عالیہ زاہد بھٹی
واٹس ایپ پر اسٹیٹس چیک کرتے کرتے میری نگاہ ایک پر رک سی گئی۔ بہت خوب صورت سی راہ گزر کے دونوں طرف پھولوں بھرے جھنڈ تھے اور عنوان تھا بہت ہی آسان راہ گزر ہے اس سے آگے کمنٹس لگائے گئے تھے کہ زندگی اتنی آسان نہیںجتنی یہ راہ گزر ہے۔ پھر آگے شعر:۔
انہی پتھروں پر چل کے اگر آ سکو تو آئو
میرے گھر کی راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
کہنے اور دیکھنے میں کوئی بھی چونکا دینے والی بات نظر نہیں آئی مگر اس کی تشریح میں جائیں تو ’’زندگی بے بندگی شرمندگی‘‘کی عملی تفسیر روح کو بوجھل کر دیتی ہے۔ میری روح بھی ماضی کے جھرکوں میں زخموں کو کرید کر بوجھل ہوتی چلی گئی۔
…٭…
’’امی! امی…! بہت زور کی بھوک لگی ہے کیا پکایا ہے؟‘‘ نجم السحر گھر میں داخل ہوتے ہی بھوک کا شور مچاتی باورچی خانے میں امی کے سر پر جا کھڑی ہوئی۔
’’تم منہ ہاتھ دھو میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ امی نے چاولوں کو دَم دیتے ہوئے کہا۔
نجم السحر منہ ہاتھ دھو کر کمرے سے ابو جی کو بھی ساتھ لے کر آگئی اور محسن کو فون ملا کر کرسی کھینچ کر میز پر بیٹھ گئی۔
’’ہاں محسن کب تک آئو گے چار بجنے والے ہیں میں تو یونیورسٹی سے آگئی ہم کھانا کھانے لگے ہیں تم کب تک آئو گے؟‘‘
دوسری طرف معلوم نہیں کیا جواب ملا اس نے فون رکھتے ہوئے آہستگی سے کہا ’’اوکے! جیسے تمہاری مرضی۔‘‘
’’کیا ہوا کیا ارادہ ہے محسن اور حرا کا‘ آرہے ہیں؟‘‘ امی نے استفسار کیا تو ابو جان بھی متوجہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’محسن کہہ رہا ہے کہ حرا کی ڈیوٹی آف ہونے میں دیر ہے وہ خود تو فری ہو گیا ہے مگر حرا کی وجہ سے وہ ابھی ہاسپٹل میں ہی ہے اسی کے ساتھ واپس آئے گا۔‘‘ نجم السحر نے بجھے دل سے کہا اور ساتھ ہی بے دلی سے چاول اپنی پلیٹ میں ڈال کر چھوٹے چھوٹے لقمے کھانے لگی۔ امی‘ ابو بھی چپ چاپ کھانا کھا رہے تھے کہ اس سکوت کو نجم السحر نے ہی توڑا۔
’’اگر شادی کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی بیوی کے پلو سے ہی بندھ جائے اور ماں باپ‘ بہن بھائیوں کو چھوڑ دے تو ایسی شادی سے تو بندہ بغیر شادی کے ہی بھلا۔‘‘
’’نہیں بیٹا! بری بات‘ ایسا نہیں ہے اس کی ذمہ داری ہم لوگ ہیں تو اس کی بیوی بھی اس کی ذمہ اری ہے‘ اسے ساتھ لے کر آنا چاہیے ورنہ اسے اکیلے آنا پڑے گا۔‘‘ ابوجان نے تحمل سے سمجھایا تو نجم السحر تنک کر بولی ’’تو کیا پہلے وہ خود اکیلی نہیں آتی تھی‘ اب محسن کی بیوی بن کر ملکہ عالیہ کو پک اینڈ ڈراپ بھی مہیا کرے گا‘ وہ شوہر ہے یا شوفر…؟‘‘
