نثار احمد نثار
یوم کشمیر کے موقع پر معروف ادبی تنظیم بزم نگار ادب پاکستان نے اردو ڈکشنری بورڈ کراچی میں پروفیسر سحر انصاری اور پروفیسر منظر ایوبی کی صدارت میں ایک عظیم الشان کُل پاکستان کشمیر یکجہتی مشاعرہ کا انعقاد کیا جس میں ڈاکٹر جاوید منظر‘ رونق حیات‘ ظفر محمد خان ظفر اور عرفان خانی مہمانان خصوصی تھے جب کہ طارق جمیل‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ‘ پروفیسر رعنا ناہید رعنا‘ عنایت اللہ عامر اور شاہد ضمیر مہمانان خصوصی تھے۔ اسلام آباد سے سینئر شاعر نسیم سحر اور ڈاکٹر فرحت عباس نے خصوصی شرکت کی۔ نظامت کے فرائض آئرن فرحت اور واحد رازی نے انجام دیے۔ کشمیر یکجہتی مشاعرہ بزم نگار ادب پاکستان کے بڑے پروگراموں میں سے تھا جس میں دنیائے ادب کی قد آور شخصیات نے شرکت کی۔ مشاعرہ کی خاص بات شعرا کے ساتھ ساتھ سامعین کی بڑی تعداد تھی۔ کُل پاکستان مشاعرہ میں کراچی کے 40 شعرا کے علاوہ اندرون ملک سے 10 شعرا شریک ہوئے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ہمارے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اہل قلم کو چاہیے کہ وہ اپنے قلم سے کشمیریوں کی آواز بلند کریں۔ بھارتی سرکار نہتے کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم روا رکھے ہوئے ہے۔ منظر ایوبی نے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ کشمیر کی آزادی کا فیصلہ تو اسی وقت ہو گیا تھا جب اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق میں قرارداد منظور کی تھی لیکن یہ بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ اس کے باوجود کشمیریوںکا استحصال جاری ہے۔ اس موقع پر پروفیسر سحر انصاری نے دبستان کراچی میں ادبی تنظیموں کے حوالے سے بزم نگار ادب پاکستان کی ادبی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اخبارات و سوشل میڈیا پر بزم نگار ادب کی تقریبات اور ادبی محافل و مشاعروں کو دیکھتا رہتا تھا۔ سخاوت علی نادر اور ان کے رفقا ادب کے فروغ میں بہت فعال ہیں اور اس یہ لوگ بڑا کام کر رہے ہیں۔ اس تنظیم نے مجھے اپنے پروگرام میں پہلی مرتبہ مدعو کیا ہے اور مجھے آج ان کے درمیان رہ کر بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ اس موقع پر بزم نگار ادب پاکستان کے چیئرمین سخاوت علی نادر نے اسلام آباد‘ حیدرآباد‘ راولپنڈی‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کلہرکہار اور ایبٹ آباد سے خصوصی طور پر مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعرا کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کراچی کے شعرا اور سامعین کا بھی شکریہ ادا کیا کہ جن کی شرکت سے وہ اس قدر شاندار مشاعرہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سخاوت علی نادر نے اردو ڈکشنری بورڈ کے مدیر شاہد ضمیر کا بھی شکریہ ادا کیا۔ سخاوت علی نادر نے مزید کہا کہ بزم کی اصل طاقت اس کے مخلص اور بے لوث کارکن ہیں جو بڑی جانفشانی اور لگن سے ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ بزم نگار ادب پاکستان نے اس موقع پر معروف سینئر شاعر نسیم سحر‘ ڈاکٹر فرحت عباس‘عرفان خانی‘ پروفیسر رعنا ناہید رعنا اور ہدایت اللہ عامر کو نگار ادبی ایوارڈ عطا کیا جب کہ طارق جمیل‘ ظفر محمد خان ظفر‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر شاہد ضمیر کو اجرک پہنائی گئی۔ اردو ڈکشنری بور ڈ کے مدیر ڈاکٹر شاہد ضمیر نے کہا کہ بورڈ کے دروازے تمام ادبی اداروں کے لیے کھلے ہیں‘ وہ جب چاہیں یہاں پروگرام کر سکتے ہیں‘ ہم ادب کی خدمت کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ اردو سے جڑے اداروں کو ایک دوسرے میں ضم کیا جارہا ہے‘ ادارے ختم کیے جارہے ہیں‘ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے جو تمام دنیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کے باوجود اردو کی خدمت کے یہ ادارے ختم کیے جارہے ہیں۔
سلمان صدیقی کی کتاب ’’شہرِ ادب کے معمار‘‘ شائع ہوگئی
سلمان صدیقی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ افسانہ نگار‘ شاعر‘ ادیب‘ تنقید نگار‘ ٹی وی اینکر کے علاوہ بہترین نظامت کار بھی ہیں۔ وہ ادبی تنظیم دراک اور بزم یارانِ سخن کراچی کے صدر بھی ہیں‘ ان حوالوں سے بھی ان کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے ’’سرِدست‘‘ اور ’’بازگشت‘‘ شائع ہوچکے ہیں اب جنوری 2020ء میں ان کی نثری کتاب ’’شہر ادب کے معمار‘‘ شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب مشاہیر ادب کی شخصیت‘ شعری اور نثری تخلیقات کے بارے میں ہے۔ راقم الحروف نے جب سلمان صدیقی سے اس کتاب کی غرض و غایت پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ کم از کم 150 اکابرین اردو ادب پر تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں اس کتاب کو ہم شہر ادب کے معمار جلد اوّل کہہ سکتے ہیں جس میں مرزا غالب‘ میر تقی میر‘ الطاف حسین حالی‘ بہزاد لکھنوی‘ احمدندیم قاسمی‘ ناصرکاظمی‘ ابن انشا‘ حسن حمیدی‘ خالد علیگ‘ جاذب قریشی‘ احمد صغیر صدیقی‘ شمشاد احمد‘ منظر ایوبی‘ محمود واجد‘ رئوف نیازی‘ قاسم یعقوب‘ اشفاق احمد‘ سہیل غازی پوری‘ سعیدالظفر صدیقی‘ اطہر اسحاق صدیقی اور شاعر صدیقی کے فن و شخصیت پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر رخسانہ ضیا اس کتاب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ 23 مضامین پر مشتمل اس کتاب میں خالص افسانہ نگاری کے باب میں صرف شمشاد احمد پر مضمون ہے جب کہ احمد ندیم قاسمی کی شاعری اور افسانہ نگاری اور دانش ورانہ طرزِ فکر پر بات کی گئی۔ مولانا الطاف حسین حالی‘ رئوف نیازی اور قاسم یعقوب پر لکھے گئے مضامین سوانح نگاری اور ادبی تھیوری کے حوالے سے ہیں۔ وزیر آغا‘ جاذب قریشی‘ حسن حمیدی‘ احمد صغیر صدیقی‘ سہیل غازی پوری‘ شمشاد احمد‘ اسحاق اطہر صدیقی اور اشفاق حسین پر تحریر کردہ مضامین میں ان کے مختلف تخلیقی اظہار پر بات کرکے ان کی تخلیقی شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سلمان صدیقی کے مضامین میں دل پزیر حقیقت پسندانہ اور متوازن اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے گہرے تنقیدی شعور سے شہر ادب کے معماروں کی تخلیقی شخصیت کے طلسم کی چند گرہیں کھولنی کی کوشش کی ہے ان مضامین کی ایک بڑی خوبی جامعیت اور اختصار کے ساتھ ایک تاثر قائم کرنے کی کوشش ہے جس میں سلمان صدیقی بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ یہ کتاب نئے قلم کاروں کے لیے مشعل راہ ہے اور ادبی شعور کے لیے روشنی کے اشارے ثابت ہوگی۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن کہتی ہیں کہ سلمان صدیقی ایک اچھے شاعر ہیں‘ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور اظہار و بیان کی خوبیوں کی وجہ سے اہلِ ادہ میں سنجیدہ شناخت رکھتے ہیں۔ یہ شناخت اسی وقت ممکن ہے جب لکھنے والا صاحبِ مطالعہ ہو۔ ماضی سے حال تک ادبی تحریروں اور تحریکوں پر اس کے نظر ہو‘ ادب کی تفہیم جس بصیرت کی متقاضی ہے وہ دیگر روشن فکر تخلیق کاروں سے حاصل کردہ فکری و فنی رہنمائی سے ہی ممکن ہے سلمان صدیقی کے مضامین اسی بصیرت کا اظہار ہیں اور اس تفہیم ادب کے شعور کا ثبوت ہیں جو انہوں نے مطالعے اور مکالمے سے حاصل کی اہے۔ میر تقی میر‘ غالب اور حالی جیسے اساتذہ‘ جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے‘ قلم اٹھانا جرأت کاکام ہے اسی طرح ہم عصروں پر لکھنے کے لیے بھی جو خود اعتمادی چاہیے وہ اسی وقت ممکن ہے جب لکھنے والے کی اپنی تخلیقی حیثیت مستحکم ہو اور لکھنے والا بھی نثر و نظم دونوں میں اپنی شناخت رکھتا ہو‘ یہ خوش آئند بات ہے کہ سلمان صدیقی نے صرف شاعری اور مشاعروں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسے مضامین بھی لکھے ہیں جن میں ان کا مشاہدہ اور مطالعہ موجود ہے انہوں نے سادہ بیانی اختیار کی اور جدید عہد کو روایت سے مربوط رکھنے کی کوشش میں کامیاب ہوئے۔ عباس رضوی نے سلمان صدیقی کے لیے لکھا ہے کہ ان کی تازہ ترین نثری کتاب ان کی علم دوستی اور احباب نوازی کا ایک روشن پہلو ہے اس کتاب میںجہاں ان کے کئی دوستوں اور ہم عصروں کا تذکرہ ہے وہیں اردو شاعری کی ان کوہ پیکر شخصیات کا ذکر بھی ہے۔ مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ اس کتاب کا سب سے دقیع مضمون وہ ہے جوکہ انہوں نے اردو غزل کے بادشاہ میر تقی میر پر لکھا ہے‘ یہ ان کی کتاب کا پہلا مضمون ہے ۔ اس مضمون میں انہوں نے میر کی زندگی اور ان کی غزل پر بھرپور نظر ڈالی ہے اس طرح یہ ایک ایسے شاعر کا احوال بن گیا ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ غالب پر سلمان صدیقی کا مضمون اس بات کا اطلاع نامہ ہے کہ وہ غالب کی شاعرانہ جہات کو عصر حاضر کے حوالے سے اور جدید حسیات کے حوالے سے دیکھتے ہیں اس کتاب میں ایک اہم مضمون اردو کا پہلا سوانح نگار الطاف حسین حالی ہے‘ اس کے علاوہ اس کتاب میں ہمارے عہد کے بہت سے اہم شاعروں‘ نقادوں اور ایک فراموش کردہ گیت نگار کا تذکرہ بھی شامل ہے اہم بات یہ ہے کہ ان مضامین میں جہاں سلمان صدیقی کا تنقیدی شعور لشکارے مارتا نظر آتا ہیں وہیں سوانحی اشارے بھی ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ کہتے ہیں کہ ہر نقاد شاعر نہیں ہوتا لیکن ہر شاعر نقاد بھی ہوتا ہے کیوں کہ اپنی شاعری پر سب سے پہلے وہ خود تنقید کرتا ہے‘ اپنے مصرعوں میں ردوبدل کرتا ہے لیکن اگر شاعر نقادبھی ہو تو وہ قاری پر تخلقیات کے نئے نئے در کھول دیتا ہے۔ فکر و آگہی کے باب ہماری رہنمائی کے لیے میسر ہوتے ہیں۔ سلمان صدیقی شاعر بھی ہیںاور نقاد بھی ان کے تنقیدی مضامین میں بھی وہ تازہ ہے جو سکہ بند نقادوں کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ان کی یہ کتاب قابلِ دید بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔
اقبال حیدر کے اعزاز میں نگارشاتِ پاکستان کی تقریب
