گوشے میں قفس کے

622

نگہت ظہیر
زرّین کی نظریں بہت دیر سے موبائل اسکرین پر جمی ہوئی تھیں، وہ نہ جانے کیا اتنی محویت سے دیکھ رہی تھی۔ اچانک اٹھ کھڑی ہوئی اور سیدھی اپنی آپا نگین کے کمرے میں جا پہنچی جہاں آپا اپنی کتابوں کی الماری کے سامنے پڑی آرام کرسی پر براجمان کسی کتاب میں غرق تھیں۔ ’’آپا!آپ اتنے آرام و سکون سے بیٹھی ہوئی ہیں۔ اب آپ بھی اٹھ کھڑی ہوں میں بھی کھڑی ہوچکی ہوں۔‘‘ اس نے انتہائی جوش و خروش سے کہا ! ’’کیوں بھئی کیوں، میں کیوں اٹھ کھڑی ہوں؟ ارے بھیا تم بھی بیٹھ جائو اور مجھے بھی بیٹھا رہنے دو‘‘۔ ’’میں بھیّا نہیں ہوں‘‘ زرّین نے تنتناتے ہوئے جل کر کہا! وہ آپاکے نوٹس نہ لینے پر جل ہی تو گئی تھی۔ ’’اچھا بھئی پیاری بہنا بیٹھ جائو۔‘‘ آپا نے پیار سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا! تو وہ بادلِ ناخواستہ برابر میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ آپا! ساری دنیا کے لوگ ہمارے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ چیخ رہے ہیں۔ ہماری اتنی امیر امیر ماڈرن عورتیں اچھے اچھے کپڑے پہن کر دھوپ کے چشمے لگا کر گرمی میں ہماری آزادی ہمارے حقوق کے لیے کھڑی ہیں جلسے کر رہی ہیں۔ ہم ہیں کہ ہوش میں ہی نہیں آتے۔ کونے میں بیٹھے ہیں آپ کی طرح … ہماری عورتوں پر ظلم ہورہا ہے۔ ان کو پردے میں گھروں میں قید کیا ہوا ہے۔ ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ زرّین کی باتیں سن کر آپا نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ زرّین کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں آپا اور قہقہہ۔ آپا تو مسکراتی بھی ہلکے سے ہیں زیرِ لب مسکراہٹ سے کام چلا لیتی ہیں۔ وہ حیرا ن حیران سی آپا کو اور آپا اپنی سترہ سالہ معصوم سی بہن کو دیکھے جارہی تھیں۔ یہ سب کچھ کہاں سے بھر گیا اس کے دماغ میں… نگین نے سوچا اس نے یہ سب ضرور ٹی وی میں یا اپنے موبائل میں دیکھا ہوگا ۔ وہ زرّین سے گویا ہوئیں ’’ارے تم تو بالکل پاگل ہو کن کی باتوں میں آرہی ہو پتا ہے یہ دنیا والے کیا چاہتے ہیں۔ کون سے حقوق اور کیسی آزادی دلانا چاہتے ہیں… آپ ہی بتادیں تو اچھا ہے۔ آپ تو ٹھہریں ارسطو، افلاطون، سقراط و بقراط اور پتا نہیں کیا کیا… میری سمجھ میں نہیں آتیں آپ کی باتیں آپ تو فٹ ہیں اس گوشے میں نگینے کی طرح … لیکن میں Misfit ہوں میں ایسی نہیں بن سکتی۔
آپا بھی زرّین کی باتوں سے تھوڑا غصے میں آگئیں۔ ’’کیا نہیں کرتی میں…وہ سب کچھ کرتی ہوں جو مجھے کرنا چاہیے بس تمہاری طرح ٹی وی اور موبائل سے دل لگانے کے بجائے مجھے مطالعہ کا شوق ہے۔ میں اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر کتابیں پڑھتی ہوں تو کیا برا ہے۔‘‘
