نور العین انور
گزشتہ دن عجیب بے چین تھے۔ لوگ بھی محبت کرنے والے تھے۔۔ ضروریات زندگی بھی احسن طریقے سے پوری ہورہی تھیں مگر ایک اضطراب اور پریشانی نہ راتوں کو سونے دے رہا تھا اور نہ دن کو پرسکون رہنے دیتا۔۔ ہر چیز سے دل اٹھا اٹھا معلوم ہوتا تھا۔۔ ایسے میں اس نوجوان نے سوچا کیوں نہ بابا شاہ کے دربار پر جایا جائے۔۔ کتنی ہی بے چین روحیں وہاں جا کر مست سی واپس آتی ہیں۔۔۔ یہ سوچنا ہی تھا کہ اس امن و اطمینان کے مسافر نے کشت سفر باندھا اور رکشہ کروا کر مزار کی طرف چل دیا۔ ابھی رکشہ کچھ دور ہی گیا ہوگا کہ اس کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔
اس دن لو کا شدید عالم تھا اور سکھر کی گرمی کی شدت سے تو سب ہی واقف ہیں۔ آج حبس بھی بہت تھا جس کی وجہ سے جب رکشہ رکا تو اسے سانس گھٹتا محسوس ہوا۔۔ چلتے رکشے سے تو ہوا کا گزر ہوجاتا تھا مگر ایک جگہ کھڑے رہنے پر معلوم ہورہا تھا کہ موسم کتنا سخت ہے۔ انتظار سے اکتا کر وہ نوجوان پاس نیم کے گھنے سایہ دار درخت تلے کھڑا ہوگیا۔۔ تپش میں کمی ہوئی تھی اور سکون آیا تھا مگر اس بے چین پھڑپھڑاتی روح کا وہ کیا کرتا !
حبس بے جا میں گھٹتی سڑتی وہ روح سانس لینا دوبھر کیے ہوئے تھی!اس خیال کا آنا ہی تھا کہ وہ نوجوان چونک اٹھا!
میں بھی حبس میں تھا تو سائے میں آیا، میری روح کو بھی کسی سائبان کی ضرورت ہے۔۔ اسے بھی گناہوں کی لو لگ گئی ہے اسے بھی نیم کے درخت جیسی ٹھنڈک درکار ہے۔۔ پاکیزہ اینٹی سیپٹک ٹھنڈک۔۔ مگر بابا کے مزار پر ملے گا نا مجھے وہ سائبان؟ وہ خود سے گویا ہوا تھا۔۔۔ کیوں بابا کیا زندہ ہے جو تجھے ٹھنڈک دے گا یا سایہ سے نوازے گا۔۔ یہ نیم کا پیڑ بھی اگر سوکھا ہوتا تو کیا یہ سایہ دیتا؟ اس کے مرجھائے پتے کیا ٹھنڈک کا باعث بنتے ؟ اندر سے چھلنی روح چلائی تھی اور اسے ہلا کر رکھ دیا تھا !
میں کہاں جارہا تھا اور میرے رب نے مجھے کیسے بچا لیا اس کا سوچ سوچ کر آنسو بہے جارہے تھے۔۔۔ وہ تو زندہ ہے پھر میں مردوں کے پاس کیوں جارہا تھا۔۔۔ بچپن میں پڑھی اللہ کی صفت گویا اس کے دماغ میں کوندی تھی۔۔ اور وہ عجیب شکر اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ رکشہ والے کے پاس گیا اور واپسی کا کہا۔ رکشہ ٹھیک ہوچکا تھا اور وہ لمحات اس کی روح کی مرمت کے لیے بھی بہت کارگر ثابت ہوئے تھے!۔