نثار احمد نثار
میٹرو پولیس ادبی و ثقافتی فورم کا قیام آج سے بیس برس قبل عمل میں آیا تھا جس کے بانیوں میں مشتاق احمد بھٹی‘ مسعود احمد حیات مرحوم اور سلمان صدیقی کے نام شامل ہیں۔ ابتدائی دور میں اس تنظیم کے تحت مشتاق احمد بھٹی کی رہائش گاہ پر شعری نشستیں ہوتی تھیں پھر یوں ہوا کہ لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا اب ان کے تمام مشاعرے میٹرو پولیس اسکول و کالج برائے طالبات بلاک 13 فیڈرل بی ایریا کراچی میں ترتیب دیے جارہے ہیں اس طرح اس تعلیمی ادارے کے تحت شعر و سخن کا سلسلہ جاری ہے اس تنظیم نے یادِ رفتگاں کے حوالے سے بھی کئی پروگرام کیے ہیں اسی تناظر میں 22 فروری بروز ہفتہ 9 بجے شب اعجاز رحمانی کی یاد میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی‘ پروفیسر جاذب قریشی مہمان خصوصی‘ ڈاکٹر سید محمد رضی مہمان اعزازی اور سلمان صدیقی ناظم مشاعرہ تھے۔ تلاوت کلام مجید اور نعت رسول کی سعادت نظر فاطمی نے حاصل کی۔ سلمان صدیقی نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ہم نے اس ادبی فورم کے تحت بہت سے یادگار پروگرام کیے ہیں تاہم کچھ تعطل کے بعد آج ہم نے تعزیتی ریفرنس بہ یاد اعجاز رحمانی اور مشاعرے کا اہتمام کیا ہے۔ اس ادبی فورم کے کنوینر مشتاق احمد بھٹی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ علم دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے خدمت گزار بھی ہیں۔ انہوں نے کراچی کے عالمی مشاعروں میں بھرپور حصہ لیا اور ہر عنوان معاونت کی‘ ہم ان کی ادبی و علمی خدمات پر انہیں سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ ادب کی ترویج و ترقی میں بھرپور حصہ لیتے رہیں گے۔ اعجاز رحمانی کے صاحبزادے تفہیم رحمانی نے کہا کہ میرے والد ایک شفیق انسان تھے‘ 2012 میں ہماری والدہ کا انتقال ہوگیا تھا جس کے باعث ہم بہت اداس ہوئے لیکن ہمارے باپ نے اپنی محبتوں سے ہماری والدہ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ مشتاق احمد بھٹی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ اعجاز رحمانی اردو ادب کا ایک معتبر نام ہے‘ انہوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ساڑھے پانچ ہزار شعار پر مشتمل کتاب ’’سلامتی کا سفر‘‘ تحریر کی۔ 81 نظموں پر مشتمل ایک کتاب کشمیر کے موضوع پر لکھی جس کا نام لہو کا آبشار ہے‘ اس کتاب کی اشاعت کے بعد انہیں ’’شاعر کشمیر‘‘ کہا جانے لگا۔ ان کی غزلوں کی کلیات بھی شائع ہو چکی ہے تاہم اب تک جو کلام شائع نہیں ہوا ہے میں ان کا یہ کلام شائع کروں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اعجاز رحمانی کو صدارتی ایوارڈ سے نوازتی لیکن ایسا نہ ہوسکا ہم اس سلسلے میں احتجاج کرتے ہیں اور حکومتِ سندھ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کراچی کی کسی بھی سڑک کو اعجاز رحمانی سے منسوب کرے۔ پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ 73ء کی دہائی میں جن شعرا نے ادبی منظر نامے میں بڑی اہمیت پائی ان میں اعجاز رحمانی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سماجی‘ اخلاقی‘ مذہبی اور بہاریہ شاعری کی اور ہر صنف سخن میں نام کمایا وہ جدید نعت گو شعرا کی صف میں نظر آتے ہیں‘ وہ سہل ممتنع میں اشعار کہتے تھے اور مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے وہ نظریاتی طورپر جماعت اسلامی کے کارکن تھے انہوں نے کبھی اصولوں پر سودا بازی نہیں کی‘ وہ سامراجی نظام کے مخالف تھے‘ مزاحمتی شعرا کے قبیلے میں نمایاں حیثیت کے حامل اس شاعر نے پچاس سال تک ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کشمیری مجاہدوں کی حوصلہ افزائی کی اور کشمیر پر طویل نظم لکھ کر ریکارڈ قائم کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی پیروی کریں۔ جہانگیر خان نے کہا کہ اعجاز رحمانی کا اتنا کام ہے کہ انہیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ ملنی چاہیے۔ وہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے ساری دنیا میں مشہور تھے‘ ان کی شاعری پر ایم فل اور ایم اے کے مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں تاہم حکومتی سطح پر اعجاز رحمانی کی پزیرائی ہونی چاہیے۔ پروفیسر سحر انصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کی تقریب وقت مقررہ سے تین گھنٹے بعد شروع ہوئی ہے اس میں میزبان کا قصور نہیں بلکہ ہماری عادت بن گئی ہے کہ ہم وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ انہوں نے مشتاق بھٹی کے بارے میں کہا کہ ان کے پانچ تعلیمی ادارے ہیں جہاں علم و فن کے چراغ روشن ہیں اس کے ساتھ وہ اردو ادب کے لیے بھی بہت کام کر رہے ہیں‘ ہر صاحب ثروت کو بھٹی صاحب کی تقلید کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اعجاز رحمانی زود گو شاعر تھے اور قادر الکلام بھی‘ ان کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں‘ ان کی تصانیف کراچی کے تمام تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے‘ ان کے انتقال سے ہم ایک اہم انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر تمام شعرا کی خدمت میں شیلڈز پیش کی گئیں۔ مشاعرے میں پروفیسر سحر انصاری‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ ڈاکٹر سید محمد رضی‘ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ راشد نور‘ ڈاکٹر عباس شہیر‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ نسیم شیخ‘ ناہید عزمی‘ عزیز مرزا‘ عتیق الرحمن‘ آئرن فرحت‘ احمد سعید خان‘ شائق شہاب اور روبینہ نے اپنا کلام نذیر سامعین کیا۔ یہ ایک یادگار پروگرام تھا پنڈال بہت خوب صورتی سے سجایا گیا تھا‘ بینر پر اعجاز رحمانی کی تصاویر کے علاوہ ان کے اشعار بھی نمایاں تھے۔ سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی۔
بہ یاد غالب بزمِ شعر و سخن کی نشست
بزم شعر و سخن کراچی کا معروف ادبی ادارہ ہے‘ اس تنظیم کے جوائنٹ سیکرٹری فہیم برنی ہیں جو کہ ایک علم دوست شخصیت ہیں اور کراچی کے تمام مشاعروں میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ ایک بہترین سامع بھی ہیں ہر عمدہ شعر پر دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر بہ یاد غالب ایک مختصر سی شعری نشست کا اہتمام کیا جس میں طاہر سلطان پرفیوم والا صدر مشاعرہ تھے۔ سبکتگین صبا مہمان خصوصی‘ ڈاکٹر شکیل فاروقی مہمان اعزازی اور ناہید عزمی مہمان توقیری تھیں۔ نورالدین نور اور نسیم شیخ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ فہیم برنی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ انہیں شعر و ادب سے بے حد لگائو ہے اردو کے اہم شعرا کا بہت سا کلام انہیں ازبر ہے۔ مشاعرے ان کی کمزوری ہیں جو بھی مجھے اپنے مشاعرے کی دعوت دیتا ہے میں وہاں ضرور جاتا ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب کراچی میں ادبی تقریبات تواتر کے ساتھ ہو رہی ہیں بلکہ ایک دن میں کئی کئی مشاعرے ہو رہے ہیں۔ آج بھی ہماری نشست کے علاوہ نارتھ کراچی میں کشمیر یکجہتی مشاعرہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے مشاعرے میں کم از کم پانچ شاعر نہیں آسکے لیکن ایک انتہائی قابل ستائش بات ہے کہ کشمیر کے موضوع پر کراچی بھر میں اب تک بے شمار ہو مشاعرے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ آج کی تقریب کے سامعین و شعرا کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میری آواز پر لبیک کہا اور وقت نکال کر تقریب میں شرکت کی۔ طاہر سلطان پرفیوم والا نے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب ہر علاقے میں لائبریریاں ہوتی تھیں‘ ہر شخص کرائے پر کتاب لے کر پڑھتا تھا۔ بہ الفاظ دیگر کتب بینی کا شوق بہ درجہ اتم موجود تھا پھر یوں ہوا کہ سوشل میڈیا‘ واٹس ایپ‘ گوگل اور فیس بک نے ہمیں مطالعے اور کتب بینی سے دور کر دیا اب ہم سہل پسند ہو گئے ہیں اور اپنی مطلوبہ معلومات کے لیے سوشل میڈیا سے رجوع کر رہے ہیں لیکن کتب بینی کا اپنا ہی لطف ہے ہماری انجمن کی کوشش ہے کہ ہم لو گوں کو کتب بینی کی طرف راغب کریں اس سلسلے میں ہم کتابیں خرید کر لوگوں میں (کم قیمت پر) تقسیم کر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہم مشاعروں کو بھی پروموٹ کر رہے ہیں اب ہم 28 مارچ 2020 کو عالمی مشاعرہ منعقد کر رہے ہیں آپ سب احباب سے درخواست ہے کہ ہمارے ہاتھ مضبوط فرمائیں۔ اس موقع پر سبکتگین صبا‘ ڈاکٹر شکیل فاروقی‘ ناہید عزمی‘ راشد نور‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ نسیم شیخ‘ نورالدین نور‘ حنیف عابد‘ ریحانہ احسان‘ شائق شہاب اور جنید حسن جنیدی نے اپنا کلام پیش کیا۔
مشاعرہ ادبی ذوق کی تسکین کا ذریعہ ہے‘ پروفیسر سحرانصاری
معاشرے کی تنزلی اور ترقی میں ارباب قلم بڑی اہمیت کے حامل ہیں‘ ہر زمانے میں قلم کاروں نے سماجی مسائل اجاگر کیے ہیں‘ یہ وہ طبقہ ہے جو سچائیوں کا علمبردار ہے‘ ادیبوں اور شاعروں میں یہ فرق بھی قابل ذکر ہے کہ شاعر بڑے سے بڑا مضمون دو مصرعوں میں بیان کر دیتا ہے کیوں کہ شاعری ودیعت الٰہی ہے۔ زمانۂ قدیم سے آج تک شاعری ہو رہی ہے‘ مشاعرے ہماری تہذیبی اقدار کا حصہ ہیں‘ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ مشاعرہ بھی ہماری ادبی ذوق کی تسکین کا ایک حصہ ہے۔ جو لوگ مشاعرے ترتیب دے رہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ کراچی میں بہت سی شخصیات اس حوالے سے اپنی شناخت رکھتی ہیں ان میں طارق جمیل بھی شامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے راقم الحروف نثار احمد نثار سے طارق جمیل کی رہائش گاہ پر کیا جہاں ان کے اعزاز میں طارق جمیل نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ پروفیسر سحر انصاری نے مزید کہا کہ شاعری میں لفظوں کی نشست و برخواست بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ شاعر کے ہر شعر کا ابلاغ ہونا چاہیے‘ مضمون اچھا اور زبان سادہ ہونی چاہیے‘ ثقیل الفاظ لکھ کر دوسروں پر رعب مت ڈالیے نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ شاعری زندگی سے مربوط ہے‘ ہر زمانے کی لفظیات بدلتی رہتی ہیں ہمیں زمینی حقائق لکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 