دونوں بہنوں میں ہلکی پھلکی نوک جھونک جاری تھی۔ لیکن نگین نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ زرّین کے ذہن سے اس غبار کو نکال کر رہے گی۔ اس نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر زرّین کو مخاطب کیا! زرّین تم میری سہیلی شازیہ کو جانتی ہو جو شادی کے بعد یورپ گھومنے پھرنے گئی تھی اب آج کل وہ انگلینڈ میں ہے۔ اس سے اکثر میری بات ہوتی رہتی ہے اور جب وہ پاکستان آئی تھی تو ہمارے گھر بھی تو آئی تھی صبح سے شام تک کے لیے خوب باتیں ہوئی تھیں تمہیں یاد ہے ناں… کیا نقشہ کھینچا تھا اس نے وہاں کی معاشرت کا… کتنا برا حال ہے وہاں کی عورت کا… کتنی تنہا اور کیسی بے یارو مددگار ہوتی ہے وہاں کی عورت… شازیہ نے بتایا کہ وہ شروع شروع میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ٹیکسی اور بس ڈرائیور، کنڈیکٹر، پولیس کانسٹیبل، خاکروب ہر روپ میں ہر کام میں اسے عورت نظر آئی۔ پسینے میں شرابور میک اپ سے بے نیاز مردانہ حلیہ میں بے کشش عورت… صبح سے شام تک سات آٹھ گھنٹے محنت مشقّت کرکے اپنے روزگار اپنے رہن سہن کا خود انتظام کرنے والی عورت اور تو اور شازیہ کے میاں نے یہ بھی بتایا کہ فیکٹری میں رات کی ڈیوٹی میں سرد ترین راتوں میں بھی یہ عورتیں اور لڑکیاں آٹھ آٹھ گھنٹے تک بہت بھاری مشینیں چلاتی ہیں۔ مسلسل کھڑی رہتی ہیں۔ صنفِ نازک نہ انہیں سمجھا جاتا ہے اور نہ اس ناتے کوئی رعایت ملتی ہے۔ تقدّس اور احترام نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ عزت آبرو سب کھو دی ہے انہیں کھلونا سمجھا جاتا ہے۔ کوئی محافظ سر پر ہاتھ رکھنے والا خبر گیری کرنے والا، خیال رکھنے والا نہیں، بس دوستیاں، گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز ہوتے ہیں۔ وقتی ساتھی مطلبی دوست ہر دم خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں… نئے نئے ماڈل سامنے آرہے ہوتے ہیں پرانے رد کر دیے جاتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو رشتوں اور محبتوں سے محروم معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔
’’لیکن آپا ان کے ماں باپ بہن بھائی اور گھر تو ہوتے ہوں گے۔‘‘ زرّین نے پلکیں جھپکتے ہوئے کہا جو پورے انہماک سے آپا کی بات سن رہی تھی۔ ارے گڑیا! ’’ابھی تم چھوٹی ہو تمہاری سمجھ میں بات نہیں آرہی آہستہ آہستہ آ جائے گی۔‘‘ آپا کبھی زرّین کو پیار سے گڑیا کہا کرتی تھیں۔
دراصل مغربی معاشرے میں جیسے ہی بچّے بڑے ہوتے ہیں ماں باپ کا گھر چھوڑ دیتے ہیں خود مختار اور اپنا خرچ اٹھانے کے خود ذمّہ دار ہوتے ہیں۔ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی… کسی کی ماں نہیں ہوتی تو کسی کا باپ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ماں باپ دونوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور بچے کسی ادارے میں پلتے ہیں۔ ایسا وہاں اس لیے ہوتا ہے کہ وہاں شادیوں کا رواج کم اور دوستیوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایسا ہی معاشرہ پروان چڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ’’اب تم پوچھو گی کہ شادیوں کا رواج کم کیوں ہو رہا ہے‘‘ آپا نے مسکراتے ہوئے زرّین کی طرف دیکھا۔
