فرحی نعیم
۔’’ہاں بھئی بتاتے جائو آج کیا پکے گا؟‘‘ ممی نے اسکول، کالج کے لیے تیار ہوتے بچوں سے روزانہ کے معمول کے مطابق پوچھا۔ اور ان کے پوچھنے کی دیر تھی کہ چاروں طرف سے فرمائشی پروگرام شروع ہوگیا۔
’’ممی! مٹر پلائو پکا لیجیے… ساتھ کوئی سبزی کی بھاجی۔‘‘
’’یہ تم کو ہر وقت مٹر پلائو ہی کیوں یاد رہتا ہے؟ نہیں ممی! آج دال چاول پکا لیجیے گا بہت دن ہوگئے۔‘‘ چھوٹے صاحبزادے گویا ہوئے۔
’’بہت دن ہو گئے…‘‘ بڑی بہن نے اُس کی نقل اتاری ’’تین دن گزرنا بھی بہت دن ہوتے ہیں بھلا! ابھی منگل ہی کو تو دال چاول پکائے تھے ممی نے۔ نہیں ممی، چکن کڑھائی پکایئے گا اور یخنی پلائو۔‘‘
’’تم رہ گئے، تم بھی اپنی کہہ ڈالو۔‘‘ ممی نے بڑے بیٹے سے کہا جو پورے انہماک سے ناشتا کررہا تھا۔
’’میرے خیال سے ممی…‘‘ وہ چند لمحے رکا ’’آپ یہ سب تھوڑا تھوڑا بنا لیں، میں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ تو کھا ہی لوں گا، آخر پیٹ ہی تو بھرنا ہے، اور آپ کو تو علم ہے کہ میں ناشکرا نہیں، سب ہی کچھ کھا لیتا ہوں۔‘‘
’’ہاں جیسے ہم سب کا دماغ…‘‘ باقی تین بہن بھائی جو اب اسی میز پر بیٹھے تیزی سے ناشتا کررہے تھے، ان میں سے ہی کہیں سے یہ لقمہ دیا گیا تھا۔
اُس نے ایک نظر غصے سے تینوں کو دیکھا جہاں سے دبی دبی مسکراہٹیں ظاہر ہورہی تھیں۔ اس نے اپنی بات کا سلسلہ وہیں سے جوڑا ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں بڑا شکر گزار قسم کا انسان ہوں، آپ کی باقی اولاد کی طرح ناشکرا نہیں، اور نہ ہی میرے نخرے ہیں، اور ویسے بھی میں غذائیت والے کھانے کھاتا ہوں، خالی بھیجے نہیں۔‘‘ اُس نے آخری جملے پر زور دے کر تینوں کو خاص طور پر سنایا، جس پر ان کا منہ بن گیا۔ ’’بس ممی! آپ میرے لیے اسٹرابری کسٹرڈ ود فروٹ کا ایک بڑا پیالہ ضرور بنا دیجیے گا، کیوں کہ آپ کو پتا ہے کہ مجھے سوئیٹ ڈش کتنی پسند ہے۔‘‘ اُس نے جوس کا گلاس منہ سے لگاتے ہوئے کہا۔
ممی، جو اب تک بڑے تحمل سے چاروں کی باتیں سن رہی تھیں، تقریباً پھٹ پڑیں ’’ہاں مجھے سب معلوم ہے، ایک کو دال چاول، دوسرے کو چکن، تیسرے کو پلائو، بریانی تو چوتھے کو ڈیزرٹ… ارے میں انسان ہوں یا کک؟ یہ ساری چیزیں پکاتے پکاتے تو دن ختم ہوجائے گا اور اس کے باوجود تم لوگوں کے نخرے ختم نہیں ہوں گے، یعنی حد ہوگئی۔‘‘
’’ممی! تو پھرآپ ہم سے نہ پوچھا کریں، آپ پوچھتی ہیں تبھی تو ہم بتاتے ہیں…‘‘ چھوٹی بیٹی روکھی ہوکر بولی۔
’’ارے تم لوگ کسی ایک کھانے پر متفق ہوجائو تو کوئی حرج نہیں، لیکن یہاں تو ہر کسی کی پسند دوسرے سے جدا ہے‘‘۔ ممی پریشان تھیں۔ ’’بھلا میں کوئی باورچن ہوں! مجھے گھر کے اور بھی تو دس کام ہوتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر آپ ایک عدد کک ہی کا انتظام کرلیں، ویسے بھی ڈیڈی آپ سے کہتے ہیں کہ یہ کھانا وانا پکانا آپ کے بس کی بات نہیں، اور جب ڈیڈی نے بھی کک رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے تو بھلا آپ کو کیا اعتراض؟ اچھا ہے آپ کو آرام مل جائے گا‘‘۔ چھوٹے صاحبزادے نے مشورہ دیا۔ اور ممی آج سنجیدگی سے اس مشورے پر غور کررہی تھیں۔ آخرکار انہوں نے کک رکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ پھر اس کے لیے انہوں نے اپنے جاننے والوں، دوستوں اور رشتے داروں سے بھی کہا کہ کوئی اچھی خاتون ہو جو ذائقہ دار کھانے پکانا بھی جانتی ہو۔ پھر زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایسی خواتین سے رابطے ہونے لگے اور ممی نے انہیں گھر کا پتا سمجھا کر انٹرویو کے لیے گھر بلا لیا۔
’’آپ کو کیا کیا پکانا آتا ہے؟‘‘ یہ پہلا سوال تھا جو ممی نے نہیں بلکہ اُن خاتون کی طرف سے آیا تھا… جس پر ممی ششدر رہ گئی تھیں۔
’’کیا مطلب؟ یہ سوال تو مجھے تم سے کرنا چاہیے، کیوں کہ تم یہاں میرے پاس آئی ہو، میں نہیں۔‘‘
’’ہاں، لیکن اس سے مجھے اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کے گھر میں کس قسم کے کھانے پکتے ہیں اور کس طرح پکتے ہیں۔‘‘ آنے والی اطمینان سے کہہ رہی تھیں۔
’’اچھا اس کا جائزہ لینے کی تم کو ضرورت نہیں، یہ بتائو کہ تم تمام پاکستانی اور چائنیز کھانا بنا لیتی ہو؟‘‘ ممی پوچھ رہی تھیں۔
’’بنانے کو تو میں بہت کچھ بنا لیتی ہوں، لیکن آپ اس کا معاوضہ کیا دیں گی؟‘‘
’’معاوضے کی بھی بات ہوجائے گی، پہلے یہ تو بتائو…‘‘
’’نہیں، پہلے معاوضہ۔ میں بیس ہزار ماہانہ لوں گی۔‘‘ وہ بات کاٹتے ہوئے بولی۔
’’ہائیں… بیس ہزار…!! یہ میرا گھر ہے۔ تم کسی ریسٹورنٹ یا ہوٹل میں جاب کے لیے نہیں آئیں۔‘‘ ممی تو اُس کے مطالبے پر اچھل ہی پڑی تھیں۔ پھر تھوڑی بہت گفتگو کے بعد ہی ممی نے معذرت کرکے اسے چلتا کردیا۔
اور اس طرح کئی خواتین آئیں لیکن بات نہ بن پا رہی تھی۔ پھر بچوں کے اصرار پر انہوں نے ایک خاتون کو رکھ ہی لیا۔ لیکن ان کے مزاج بھی پچھلی خواتین کی طرح شاہانہ تھے۔ تنخواہ پر بھی معاملہ رد وکد کے بعد نمٹا تھا، اور زیادہ تر انہی کے مطالبات مانے گئے تھے۔
’’سنو قمر جہاں، تم آج بریانی اور ہری مرچ قیمہ بنالو، اور میٹھے میں شیر خرما۔‘‘ ممی نے اس کے آنے کے بعد اسے ہدایت دی۔
’’لیکن میرا تو آج چائنیز چاول کھانے کا موڈ ہے اور شیر خرما کس لیے؟ بھلا یہ عید کا دن تو ہے نہیں، میرے خیال سے سویاں ٹھیک رہیں گی، جلدی بن جاتی ہیں۔‘‘ وہ کام شروع کرتے ہوئے اطمینان سے بولیں۔
’’یہ تمہارا موڈ کہاں سے آگیا! بچے جو کہہ کر گئے ہیں وہی تو پکے گا، اور پھر شیر خرما کیا صرف عید کے دن کے لیے مخصوص ہے؟ اس کے علاوہ سارا سال کھانے پر حکومت نے پابندی لگا دی ہے کیا؟‘‘ ممی جلے بھنے لہجے میں بولیں۔ پھر ممی کے موڈ کے پیش نظر انہوں نے چاروناچار امی کے دیے گئے مینو کے مطابق کھانا تیار کیا۔
…٭…
ممی وہ مینو کارڈ پڑھ رہی تھیں جو جاتے وقت بچے اُن کے ہاتھ میں تھما گئے تھے۔ کبابوں کے ساتھ پیزا کی بھی فرمائش کی گئی تھی۔ ممی ٹھنڈی سانس بھر کر پکانے سے متعلقہ سامان میز پر جمع کرنے لگیں۔ قمر جہاں کے آنے کے بعد انہوں نے اس کو بھی آج کے مینو کی ترتیب بتائی۔
