زندگی کی حقیقتیں

656

افروز عنایت
اپارٹمنٹ کے لائونج میں اس نے قدم رکھا، طائرانہ نگاہیں چاروں طرف دوڑائیں… فرنیچر، ڈیکوریشن پیس، دیواروں پر آویزاں قرآنی تغرے سب ویسے ہی تھے، صرف نہ تھی ان کے درمیان وہ ہستی جو اس کی ’’ماں‘‘ تھی۔ گھر میں قدم رکھتے ہی جس کی آواز کانوں میں گونجتی تھی ’’آگئیں میری بیٹی؟‘‘ ماں کی آنکھوں میں اپنی اکلوتی اولاد کے لیے محبتوں کے دیپ جل اٹھتے تھے، حالانکہ وہ صرف چار پانچ گھنٹوں کے لیے یونیورسٹی جاتی… ماں کی یاد سے اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اس سے پہلے کہ وہ بے قابو ہوجاتی، پیچھے سے بابا کی آواز کانوں میں پڑی ’’لو بیٹا اپنا سامان چیک کرلو‘‘… اس نے فوراً اپنے آنسو پونچھ لیے، مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے باپ کی طرف پلٹی…
’’بابا… یہ دونوں بیگ… آپ کیوں لے کر آئے، چوکیدار کو کہتے، وہ لے آتا۔‘‘
’’تم تو یوں کہہ رہی ہو جیسے میں انہیں اٹھاکر لے کر آیا ہوں۔ لفٹ میں تو لانے تھے، میں نے سوچا چوکیدار کو کیوں تکلیف دوں!‘‘
اس نے بابا سے سامان لے کر ایک طرف رکھ دیا اور دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے لگے۔ حالانکہ وہ ہر روز دن میں دو مرتبہ لندن سے بابا سے بات ضرور کرتی، لیکن دونوں ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھ کر نہال تھے اور دونوں کی کوشش تھی کہ وہ مرحومہ کا ذکر نہ کریں۔ یوں لگ رہا تھا وہ جان بوجھ کر مرحومہ کے ذکر سے گریز کررہے تھے کہ سامنے والا دکھی نہ ہوجائے۔
’’بیٹا تم لمبے سفر سے آرہی ہو، میرے خیال میں باقی باتیں صبح ہوں گی، اب تم آرام کرو۔‘‘
بابا کے چہرے پر بھی تھکن کے آثار تھے… نہ جانے وہ کتنی دیر ائرپورٹ پر انتظار کرتے رہے تھے۔ لہٰذا وہ بابا کو خدا حافظ کہہ کر اپنے کمرے میں آگئی… وہی سامان، وہی کمرہ… سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ دو سال پہلے چھوڑکر گئی تھی، لیکن ایک ویرانی اور اداسی تھی جو گھر کے کونوں کھدروں میں بھی بکھری ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں پھر سے چھلک پڑیں، وہ سسک پڑی ’’مما… آپ مجھے کیوں اتنی جلدی چھوڑ گئیں‘‘… اسے بابا کا خیال آگیا۔ وہ کمرے سے باہر آئی۔ بابا سوگئے تھے، اُن کے خراٹوں کی آوازیں کمرے کے باہر سے سنائی دے رہی تھیں۔ وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں آئی، آہستہ سے دروازہ بند کیا، پلنگ کے سائیڈ ٹیبل پر مما اور اس کی تصویر، دونوں کی مسکراہٹ دل آویز… اس نے اماں کی تصویر کو آنکھوں سے لگایا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، اسے لگا جیسے اس کے پیچھے مما کھڑی ہیں۔ ’’اوہو رکھ دو… گرا دو گی۔ بہت پھوہڑ ہو، میرے بعد کیا کرو گی! سارا دن صرف پڑھائی میں لگی رہتی ہو، نہ اپنا خیال نہ…‘‘
اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا… ’’مما، آتے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا، سدھر جائوں گی وقت آنے پر‘‘… وہ پیچھے پلٹی، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ اس کے لیے اپنی سسکیوں پر قابو پانا بہت مشکل تھا۔ مما… جنہوں نے اپنی بیماری کو چھپا کر درد سہا تھا، وہ جو اس کے لیے جیتی تھیں، اس کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہو اٹھتیں… اس نے تصویر پر لگی گرد کو اپنے دوپٹے سے صاف کیا اور تصویر سینے سے لگا کر پلنگ پر ڈھے گئی۔ یادیں اس کے ذہن کے دریچے پر دستک دے رہی تھیں…’’نہیں مما ہرگز نہیں، میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گی، آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں اور آپ کو میری شادی کی لگی ہوئی ہے! میری تعلیم بھی ابھی ادھوری ہے۔‘‘
’’میری جان… میں مر تو اُسی وقت جاتی۔ میں نے اپنے رب سے وقت مانگا تھا تیری جوانی تک کے لیے، میں تجھے اپنے ہاتھوں سے پال پوس کر جوان کرنا چاہتی تھی۔ یہ بیس سال… میرے رب کی طرف سے میرے لیے، اور تیرے لیے بھی تحفہ تھے۔ … اب تُو جوان ہے، اپنا اچھا برا سمجھ سکتی ہے، میری انگلی پکڑ کر چلنے کی اب تجھے ضرورت نہیں…‘‘
ماں کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
’’مما آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ اب مجھے آپ کی ضرورت نہیں…! آج آپ میرے ساتھ ہوتیں… آج تو مجھے کل سے بھی زیادہ آپ کی ضرورت ہے۔ آپ میری کامیابی پر کتنا خوش ہوتیں! مجھے اپنی یہ تعلیمی ڈگری آپ کے بغیر ادھوری لگ رہی ہے‘‘۔ نہ جانے وہ کب تک ماں سے سرگوشیاں کرتے کرتے نیند کی آغوش میں پہنچ گئی۔
٭…٭
وہ بڑی حیرانی اور تجسس سے باغ کے ہر پھول کو دیکھ رہی تھی۔ خوشنما خوبصورت باغ… اس نے کبھی ایسا خوبصورت منظر نہیں دیکھا تھا۔ پھولوں کی خوشبو اس کی سانسوں کو معطر کررہی تھی۔ ’’مما… مما… یہ… یہ سب اور آپ یہاں؟ آپ کا لباس… (چاروں طرف نگاہیں دوڑاتی ہوئی) یہ… یہ کون سی جگہ ہے، اور آپ یہاں؟ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب میں آپ کے لیے روئی نہ ہوں‘‘… مماکی آنکھوں میں خوشیوں کی دیپ جل رہے تھے۔ ان کے لباس سے اٹھنے والی مہک اُسے مدہوش کررہی ہے۔ مما نے اُسے پیار سے بانہوں میں لے کر پیشانی پر بوسہ دیا… ’’میری جان یہی اب میرا مسکن ہے، میں یہاں بہت خوش ہوں، صرف تیرے آنسو مجھے تڑپا دیتے ہیں۔ تجھے میرے رب نے اس دنیا میں بہت سے انعامات دیئے ہیں، تُو خوش رہنے کی کوشش کر۔ تیری تڑپ مجھے تڑپا دیتی ہے… جا اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹ لے… یہی زندگی کی حقیقتیں ہیں…‘‘
٭…٭
کچن سے آتی برتنوں کی آواز سے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ صبح ہوگئی تھی، شاید بابا کچن میں چائے بنا رہے تھے…
مما کے لمس کی گرماہٹ اور مہک ابھی بھی اس کے نتھنوں میں محسوس ہورہی تھی۔ مما کی خوشی و سکون اس کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔ اس نے سوچا، یقینا میری مما نے بیس سال بیماری کا جو کرب سہا ہے اب وہ وہاں سکون سے ہیں۔ مما کے پُرسکون اور طمانیت بھرے چہرے نے جیسے اس کے بے چین دل کو قرار دے دیا تھا۔ اس کے دل کی بے چین دھڑکنوں کو سکون بخشا تھا۔ اس کی بے قرار اور چھلکتی آنکھوں کو قرار آگیا تھا… مما اگلے جہاں میں اُس کی توقعات سے بھی زیادہ خوش ہیں۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ فون کی گھنٹی نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
اس نے موبائل فون اپنے کان سے لگایا، اس کے شوہر کی آواز تھی ’’خیریت سے پہنچ گئیں، کیسا رہا سفر؟‘‘
شوہر کی محبت اُس کی آواز سے چھلک رہی تھی۔ بے شک مما صحیح کہہ رہی تھیں، مجھے اپنے اردگرد سے خوشیاں سمیٹنی ہوں گی، اپنے آس پاس والوں کے لیے جینا ہوگا۔ اسی طرح میری مما کو دوسری دنیا میں خوشیاں اور سکون محسوس ہوسکتا ہے۔