17 فروری بروز پیر رات 8 بجے طارق جمیل نے اپنی رہائش گاہ پر کچھ دوستوں کو جمع کیا تھا جہاں 9 سے 10 بجے تک گپ شپ ہوتی رہی جس میں پروفیسر سحرانصاری‘ محسن اعظم ملیح آبادی‘ فراست رضوی‘ رونق حیات‘ سعیدالظفر صدیقی‘ حامد اسلام‘ سلمان صدیقی‘ طارق جمیل اور حنیف عابد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ رونق حیات نے کہا کہ قلم کاروں کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے‘ حکومتی سطح پر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جن حکومتی اداروں کو ادب کی ترویج و ترقی کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں وہ اس کام کے بجائے اپنے من پسند قلم کاروں کی پروجیکشن میں مصروف ہیں کراچی کے اہم قلم کار نظر انداز کیے جارہے ہیں ہم اپنی تنظیم نیاز مندان کراچی کے پلیٹ فارم سے ان کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام قلم کار متحد ہو جائیں۔ حامد اسلام خان نے کہا کہ انہوں نے سعودی عرب میں اردو کمی بڑی بڑی تقریبات منعقد کی ہیں البتہ یہ کام وہاں بہت مشکل ہو گیا ہے انہیں خوشی ہے کہ کراچی میںاردو مشاعرے ہو رہے ہیں۔ فراست رضوی نے کہا کہ گروہ بندیوں سے ادب کی ترویج و ترقی میں رکاوٹیں آرہی ہیں جب تک ہم اپنے اختلافات بھلا کر یکجا نہیں ہوں گے بات نہیں بنے گی۔ سعید الظفر نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے باوجود اردو سرکاری طور پر دفتری زبان نہیں بن پا رہی‘ اسٹیبلشمنٹ اس سلسلے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر رہی۔ اس وقت نفاذ اردو میں بے شمار مسائل حائل ہیں۔ محسن اعظم ملیح آبادی نے کہا کہ مطالعے کے بغیر اچھی شاعری ممکن نہیں۔ اساتذہ کا کلام ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ طارق جمیل نے کہا کہ وہ اردو ادب کی ترقی میں ہر ممکن حصہ لیتے ہیں اس کام کے لیے ہم نے بزم شعر و سخن تشکیل دی ہے جہاں ہر سال الیکشن کے ذریعے عہدیداران کا تقرر عمل میں آتا ہے آج کی تقریب کا مقصد یہ ہے کہ ہم اردو زبان کی ترقی کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں اس وقت اردو کے رسم الخط کو تباہ کیا جارہا ہے‘ رومن انگلش میں اردو لکھی جارہی ہے جب کہ اردو کا سافٹ ویئر موجود ہے ہمارے بچے انگلش اسکول میں پڑھتے ہیں‘ ہم اپنے گھروں میں اردو کے بجائے انگلش بول کر خوش ہوتے ہیں۔ انگلش سیکھنا ایک معاشی ضرورت بن گئی ہے مگر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اردو کا جنازہ نکال دیں۔ یاد رکھیے اردو ختم نہیں ہوگی کیوں کہ یہ اب برصغیر ہند و پاک کے علاوہ بھی ساری دنیا میں اپنی شناخت بنا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پروفیسر سحرانصاری ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ آپ ہمارے عہد کے ایک بڑے انسان ہیں‘ آپ کی علمی و ادبی خدمات پر ماہرین ِ علم و فن آپ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر عشائیہ کے بعد پروفیسر سحر انصاری‘ محسن اعظم ملیح آبادی‘ سعید الظفر صدیقی‘ فراست رضوی‘ رونق حیات‘ سلطان صدیقی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ حنیف عابد‘ سعدالدین سعد‘ یاسر سعید صدیقی اور تنویر سخن نے اپنی اپنی غزلیں پیش کیں۔ سامعین میں محمد طاہر پرفیوم والا‘ اعظم علی‘ الطاف احمد‘ حامد اسلام‘ سرفراز عالم‘ عبید ہاشمی‘ فہیم برنی اور مزمل تنویر شامل تھے۔