شگفتہ جیلانی
۔’’آیئے… آیئے السلام علیکم‘ کیسی ہیں آپ…؟‘‘ صفیہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور مجھے اندر لے جاتے ہوئے بولی ’’بہن ڈرائنگ روم میں تو میرے بیٹے کے دوست بیٹھے ہیں‘ آپ زارا کے کمرے میں تشریف رکھیں۔‘‘ وہ خود کسی کا فون سننے چلی گئی۔
کمرے میںداخل ہوتے ہی ٹی وی ڈراما کے کسی ہیرو کے بڑے بڑے پوسٹر دیواروں پرجابجا دکھائی دیے اور اس کے ساتھ ہی مختلف ہیروئنوں کے غیر اخلاقی انداز میں مختلف پوز نظر آئے‘ کمرے میں بیٹھے ہوئے کراہت محسوس کر رہی تھی اور کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں زارا کو اس کے بچپن سے جانتی ہوں‘ گھر کے کام کاج میں دلچسپی لینے والی پیاری سی لڑکی اور مہذب والدین کی بیٹی کو آخر یہ کیا ہوا۔
میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ صفیہ کمرے میں داخل ہوئی بولی ’’اچھا ہوا آپ آگئیں میں کافی دنوں سے آپ کو یاد کررہی تھی‘ آج کل میں بہت پریشان ہوں۔‘‘ صفیہ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولی۔
میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں نم ہو رہی ہیں۔ میں نے کہا ’’کیا ہوا؟‘‘ بولی ’’میں اس لیے پریشان ہوں کہ زارا نے اپنے چاچا کے بیٹے کو فون کر کے منع کردیا کہ میں تم سے شادی نہیں کروں گی۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ زارا نادر کی بچپن کی مانگ ہے اور نادر اچھا لڑکا ہے‘ پڑھا لکھا اچھی جاب کرتا ہے۔‘‘
’’مگر کیوں…؟‘‘ میںنے پوچھا۔
’’آہ…‘‘ صفیہ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے بتانا شروع کیا۔ ’’کمرے کی حالت دیکھ کر اندازہ تو کر ہی لیا ہوگا آپ نے رات دن ٹی وی ڈراموں اور موبائل میں مشغول رہتی ہے‘ اور اپنا پہناوا بھی ترک کر دیا ہے‘ پینٹ شرٹ پہنتی ہے باپ سے بدتمیزی کرتی ہے‘ خاندان والے ہم سے ناراض ہیں۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ میں نے پوچھا۔ بولی ’’نادر سے رشتہ ختم کرنے پر۔‘‘ صفیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے جسے وہ کافی دیر سے روکے ہوئے تھی۔
’’نہیں نہیں کچھ نہیں ہوگا… اللہ ہے نا‘ اس سے دعا کرو۔‘‘
صفیہ بولی ’’بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی‘ زارا کی ضد نے پورے گھر کو پریشان کیا ہوا ہی‘ اب وہ اس بات پر مصر ہے کہ نوکری کرے گی۔‘‘
’’اچھا یہ تو واقعی بڑے فکر کی بات ہے‘ مگر ہاں لڑکیاں کسی ایسے ادارے میں کام کریں جہاں خواتین کی ہی اکثریت ہو اور اچھا ماحول ہو۔‘‘
’’مگر میں آپ کو کیا بتائوں مجھے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے یہ زارا ہے نہ کم بخت اس ہیرو کے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے‘ اس کے عشق میں گرفتار ہوئی جا رہی ہے۔‘‘ صفیہ نے ایک بڑے پوسٹر پر انگلی سے اشارہ کیا اور بولی ٹی وی پر کوئی ڈراما آرہا ہے جو اس ہیرو کا پہلا ڈراما ہے‘ اس ڈرامے میں وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا‘ نرمی اور پیار سے بات کرتا‘ سیر و تفریح کرتا‘ باورچی خانے کا کام کرتا‘ شاپنگ کراتا اور ہوٹلوں میں کھانا کھلاتا اور اس کی ہر خواہش کا احترام کرتا دکھایا جارہا ہے۔ زرا اس کے پیچھے پاگل ہو رہی ہے‘ اپنا آئیڈیل بنا لیا ہے۔‘‘
میں نے پہلی دفعہ غور سے دیوار پر لگے پوسٹر کو دکھا‘ واقعی بڑا ہینڈسم خوب صورت جوان تھا۔ میں سوچنے لگی شیطان اپنے کام سے ذرا غافل نہیں ہوا اور انسان غفلت کا شکار ہو رہا ہے جس میں ایک بڑا طبقہ نوجوانوں کا ہے۔ اس بے راہ روی میں اہم کردار ہمارا میڈیا ادا کر رہا ہے جو صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح دکھاتا ہے۔