آہ نعمت اللہ خان

اے ایچ خانزادہ

اندھیری شب میں چمکتا ہوا ستارا رہا
جو ڈوبتا تھا مرا شہر وہ کنارا رہا
وہ پیر تھا کہ جوانوں کے حوصلے والا
وہ میرے شہر میں خدمت کا استعارہ رہا

ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر

غیر متنازع تھے نعمت اللہ خاں صاحب
شہریوں کے بابا تھے، نعمت اللہ خاں صاحب
خدمت و دیانت کا ایک استعارہ تھے
اسم با مسمیٰ تھے، نعمت اللہ خاں صاحب
دردِ دل کا گوہر بھی، پیکرِ محبت بھی!!
خوبیوں میں یکتا تھے، نعمت اللہ خاں صاحب
اے خدا عطا کر پھر، نعمتؔ اور افغانیؔ!!
شہر کے مسیحا تھے، نعمت اللہ خاں صاحب
رہروی بھی کی اس نے، رہبری بھی کی اس نے
رہبر کتنے اعلیٰ تھے، نعمت اللہ خاں صاحب

نعیم الدین نعیم

بے وفائی… وہ کر گیا آخر
دل سے میرے… اتر گیا آخر
آگ میں… ڈوب کر گیا آخر
سورج… اس پار اتر گیا آخر
ہائے ظالم تھا… وہ بڑا ظالم
سب حدیں… پار کر گیا آخر
ایک انسان تھا… خدا تو نا تھا
بندہ فانی تھا… مر گیا آخر
یہ تو اس کی… پرانی عادت تھی
کر کے وعدہ… مکر گیا آخر
شخص اک دشمنِ وفا تھا… کوئی
پیار پہ… وار کر گیا آخر
داستانِ حیات… ختم ہوئی
پھول کھل کے… بکھر گیا آخر
دے کے یادیں حسین یارو کو
شہر سے… کوچ کر گیا آخر
دل یہ کب تک فریب کھاتانعیم
دل یہ… دنیا سے بھر گیا آخر

حصہ