیتے ہیں نعمت اللہ خان نے اپنے اس بڑے منصب کی بھی پروا نہیں کی کہ جس کی سزا ان کو 2005 میں دی گئی کہ جب نعمت اللہ خان دوبارہ جیت گئے تو ایک آمر کی انا کی خاطر ان کی فتح کو شکست میں تبدیل کردیا گیا۔لیکن نقصان کس کا ھوا اس شہر کا اور کس! لوگ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاھتی ھے تو میں پوچھتا پھر کیوں کرپشن سے پاک، وژنری، با صلاحیت نعمت اللہ خان کو زبردستی ہرواکر کرپٹ ٹولے کو اس شہر پر کس نے مسلط کیا؟ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ نہیں تھی؟نعمت اللہ خان لوگوں کی محبت اور مغفرت کی دعاؤں میں اپنے رب کے حضور پیش ھوگئے۔ لیکن مجھے مختار مسعود یاد آتے ہیں انھوں نے لکھا۔
”بڑے لوگ انعام کے طور پر دیئے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک (اٹھا لیئے) جاتے ہیں”۔بڑے لوگ تیزی سے رخصت ہورہے ہیں بونے بڑی مسندوں پر براجمان ہیں اللہ اس شہر پر رحم فرمائے۔ کیونکہ اس شہر کی نعمت کی لوگوں نے بڑی بے قدری کی ہے۔

حصہ