’’خدا کا نام لو نجم! بھابھی ہے وہ تمہاری‘ تمہارے بھائی کی بیوی۔ محسن ساری عمر تمہارا شوفر بنا رہا تو آج اپنی بیوی کی ذمہ داری اٹھانے پر ایسا سلوک کرو گی۔‘‘ امی نے بھی فہمائش کی تو وہ تلملا کر اٹھ گئی۔
’’اس گھر میں بھابھی کیا آئی ہے پورا گھر ہی اسی کا ہوگیا ہی‘ ہماری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔‘‘ امی اس کے پیچھے جانے لگیں تو ابو جاننے انہیں روک دیا۔
’’جانے دو بیگم! اسے احساس ہونا چاہیے کہ ہر شخص کا اپنا مقام و مرتبہ ہے‘ اسی کے مطابق سب کو ڈیل کرنا ہوگا ابھی نہ سمجھی تو کبھی نہیں سمجھ پائے گی۔‘‘
مگر ان کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ جب عقل پر پتھر پڑ جائیں تو بڑے بڑے سورما تقدیر کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ نجم السحر کے ساتھ بھی کچھ ایساہی معاملہ تھا وہ چار بہن بھائی تھے‘ دو بہنیں‘ دو بھائی۔ بہن کی شادی ہو چکی تھی وہ سسرال کے جھمیلوں میں ایسی پھنسی تھی کہ میکے کو بھول ہی بیٹھی تھی محسن اور حسن دو بھائی تھے محسن کی شادی اس کی اپنی پسند سے ساتھی ڈاکٹر حرا سے ہوئی تھی‘ حرا بہت محبت کرنے والی ملن سار سی لڑکی تھی‘ محسن بھی معقول حد تک اچھا بھائی اور بیٹا تھا مگر شادی شدہ زندگی جتنی تبدیلی لاتی ہے ذمہ داریوں میں اضافے کے ساتھ معمولات بھی مختلف ہو ہی جاتے ہیں جسے نجم السحر قبول کرنے پر تیار نہیں تھی۔
…٭…
وقت گزرتا چلا گیا‘ محسن کے بعد حسن کی بھی شادی ہو گئی اور دونوں بھائی کچھ تو ضرورت کے تحت اور بہت زیادہ نجم السحر کے رویے سے شاکی ہو کر الگ اپنے اپنے گھر جا بسے۔ نجم السحر اعلیٰ تعلیم کے حصول میں منہمک آج پی ایچ دی کے بعد اعلیٰ ترین سرکاری عہدے پر فائز تھی اور ماں باپ کا واحد سہارا بھی امی کی حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی‘ ابو تو پھر بھی بہتر تھے مگر امی کے لیے اسے فل ٹائم ایک خادمہ رکھنی پڑ رہی تھی کہ وہ خود اپنی نوکری کے ساتھ امی پر توجہ نہیں دے پارہی تھی۔ دن روکے پھیکے گزرتے چلے جارہے تھے کہ یکایک اس کی زندگی میں ہلچل اس وقت ہوئی جب وہ زندگی کو اپنے اسی رنگ میں قبول کر چکی تھی۔
’’آپ سے ایک ذاتی سوال پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ مبشر علی صدیقی نے ٹانگ پر ٹانگ جما کر سامنے بیٹھی ڈاکٹر نجم السحر سے گویا اجازت طلب کی۔
’’جی کہیے…‘‘ نجم السحر کاغذات سے سر اٹھا کر انہیں سوالیہ انداز سے دیکھنے لگی۔
’’آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘ اس اچانک افتاد پر نجم السحر نے سٹپٹا کر انہیں دیکھا اور انہیں ہنوز سنجیدگی سے اپنی طرف دیکھتے پا کر نظروں کا زاویہ بدلا ’’بس ویسے ہی کبھی خیال ہی نہیں آیا۔‘‘ وہ دھیمے سے بولی۔