اقبال حیدر محبتوں کے سفیر ہیں‘ انہوں نے زندگی بھر زبان و ادب کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے نام کمایا اور پاکستان ہائیکو سوسائٹی کا قیام بھی آپ کا اہم کارنامہ ہے کہ جس کے باعث جاپان کی ایک صنفِ سخن ’’ہائیکو‘‘ نے پاکستانی ادب میں جگہ بنائی۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاذب قریشی نے اقبال حیدر کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقبال حیدر کی حمدیہ‘ نعتیہ اور بہاریہ شاعری میں رنگِ تصوف کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام مناظر نظر آتے ہیں‘ ان دنوں ان کے اعزاز میں فاران کلب کراچی اور آرٹس کونسل کراچی میں پروگرام ہو چکے ہیں‘ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہمارا فرض ہے کیوں کہ زندہ قوموں کی یہ روایت ہے کہ وہ ہر اچھے انسان کی قدر کرتی ہیں۔ آج کی محفل میں اس شہر کے اہم لکھاری موجود ہیں اور سامعین بھی کافی تعداد میں آئے ہیں۔ نگارشات پاکستان چاہتی ہے کہ نوجوان نسل پر شعر و سخن کا ابلاغ ہو تاکہ یہ نسل بھی سچائیوں سے واقف ہو اس تناظر میں ہماری ادبی تنظیم نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ راشد نور نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی سینئر شاعر ہیں ان کی ادبی تنظیم نگارشاتِ پاکستان اب ازسرنو میدان عمل میں آئی ہے اس کے کریڈٹ پر بے شمار کامیاب پروگرام ہیں‘ آج ہم اقبال حیدر کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں جن کی ادبی و علمی خدمات روزِ روشن کی طرح ہم پر عیاں ہیں۔ آپ امریکا میں مقیم ہیں جب بھی پاکستان آتے ہیں ان کے اعزاز میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں ہم بھی آج انہیں خراج تحسین پیش کریں گے۔ صاحب اعزاز اقبال حیدر نے کہا کہ شاعری ودیعتِ خداوندی ہے شاعروں کو اس بات پر فخر کرنا چاہیے لیکن اپنی صلاحیتوں کو مثبت روّیوں کے لیے استعمال کریں‘ حمد و نعت کہتے وقت بہت محتاط رہیں کسی بھی غلط بیانی کے سبب آپ سے باز پرس ہوگی انہوں نے مزید کہا کہ وہ نگارشات پاکستان کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے لیے یہ محفل سجائی۔ جاذب قریشی میرے ہم جماعت ہیں اور ہم تقریباً 55 برس سے اردو زبان و ادب سے جڑے ہوئے ہیں امید ہے کہ یہ سلسلہ قائم و دائم رہے گا۔ ڈاکٹر شاہد ضمیر نے کہا کہ اردو لغت بورڈ نے اردو کی بہت خدمت کی ہے لیکن اب اس ادارے کا تشخص ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے ادارے میں ادبی پروگرام شروع کیے ہیں ہمارے دروازے تمام ادب دوست انجمنوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اقبال حیدر کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ پرگرام کی نظامت بالترتیب راشد نور اور یاسر سعید صدیقی نے کی۔ سرور جاوید اور جاوید صبا مہمانان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر شاہد ضمیر اور عباس شہیر مہمانان توقیری تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت تنویر سخن نے حاصل کی۔ مشاعرے میں پروفیسر جاذب قریشی‘ سرور جاوید‘ جاوید صبا‘ اقبال حیدر‘ عباس شہیر‘ نجمہ عثمان‘ ڈاکٹر عزیز احسن‘ ریحانہ روحی‘ راشد نور‘ سلمان صدیقی‘ پروین حیدر‘ سلیم فوز‘ زاہد علی زاہد‘ سبکتگین صبا‘ خالد معین‘ محسن اسرار‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ قیصر وجدی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ حامد علی سید‘ حنیف عابد‘ نسیم شیخ‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ ریحانہ احسان‘ سلیمان عزمی‘ ناہید عزمی‘ آئرن فرحت‘ کوثر لاکھانی‘ تنویر سخن‘ یاسمین یاس‘ فرح اظہار‘ یاسر سعید صدیقی‘ آفتاب عالم قریشی‘ ارم زہرہ‘ سحر علی ‘ نظر فاطمی‘ روبینہ ممتاز اور دیگر شعرا نے کلام پیش کیا۔