فہرست میں پیزا دیکھ کر تو وہ بھڑک ہی گئیں اور طنزیہ گویا ہوئیں ’’باجی صاحبہ! پہلے آپ مجھے اٹلی کی سیر تو کرا دیں۔‘‘
’’اٹلی کی سیر… وہ بھلا کیوں؟‘‘ وہ حیران تھیں۔
’’تاکہ میں وہاں سے پیزا بنانا سیکھ جائوں تو پھر آکر بنا سکوں۔‘‘
’’پیزا سیکھنے کے لیے اٹلی جانا ضروری نہیں، اور اگر جانے کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے خرچے پر جائو، آخر آٹھ ہزار روپے دیتی ہوں میں تم کو۔‘‘
’’آٹھ ہزار ہی تو دیتی ہیں، کوئی اَسّی ہزار تو نہیں جو میں ساری دنیا کے کھانے بناکر آپ کے سامنے رکھ دوں۔‘‘ وہ تیوری پر بل ڈال کر بولیں۔
’’قمر جہاں! خاموشی سے کام کرو اور کوفتے کے قیمے کو دیکھو جو وہاں بے یارو مددگار پڑا تمہاری راہ دیکھ رہا ہے۔‘‘
’’یہ آپ میرا نام اتنے سخت لہجے میں نہ لیا کریں۔‘‘
’’تو پھر کس طرح بولوں! شہد میں ڈبو کر چاند بولوں یا چندا؟‘‘ ممی چڑ گئی تھیں۔
’’چندا! ویسے بھی میرا نام یہی ہے، اور میں تو یوں بھی اسم بامسمیٰ ہوں۔‘‘ یہ سن کر تو ممی کو چکر ہی آگئے۔ انہوں نے غور سے اس پینتالیس، پچاس سالہ درمیانی عمر کی واجبی شکل و صورت کی قمر کو دیکھا بلکہ آنکھیں سکیڑ کر دوبارہ دیکھا، لیکن انہیں چندا اور اس میں صرف ایک مشابہت نظر آئی کہ دونوں میں گڑھے پڑے ہوئے ہیں، لیکن بولنے سے انہوں نے گریز کیا۔
’’میں کمرے میں جارہی ہوں، جھوٹ سننے سے میرا بی پی لو ہو جاتا ہے، چکر بھی آرہے ہیں، تم اپنا کام کرو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باورچی خانے سے باہر آگئیں۔
…٭…
اگرچہ قمر جہاں اپنا کام کر ہی تھیں لیکن بچوں کی فرمائشیں اب بڑھتی ہی جارہی تھیں، جس پر ممی اور ان میں اکثر تکرار بھی ہوجاتی۔ بچے جو ٹی وی یا میگزین میں دیکھتے، یا کسی کے ہاں سے کھا کر آتے، وہی کھانے کی فرمائش کر ڈالتے، اور قمر صاحبہ کو وہ پکانے میں بڑا تامل ہوتا۔ آج بھی وہ ممی سے کھانے پکانے کا سن کر پہلے کرسی پر بیٹھیں، پھر ان سے جوس کی فرمائش کی۔ جوس پی کر بولیں ’’آپ کو مجھ جیسی سلیقہ مند اور عقل مند کھانے پکانے والی نہ ملے گی جو اتنی کم تنخواہ میں آپ کو کھانے پکا کر دے اور نخرے بھی نہ دکھائے۔‘‘
’’ہاں مگر مجھے تمہاری یہ مذاق کرنے کی عادت زیادہ نہیں بھاتی۔‘‘
’’کون سا مذاق…؟‘‘
’’جو ابھی تم نے اپنے بارے میں کیا۔‘‘
’’مگر وہ مذاق نہیں حقیقت ہے۔‘‘
’’مگر مجھے یقین کیوں نہیں آرہا؟‘‘
یہ بے یقینی قمر جہاں کو برداشت نہ ہوسکی اور وہ ملازمت چھوڑ کر چلی گئیں، جس پر ممی نے سُکھ کا سانس لیا، کیوں کہ اب ان کے مطالبے اور فرمائشیں بڑھتی ہی جارہی تھیں۔ ممی نے چند دن خود کھانا پکایا، مگر اب بچوں کو نت نئے کھانوں کے مزے لگ چکے تھے۔ چند دن تو سب نے برداشت کیا، لیکن پھر سب سے پہلے ڈیڈی ہی نے اخبار میں باورچی کی ضرورت کا اشتہار دے دیا اور ممی آج کل پھر انٹرویو کے صبر آزما دور سے گزر رہی ہیں۔