’’تو اب خیال کرلیں۔‘‘ مبشر علی صدیقی نے گویا اتنی میچورٹی کے لیول پر پہنچی مشرقی خاتون کی ٹین ایجر گھبراہٹ کو انجوائے کیا تو نجم السحر نے اپنے حواس قابو میں کرکے متانت سے جواب دیا۔ ’’ہر چند کہ میں عمر کی اس دوراہے پر ہوں جسے میچورڈ ایج کہا جاتا ہے مگر ہمارے مشرق کی ایک خوب صورت روایت ہے کہ ہمارے ہاں کی 80 سالہ ماں بھی کسی بڑے فیصلے کو کرنے سے پہلے اپنے گھر کے بیس سالہ مرد سے بھی مشورہ ضرور کرتی ہے اور شادی بیاہ تو پھر معاملہ ہی مختلف ہے ڈگریوں کا انبار پشت پر لاد کر ہی ہم اپنے والدین کی حکمت کے محتاج رہتے ہیں۔‘‘
ٹھیک ہے تو پھر آپ کے والدین سے ہی بات کی جائے گی۔‘‘ مبشر صاحب نے بھی اسی مدبرانہ جواب پر شرافت و متانت کا پیکر بننا پسند کیا۔
…٭…
’’باقی سب تو ٹھیک ہے مگر اس کی شادی شدہ بہنیں ابھی تک اس کی ساتھ ہیں‘ چلو ماں کو تو جیسے تیسے ’’برداشت‘‘ کیا جاسکتا ہے مگر چار بہنوں کا اکلوتا بھائی انہی کو بیاہتے بیاہتے اس کی اپنی شادی کی عمر نکل گئی‘ اب اگر اسے شادی کا خیال آ ہی گیا ہی تو کم از کم گھر تو الگ کر لے۔‘‘ ابو جان کو اعتراض تھا۔ امی بھی ہمنوا تھیں۔
’’ہاں ناں آبائی گھر ہے چاروں بہنوں کو اسی میں رکھا ہوا ہے تو بیوی کو الگ کرلے اس کی بہنیں ماں کے پاس ہی رہیں اور خود شادی کرکے ہمارے قریب ہی شفٹ ہو جائے تو سوچا جا سکتا ہے۔‘‘
بات جب مبشر علی صدیقی اور ان کی والدہ اور بہنوں تک پہنچی تو ہاہاکار مچ گئی۔’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ جیسے سوال خود مبشر صاحب پریشان ’’ارے میں تو اپنی بہنوں کے ہاتھ کا کھانا کھانے کا ہی عادی ہوں‘ ہم سب تو جب تک رات کا کھانا اکٹھے نہ کھا لیں نیند ہی نہیں آتی‘ شادی کا مطلب گھر والوں سے دستبرداری تو نہیں۔‘‘
نجم السحر کے سامنے جب انہوں نے یہی بات کی تو وہ بہت متانت سے بولیں کہ ’’شادی کا مطلب تبدیلی ہی تو ہے ہر انسان وقت‘ حالات اور ضرورت کے مطابق نئے ماحول میں ڈھل جاتا ہے اور اگر رشتوں میں لچک نہ ہو تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں‘ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت زندگی گزرتی ہے‘ کہیں آپ کو ماننا پڑتا ہے تو کہیں منوانا پڑتا ہے۔ ہر رشتے کا وقت کے لحاظ سے مختلف تقاضا ہوتا ہے جسے مان لینا ہی شرفِ انسانیت کی معراج ہے۔‘‘
اتنے شاندار سے لیکچر پر مبشر علی صدیقی منہ اٹھا کر نجم السحر کو دیکھتے رہ گئے اس کے حالات زندگی جان کر ہی انہوں نے اس سے شادی کا فیصلہ کیا تھا کہ جن رویوں سے وہ خود نالاں ہے ان پر حساس ہے تو وہ لازمی ان کی حساسیت کو بھی سمجھے مگی مگرکیا کہیں کہ تبدیلی یہاں بھی آچکی تھی۔