ٍٍ’’ہاں آپا بتائیں ناں اس وقت مجھے بہت کچھ سننا ہے۔‘‘ زرّین نے دلار سے آپا سے کہا! تو آپا نے بھی بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ آزادی، خودغرضی لالچ، دنیا پرستی، بے وفائی… لڑکے زیادہ آمدنی اور اچھی رہائش رکھنے والی لڑکی سے شادی کرتے ہیں۔ جب دل چاہتا ہے چھوڑ دیتے ہیں۔ کسی قسم کی ذمّہ داری اٹھانے کے روادار نہیں۔ ذرا سا تنازع ہوا۔ مجھے تمہاری ضرورت نہیں، مجھے بھی تمہاری ضرورت نہیں۔ دونوں الگ الگ راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں دوستیاں ہی ہوتی ہیں۔ نہ شادی نہ بچے نہ کوئی خاندانی نظام۔ بہن بھائیوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اکثر بچّے اکلوتے ہی ہوتے ہیں۔ پھر ظاہر ہے کہ ان سے بننے والے رشتے بھابی، بہنوئی، بھانجے، بھتیجے وغیرہ بھی نہیں ہوتے اور پیچھے سے اگر ماں باپ بھی اکلوتے ہوں تو چچا، تایا، ماموں، پھوپی، خالہ اور کزنز وغیرہ بھی نہیں ہوں گے۔ تو گڑیا اس لیے ان کے رشتہ دار بھی نہیں ہوتے۔ رشتوں اور محبتوں سے محروم وہ تنہا جیتی ہیں۔ ہر قسم کے مسائل اور مصائب خود جھیلتی ہیں۔ اس کے علاوہ خوف و ہراس کا شکار بھی رہتی ہیں۔ تم کو تو کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں ہے لیکن میں نے انگریزی ادب کا کافی مطالعہ کیا ہے۔ کہانیوں کے تراجم بھی پڑھے ہیں ان میں اکثر و بیشتر قتل کی سائنٹیفک وارداتیں نظر آتی ہیں۔ مرد اکثر دولت کے لالچ میں یا گرل فرینڈ کے چکّرمیں بیویوں کو مارنا چاہتے ہیں۔ کبھی گرل فرینڈ قتل ہوجاتی ہے جس کے کئی چاہنے والے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی عورتیں بازی لے جاتی ہیں اور شوہروں کو قتل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ یہ وہاں کے آزاد معاشرے کا عکس ہے جو ان کی کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ یہ آزادی ہی ہے جس نے سب کچھ ختم کردیا ہے۔ خاندان کا ادارہ تباہ ہوگیا ہے۔ تمام رشتوں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اب تم ہی بتائو یہ کیسی آزادی ہے۔ اور ان عورتوں کے حصّے میں کون سے حقوق آئے ہیں۔ ساری زندگی خود کما کر اپنا خرچ اٹھاتی ہیں۔ عمر رسیدہ ہونے تک کمانے پر مجبور ہوتی ہیں بڑھاپے کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ اولڈ ہائوسز ان کا مقدّر ہوتے ہیں۔ اولاد ہوتی ہی نہیں اگر ہوتی بھی ہے تو اپنی ذاتی ذات اور مشاغل میں مگن…
ارے گڑیا! اب تم اپنی اور میری زندگی پر غور کرو۔ نورین آپی اور بھابی کی زندگی کو دیکھو تو زبان اور دل سے خود بخود شکر ادا ہوگا۔ ہمیں کوئی فکر اور پریشانی ہے ہماری معاش کی ذمہ داریاں کون اٹھاتا ہے۔ ہماری فرمائشیں کون پوری کرتا ہے۔ ناز نخرے کون اٹھاتا ہے۔ کتنا آرام اور سکون ہے ہم لوگوں کی زندگی میں… گھروں میں رانیوں کی طرح رہتے ہیں۔ یہ سب ہمارے رب کی مہربانی ہے۔ اس نے ہم عورتوں کو فکرِ معاش سے آزاد رکھا ہے۔ گھروں کی ملکہ کہا ہے۔ رزق کمانے کی ذمہ داری مردوں پر ڈال دی ہے۔ عورت کو معاشی لحاظ سے مستحکم رکھنے کے لیے مہر اور جائیداد میں حصہ رکھا ہے۔ عورت معاشی طور پر کتنی بھی مضبوط ہو معاش کی ذمہ داری مرد کی ہی رہتی ہے۔ یہ سب حقوق اللہ نے مقرر کیے ہیں کسی کا کوئی احسان نہیں۔ ہمارے باپ بھائی شوہر اور بیٹے زندگی کے مختلف ادوار میں ہمارے نگہبان، ہمارے محافظ ہمارے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ہماری جان، مال، عزّت اور بڑھاپا سب محفوظ ہوتا ہے۔ دادی جان کو دیکھو کس طرح سب ان کی خدمت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہم بھی دادی جان کی ایک آواز پر دوڑتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے ماں باپ ہمارے بزرگ ہماری جنّت ہیں۔
اس موقع پر مجھے غالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے پلیز سن لو ناں آپا نے زرین کی ٹھوڑی چھوتے ہوئے کہا… اچھا سنا دیجیے۔

نہ تیر کماں میں ہے، نہ صیّاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے بہت آرام ہے

ہم لوگ خطرات سے محفوظ اور بہت آرام سے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں ہماری محفوظ اور مضبوط پناہ گاہوں سے نکال کر زمانے کی تپتی دھوپ میں کھڑا کردینا چاہتے ہیں اور ہم نادان ان کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔ وہ لوگ اپنی کم علمی، کوتاہ نظری اور عداوت کی وجہ ہمارے گھروں کو قید (قفس) کہتے ہیں تو ہم عورتوں کو گوشے میں قفس کے آرام بہت ہے۔
لیکن آپا… ایک بات اب بھی کھٹک رہی ہے میرے ذہن میں کہ کیا ہم لوگوں کو گھر سے نکلنے کی بالکل اجازت نہیں ہے… ارے نہیں بھئی تم کو لڑکیوں سے بھرے کالج، یونیورسٹیز، گارمنٹ فیکٹری، انڈسٹریل ہومز اور دیہاتوں میں کام کرنے والی عورتیں نظر نہیں آتیں۔ عورتوں کو باہر نکلنے کی، تعلیم حاصل کرنے کی اگر ضرورت ہو تو معاش کے لیے بھی نکلنے کی اجازت ہے۔ بس وہ اسلامی ضابطے کے مطابق ہو۔ خاص طور پر اگر عورت ڈاکٹر، نرس یا ٹیچر ہے تو وہ عورتوں کے فیلڈ میں اپنے فرائض ضرور ادا کرے۔ اس طرح کہ اس کا گھر اور بچّے متاثر نہ ہوں۔
بس یہ ضروری نہیں کہ ہر عورت کو گھسیٹ کر باہر نکالا جائے اس لیے کہ عورت کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے۔ مرد کا دائرہ کار باہر کے معاملات دیکھنا اور روزگار کا انتظام کرنا ہے۔ ہمارے مرد ہمارے آرام و سکون کے لیے محنت مشقّت کرتے ہیں تو ہماری ذمّہ داری بھی بنتی ہے کہ ہم گھروں میں ان کے آرام اور سکون کا خیال رکھیں ان کی پسند کے کھانے بنائیں گھروں کو صاف ستھرا آرام دہ بنا کے رکھیں ان کی ضروریات کا خیال رکھیں تو کیا برا ہے… تو آپا پھر اٹھ کھڑی ہوں… کیوں بھئی کیوں؟ اس لیے کہ ہم اگر کچن میں چل کر ابّو اور بھیّا کے لیے کوئی اچھی سی ڈش بنالیں تو کیا برا ہے… آپا زرّین کی بات پر مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

حصہ