زین صدیقی
وہ بزرگ سماجی رہنما تھے، انہوں نے پوری زندگی لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کررکھی تھی۔ انڈیاکے شہر دہلی میں آنکھ کھولی، جب پاکستان آئے تو 3سال کے تھے۔ یہاں آپ نے آزاد رہنما اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ نئی کراچی کے سیکٹرالیون ڈی میں آباد ہوئے۔ آپ کو سینئرصحافی مرحوم شبیر نظامی میڈیا کی دنیا میں لائے۔ آپ نے روزنامہ جسارت کے مارکیٹنگ کے شعبے سے کام کا آغاز کیا اور طویل عرصے تک وابستہ رہے، اس کے ساتھ دیگر رسائل وجرائد کے شعبہ مارکیٹنگ سے منسلک رہے۔ آپ سینئر صحافی اور مدیر اعلیٰ ہفت روزہ تکبیر شہید صلاح الدین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔
رحمت بھائی میں خدمت کا جذبہ شروع ہی سے تھا، اس لیے انہوں نے اپنے پیشے کو نیکی کے کاموں کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور1997ء میں رحمت ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے فلاحی ادارہ قائم کیا۔ انہوں نے 120گز کے مکان میں مفت اسکول کی بنیاد ڈالی جو دو شفٹوں صبح اور شام میں ہوتا تھا۔ چونکہ رحمت بھائی کو بخوبی ادراک تھا کہ نئی کراچی سیکٹر الیون ڈی پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں کے لوگوں کی بھرپور مدد ہونی چاہیے، اس علاقے کے لوگوں کو باشعور بننا چاہیے، اس لیے انہوں نے تعلیم کا بیڑا اٹھایا اور بچوں اور نوجوانوں کو اس جانب راغب کیا۔ ابتدا میں انہوں نے مڈل، میٹرک اور انٹر پاس نوجوانوں کو دعوت دی کہ وہ یہاں چھوٹی کلاسوںکو پڑھائیں۔ جو بچے یہاں پڑھتے تھے وہ اپنے سے چھوٹی کلاس کو تعلیم بھی دیتے تھے، یوں یہ سلسلہ چل نکلا۔ یہ ایک خوبصورت سسٹم تھا۔ پڑھا نے والوں کی اپنی تعلیم سے بھی دلچسپی بڑھ گئی۔
اس وقت اِس سینٹر میں صبح اور شام کی شفٹ میں تقریباً تین سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ادارے کا نام ’’رحمت الاقرا ایجوکیشنل ہائی اسکول‘‘ رکھا گیا۔ اس ادارے میں جہاں بچوں کی کتب،کاپیوں کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں وہیں مالی طور پر کمزور بچوں کے اہلِ خانہ کو راشن بھی فراہم کیا جاتا ہے، جبکہ بچوں میں عید کے موقع پرعیدی اور ملبوسات بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔
رحمت بھائی سے میرا تعلق 2000ء سے تھا۔ جب میں نے نئی کراچی میں فور کے چورنگی کے پاس فلیٹ میں رہائش اختیار کی تو رحمت بھائی سے تعلق مزید مضبوط ہوگیا، پھر فیملی کے ساتھ رحمت بھائی کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔
رحمت بھائی انتہائی مشفق انسان تھے۔ سادہ، بااخلاق اور ایماندار… ان کی ذات میں تصنع نہیں تھا۔ جیسے نظرآتے تھے اندر سے بھی ویسے ہی تھے۔ ہم نے انہیں نماز کی فکر کرتے دیکھا۔ وہ 78برس کی عمر میں بھی چاق چوبند تھے۔
رحمت بھائی کو کبھی غمزدہ دیکھا نہ پریشان۔ سابق ٹاؤن ناظم اور ٹرسٹ کے ٹرسٹی شفیق الرحمن عثمانی، چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت اطہر ہاشمی، خالد صدیقی، منظرعالم، عدیل اظہر، سہیل احمد، سینئر صحافی خالد محمود جیسے لوگ ان کے ساتھ موجود تھے، اس لیے ان کے حوصلے بلند تھے۔ وہ ان تمام افراد سے بے انتہا محبت کرتے اور ان سے مستقل رابطے میں رہتے تھے۔
رحمت بھائی ہرسال باقاعدگی سے عیدِ قرباں پر درجنوں جانوروں کی قربانی کرتے اور تینوں دن گوشت مستحقین تک پہنچاتے۔ ان کے رضاکار اس کام کے لیے تیار رہتے تھے، جبکہ کھالیں الخدمت کو دیتے تھے۔ ہرسال رمضان میں 500 بیواؤں، محتاجوں اور کمزوروں کو وہ راشن تقسیم کرتے، جبکہ درجنوں خاندانوں کو ماہانہ بنیاد پر راشن فراہم کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سحر اور افطار کا سامان خود تیار کرواکر 100 خاندانوں تک پہنچاتے۔ ٹرسٹ کے دروازے پر کوئی بھی سوالی آتا تو وہ اسے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔
