اشرف طالب
اپنے اسلاف کا بیان سمجھے
تو اگر پیار کی زباں سمجھے
اپنی خوش قسمتی نہ جانے کیوں
وقت کے ہاتھ میں نہاں سمجھے
اپنی کرنی کی وہ تو بھرنی تھی
تو جسے اپنا امتحاں سمجھے
میں تو پیغامِ زندگی لایا
میرے آنے کو رائیگاں سمجھے
جس نے سارا چمن اجاڑ دیا
ہم اسے پھر بھی باغباں سمجھے
میں محبت کا قصہ چھیڑتا ہوں
تو عداوت کو داستاں سمجھے
وہ تو کرتا ہے اپنی من مانی
بات طالب کی وہ کہاں سمجھے