جویریہ اعظم
کہتے ہیں ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے‘ لیکن اللہ کیوں نہیں ملتا… کیوں قربت محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ ابھی تک تو اللہ کے ساتھ مالک اور بندے کا تعلق بھی قائم نہیں ہوا‘ ابھی تو عشق الٰہی کی ابتداء بھی نہیں۔ ایک مزور غلام جس کا اپنا کچھ بھی نہیں‘ سب کچھ مالک کا عطا کردہ ہے‘ مال کی اک آواز پر دوڑا چلا آتا ہے اور میرا کیسا رویہ ہے۔ ایک وہ غلام جو مالک کی مرضی کے خلاف کام کر دے تو پھر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مالک کی نظروں میں نہ آئے‘ ایسا رویہ ہے میرا… میں فخریہ کہہ سکتی ہوں کہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عشق میں شدت اور ملاقات میں تڑپ نہیں‘ رب بلاتا ہے آئو میری طرف آئو‘ مجھ سے مانگو… ملاقات کا بہترین موقع دیتا ہے بے شک میں لبیک میں کہتے ہوئے نماز کے لیے کھڑی ہوتی ہوں لیکن نمازیں بے روح ہو چکی ہیں کیوں کہ اس نماز میں حب الٰہی نہیں‘ رب کی قربت کو محسوس کرنے کی جستجو نہیں بلکہ نماز ادا کرنا عادت بن گئی ہے‘ رب کو پانے کے لیے تو پہلے یہ جائزہ لیناضروری ہے کہ رب سے تعلق کیسا ہے… اور میں حب الٰہی کی لذت سے کیوں محروم کہ میں تو دنیا کی لذتوں میں حد درجہ مگن بے شک مجھے میسر ہر نعمت میرے رب کا فضل ہے‘ کرم ہے لیکن مجھے اس پر شکر کی توفیق نہیں‘ میں خوب صورت مقام کی تصویر دیکھوں تو سوچتی ہوں کتنی پیاری جگہ ہے مجھے یہاں جانا ہے جو کبھی مجھے میسر ہے اس پر شکر کرنے کے بجائے مزید حاصل کرنے کی خواہش… اور اس طرح کیا ہوتا انسان بہت مصروف ہو جاتا ہے‘ اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ سوچے کہ اس کا رب کون ہے‘ زندگی اتنی مصروف ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا وقت ہی نہیں‘ دنیا میں موجود ہر شے اللہ کی حکمت بیان کرتی ہے لیکن میں غور نہیں کرتی۔ ان سب نعمتوں کے ذریعے شکر ادا کرکے مجھے اللہ سے قریب ہونا تھا اور میں ان میں ہی گم ہوگئی۔ یہ بھی کم نظری ہے۔ نگاہیں تخلیق ہی میں گم ہوجاتی ہیں خالق تک بڑھتی ہی نہیں کہ حب الٰہی کا جذبہ بیدار ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کو پایا‘ اپنے رب کی قربت کو محسوس کیا‘ کیوں؟ کیوں کہ ان کو اپنے مالک کی تلاش تھی۔ آج میں چاند کو دیکھوں‘ آج میں اور آپ بدلتے موسم‘ حسین مناظر کو دیکھیں میں سوچتی ہوں کہ میرا بس چلتا تو گرمی آتی ہی نہیں‘ لاشعور طور پر ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں۔ سپر پاور بننا چاہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایس انہیں سوچا انہوں نے کائنات کے نظام سورج‘ چاند کو دیکھ کر یہ نہیں چاہا کہ میں ان کو کنٹرول کروں‘ انہوں نے اپنے رب‘ ہر شے کے خالق کو تلاش کیا‘ انہوں نے اپنے رب کی موجودگی کو محسوس کیا خود کو پہچانا کہ انسان ایک کمزور اور فانی مخلوق ہے‘ اس کی کوئی طاقت نہیں‘ سپر پاور انسان نہیں ہو سکتا‘ میں بھی ایک انسان ہوں‘ مجھے مالک کی سپر پاور کی ضرورت ہے اس کے لیے یہ عملی طور پر بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ساری طاقتیں‘ اختیارات صرف رب تعالیٰ ہی کے پاس ہیں‘ وہی مالک ہے‘ وہی میرا رب ہے۔
رب کو پانے‘ جنت کے حضول کے لیے مجھے رب کی طرف بڑھنا ہوگا اس کا وعدہ ہے میں ایک قدم جائوں گی وہ دس قدم میری طرف آئے گا‘ میں چل کر جائوں گی‘ وہ دوڑ کر آئے گا اور اس کے وعدے تو صدا سچے ہیں۔ پس مجھے اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے‘ مجھے اس کا بندہ‘ اس کا غلام بننا ہے‘ وہ غلام جو غلطی ہونے پر چھپ نہیں جاتا‘ مالک سے دور نہیں ہو جاتا‘ میرا رب تو ہر چیز سے واقف ہے‘ میں کس طرح اس سے چھپ سکتی ہوں۔ خطا کروں گی تو میں تڑپ کے اس کے پاس جائوں گی‘ رب کو بندوں کا پلٹنا بہت محبوب ہے‘ مجھے رب سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے‘ اپنے دل میں اس کو ہی بسانا ہی‘ اللہ واحد لاشریک ہے‘ دل کو نفس کی غلامی سے آزاد کریں اور مکمل طور پر خود کو رب کے حوالے کر دیں اور اللہ کے حکم کے تابع بن جائیں کہ آپ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اس سے ہی محبت کرتے ہیں‘ وہی میرا مالک ہے‘ سارے اختیارات و طاقت اس کی ہیں۔ یہ یقین‘ یہ ایمان جتنا مضبوط ہوگا رب سے اتنی ہی محبت ہوگی۔ اللہ ہمارے دلوں کو حب الٰہی کی شمع سے منور کرے‘ آمین۔