میں نے انہیں بحیثیت سماجی رہنما ایک عظیم انسان پایا۔ 20 سالہ تعلق میں کوئی دن ایسا نہیں جو اُن سے رابطے کے بغیر گزرا ہو۔ اگر بیمار ہوتے تو سب سے پہلے مجھے فون کرتے تھے۔ اکتوبر 2019ء میں سانس کی تکلیف ہوئی تو لیاقت نیشنل اسپتال گئے، جنوری میں وہ دل کے مرض میں مبتلا ہوئے اور این آئی سی وی ڈی پہنچے تو سب سے پہلے مجھے اطلاع کی۔
7 سال قبل انہوں نے مجھے رحمت ویلفیئر ٹرسٹ کا میڈیا کو آرڈی نیٹر مقرر کیا، اور یوں رحمت بھائی سے تعلق مزید مضبوط ہوگیا۔ رحمت بھائی جہاں سماجی کام بڑی خوبصورتی سے کررہے تھے وہیں وہ علاقے کے مسائل پر بھی دل گرفتہ رہتے تھے۔ علاقے میں کچرا پڑا ہو، یا نالوں کی صفائی کا معاملہ ہو، پانی کی بندش ہو یا گیس کا بحران، اسکولوں کے نظام کا مسئلہ ہو یا سیوریج کا تباہ حال سسٹم، بجلی کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ ہو یا کوئی اور پریشانی… رحمت بھائی علاقے کے لوگوں کی آواز بن جاتے تھے، وہ ان مسائل کو اجاگر کرتے اور اربابِ اختیار کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ جب بھی ان کے ہاں کوئی مہمان آتا تو وہ اس کا پُرتپاک استقبال کرتے۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ دیکھی۔ کوئی فرد آتا تو ٹرسٹ کے دفتر میں درجنوں بچوں اور بڑوں کی موجودگی کے باوجود وہ کھانے پینے کی اشیا خود خرید کر لاتے۔ بزرگی کے باوجود وہ کئی بار راشن لے کر خود مستحق تک پہنچ جاتے تھے۔
رحمت بھائی اصولوں کے پابند تھے، وہ عطیات کو اللہ کی امانت سمجھتے تھے۔ بیواؤں اور مالی طور پرکمزوروں کی بچیوں کے لیے جہیز اور کھانے کا انتظام، اور تجہیز وتکفین میں معاونت بھی ان کے کاموں کا حصہ تھا۔ ان کے کئی دوست ان کے علاج اور کھانے پینے کے لیے ہرماہ باقاعدگی سے ان کے اکاؤنٹ میں پیسہ بھیجتے تھے جسے وہ فلاحی کاموں پر خرچ کردیتے۔
رحمت بھائی کی سادگی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ ٹرسٹ کے ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ اپنے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے بجائے وہ غریبوں اور محتاجوں کی فکر میں لگے رہتے تھے۔ انتقال سے تین روز قبل 5 فروری کو انہوں نے کشمیر ڈے کے حوالے سے بچوں کے لیے پروگرام کیا اور مجھے بھی خطاب کے لیے کہا۔
رحمت بھائی کی بڑی خواہش تھی کہ رحمت الاقرا میں بچوں کو دینی تعلیم دی جائے، لہٰذا وہ اکثر دینی پروگرامات کرواتے رہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ بچے علم دین سیکھیں۔ وہ علاقے کے لوگوں سے بھی کہتے تھے کہ بچوں کو پڑھائیں۔ رحمت الاقرا میں پڑھنے والے درجنوں بچے انجینئر، ڈاکٹر بن چکے اور زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ رحمت بھائی خدمتِ خلق کے کاموں میں اتنے مصروف رہے کہ انہوں نے شادی بھی نہیں کی۔
رحمت بھائی سانس، دل اور بلڈ پریشر کی تکلیف میں مبتلا تھے، 8 فروری کو دل کی تکلیف ہوئی، اپنے پیروں پر چل کر این آئی سی وی ڈی پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے انہیں آئی سی یو میں رکھا۔ رات 9بجے ان کے بھتیجے احسن کو رحمت بھائی کے لیے دعا کے لیے کہا اور ساڑھے 9 بجے اُن کے انتقال کی اطلاع دی۔ رحمت بھائی کے انتقال کی خبر ان کے چاہنے والوں پر بجلی بن کر گری۔ یوں ان سے دو دہائیوں پر محیط رفاقت ٹوٹ گئی۔
9 فروری کو بعد نماز ظہر رحمت بھائی کو نئی کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان اسد اللہ بھٹو نے نمازِ جنازہ کی امامت کی۔
دل رحمت بھائی کی جدائی کے باعث غم میں ڈوبے ہوئے ہیں، رحمت ٹرسٹ کے تمام عہدے داران و ٹرسٹیز نے ان کے مشن کو جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ ان کے کام اِن شاء اللہ انہیں جنت میں لے جانے کا وسیلہ بنیں گے۔