نیلم حمید
یوں تو ہر قوم ا ور تہذیب میں عورت کا ذکر ملتا ہے لیکن اسلام نے عورت کے تقدس اور احترام کو تمدن کی علامت قرار دیا ہے۔ اسلام وہ نظامِ حیات ہے جس میں عورت کووہ مقام حاصل ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں۔ اسلام سے قبل یعنی زمانۂ جاہلیت میں عورت کو کوئی حق حاصل نہیںتھا اور وہ ظلم و جبر سہنے پر مجبور تھی اس کے ساتھ ہر قسم کا ظلم روا تھا۔ دین اسلام نے عورت کو ایک مقام عطا کرتے اس کے حقوق کا تعین کیا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔‘‘ (سورۃ نساء‘ پارہ 4) زمانہ قدیم سے عورت زبوں حالی کا شکار رہی ہے‘ اپنا حق مانگنا تو دور اپنے اوپر ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی اسے اجازت نہ تھی‘ اگر یورپ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہاں کے معاشرے میں عورت کو کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہ تھا۔ الغرض پوری دنیا اور اس میں بسنے والے تمام اقوام نے عورت کے ساتھ یہ برتائو کیا ہوا تھا کہ جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اسلام کی آمد سے پہلے عرب میں صنف نازک کی حالت بہتر نہیںتھی‘ لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس وحشیانہ رسم کو سختی سے ختم کردیا۔ معاشرے میں عزت و احترام کا کوئی تصور نہ تھا اور آج بھی بیداری کی تمام تحریکوں کے باوجود عورت زیر عتاب چلی آئی ہے اور ان کے حالات تبدیل نہیں ہو سکے جو لوگ عورت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں‘ ان کی اکثریت اسلام کے عورت کو عطا کردہ حقوق سے لا علم یا پھر اسلام کے خلاف اس کے ڈس انفارمیشن سے متاثر ہے جو جان بوجھ کر پھیلائی جارہی ہے۔
اسلام چودہ سو سال قبل تمام حقوق عورتوں کو عطا کر چکا ہے‘ اسلام نے پستیوں میں گری اور کچلی ہوئی عورت کو اٹھا کر عملاً ایک مقام پر فائز کیا ہے۔ اسلام جب طلوع ہوا تو اس کی سورج کی کرنیں دوسرے شعبوں کی طرح اور اس کے ساتھ عورتوں کے لیے بھی سماجی اور اقتصادی مساوات کے حقوق کی روشنی سے نمودار ہوئیں۔ اہل اسلام نے اس پر عمل کرکے عورتوں کو نہ صرف عزت و احترام دیا بلکہ اس کی عفت و عظمت کے محافظ بنے‘ عورت کی زندگی کے ارتقاء میں ہر لمحہ مرد کی معاون و مددگار ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ عورت کو اپنے معاملات میں پورا اختیار حاصل ہے اور عورتوں کو وہ حقوق عطا کیے جس کا تصور بھی دوسری اقوام میں نہیں ملتا۔ معاشی طور پر اسلام نے عورت کو بہت مستحکم بنایا ہے‘ اسے وہ مقام و مرتبہ کیا ہے جو کسی مذہب میں نہیں ملا ہے‘ اسلام عورت کو ایک صالح سوسائٹی کا سنگ بنیاد قرر دیتا ہے۔ اس کو معاشرتی‘ تمدنی‘ تعلیمی اور معاشی حقوق حاصل ہیں اور ان سے متعلق عمل بھی عورت کومیسر ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا عمل شریعت کے حدود کے اندر ہوں باہر نہیں۔
اسلام ایک عورت کو کسی سماجی خدمت سے نہیں روکتا نہ کسی صلاحیت کے استعمال پر قدغن لگاتا ہے مگر اس عورت کو آئیڈیل قرار دیتا ہے جو خانگی امور کی احسن طریق ادائیگی کو ترجیح اوّل قرار دیتی ہے۔ آج جو خواتین دائرۂ اسلام میں داخل ہو رہی ہیں اس کی وجہ معاشرتی احساس زندگی کے وہ جذبات ہیں۔
اسلام کے نزدیک ’’عورت ایک شمع ہے‘‘ جو بدتہذیبی کے اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کرسکتی ہے‘ کامیاب شخصیت کی تعمیر میں عورت کا مقام اور کام مسلمہ ہے‘ علامہ اقبال نے عورت کو مقام و مرتبے کے لحاظ سے تمدن کے ارتقا کے لحاظ سے انسانی کردار کی تعمیر کے لیے نعمت قرار دیا ہے اور عورت کے فرائض منصبی اور ذمہ داریوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور زندگی کی تمام خوشیوں کو عورت کی مرہون منت قرار دیا ہے۔ اسلام کی ان نعمتوں کا جو خالصتاً عورت کے لیے مخصوص ہے‘ عورت کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تمام قومی و ملّی مشاغل کے میدانوں میں خواتین کو آگے آنا چاہیے جن میں ان کی خدمت قوم و ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے سود مند ہو سکتی ہے۔ اصل مقصد اور مطمع نظر یہ ہونا چاہیے کہ تعمیر ملت کے وسیع تر مفاد کے لیے خود سازگار بنائیں اور اپنی خودی اور خودداری کو دبانے کے بجائے اسے جلا بخشیں۔
عورت قوم کی سیرت کی تعمیر اور تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قوم و ملت کے افراد تربیت پا کر اعلیٰ منازل طے کرتے ہیں اور قوم اس پر فخر کرتی ہے۔ عورت کے کردار و اخلاق کی تعمیر کے لیے عملی نمونہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ بہترین اسوہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں‘ کامل عورت بننا ہو تو آپ کو فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نقش قدم پر چلنے کی سعی کرنی چاہیے۔
قوم کی زندگی میں عورت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عورت نظامِ عالم کی خوشبو اور قلب کا سکون ہے۔‘‘