صفیہ ایک کچی بستی کے پکے مکان میں رہتی ہے اور نیک اور خدا ترس‘ اکثر میرے پاس اس کے فون آتے ہیں‘ میں ہمیشہ اسے اچھی امید دلاتی ہوں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا تم زارا کو پیار سے سمجھائو اس عمر میں سختی سے کچھ فائدہ نہ ہوگا بچپن میں بچے کی تربیت پتھر پر لکھنا ہے اور جوانی میں تربیت پانی پہ لکھنے کے مترادف ہے۔ کافی عرصے بعد صفیہ کا فون آیا کہ زارا نے جاب کر لی ہے اور اپنے اخراجات بڑھا لیے ہیں۔ برانڈڈ چیزوں کی دیوانی ہوگئی ہے‘ ساری کمائی اپنے اوپر خرچ کرتی ہے۔
صفیہ جب بھی مجھے فون کرتی میں بے چین ہو جاتی پتا نہیں کتی زارائیں ہوں گی اور کتنی صفیہ کی طرح مائیں ہوں گی جو اس آندھی کی زد میں ہوں گی۔ عصرِ حاضر کا دجالی فتنہ یہ بے لگام میڈیا ہے ہے جو باطل پہ سچ کی ملمع کاری کرکے اس طرح پیش کرتا ہے کہ دیکھنا والا محسوس کرتا ہے کہ یہی سچ ہے۔ دجالی منصوبوں کو اس کے چیلے (میڈیا) کس طرح پروان چڑھاتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم نشانے پر ہیں ہوش تب آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔
ایک دن صفیہ نے پھر مجھے فون کیا مگر اس بار وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی بولی ’’آج میں بہت خوش ہوں آپ کی دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ ہماری زارا لوٹ آئی…‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ میں نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پوچھا۔
صفیہ نے بتایا زارا سپر مارٹ کے جس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی ہے ایک دن شور ہوا ٹی وی آرٹسٹ آیا ہے‘ مارٹ میں ہلچل مچ گئی۔ اس کا پسندیدہ ہیرو اس کے سامنے تھا۔ وہ دوڑ کر اس کے قریب گئی جو اپنی بیوی کے پرفیوم خریدنے پر برہم ہو رہا تھا کہ ابھی تو تمہارے پاس کتنے پرفیوم رکھے ہوئے ہیں کیا ضرورت اس فضول خرچی کی اور اپنے دونوں پیارے پیارے بیٹوں کو بھی سختی سے ڈانٹ ڈپٹ کرتے سب نے دیکھا‘ وہ اور اس کی بیوی بہت سادہ سی ڈریسنگ کیے ہوئے تھے‘ اس کی بیوی اوپر سے ایک چادر بھی لیے ہوئے تھی انہیں سوچوںکے دوران کسی کی آواز زارا کی سماعت سے ٹکرائی کہ ’’یہ اس کی پہلی بیوی ہے۔‘‘ دوسری نے وضاحت کی ’’نہیں یہ دوسری ہے۔‘‘
مارٹ کا میں موجود افراد اپنے موبائل سے ان کی وڈیو بنا رہے تھے جب کہ لڑکیاں سیلفیاں بنا رہی تھیں۔ زرا کی دوست نے گم صم کھڑی زارا سے جو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بہت دنوں بعد آج سچائی کو بہت قریب سے دیکھ رہی تھی کہا ’’زارا تم اپنے ہیرو کے ساتھ سیلفی نہیں بنائو گی؟‘‘
اس وقت زارا کو اپنی ماں کی وہ بات یاد آرہی تھی جو وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی اور ڈراموں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ پھر اس کے سامنے اپنے بوڑھے باپ کا فکر مند چہرہ نظر آیا‘ اسے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہو رہا تھا‘ اسے اپنے آپ سے شرم آرہی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ طویل اور خوف ناک خواب دیکھ رہی تھی جس کی آج اتنی بھیانک تعبیر اس کے سامنے تھی۔ اس نے اپنے سراپے پرایک نظر ڈالی اسے اپنا لباس قیدی کا لباس محسوس ہوا‘ اس کا دل چاہا کہ وہ یہ لباس نوچ ڈالے‘ اسے اپنا میک اَپ زدہ چہرہ کسی چڑیل کی مانند لگ رہا تھا‘ اسے لگا جیسے وہ ہوش میں آرہی ہو اور اس کے دل کی گیلری سے تمام تصاویر ایک ایک کرکے مٹ رہی ہوں اور ایک تصویر جو دل کے آئینہ میں کہیں دھندلا گئی تھی‘ اب واضح ہو کر ابھر رہی تھی جو اس کے منگیتر کی تھی… ہاں نادر کی تصویر… اب وہ محسوس کرہی تھی جیسے اس کی بینائی واپس آگئی۔‘‘