رانا کاشف
موسم گرما کی تپتى دوپہر تھی- ایک لومڑی بہت پیاسی تھی ،پانی کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی کہ کہیں سے قطرہ بھر پانی مل جائے-شدید پیاس کی وجہ سے اس کا حلق خشک ہو چکا تھا-پانی ڈھونڈتے ڈھونڈتے اچانک اس کی نظر ایک پرانے کنوئیں پر پڑی-وہ دوڑتی ہوئی قریب پہنچی اور قریب پہنچی-منڈیر پر چڑھ کر اندر جھانکا تو کنویں میں پانی موجود تھا- لومڑی پانی کو دیکھ کر خوش ہوگئی اور جھومنے لگی- اسی وقت اس کا پاؤں منڈیر پر سے پھسلا اور وہ کنوئیں میں جاگری-اب وہ بہت پریشان تھی کہ وہ آخر اس کنویں سے کیسے باہر نکلے- اس نے مختلف تراکیب لڑائیں-کبھی کنوئیں کے منہ کی طرف چھلانگ لگاتی مگر کنارے تک پہنچنے سے پہلے ہی واپس گر جاتی-ابھی باہر نکلنے کى تدبير سوچ ہى رہی تھی کہ اچانک اسے منڈیر پر ایک بکری بیٹھی دکھائی-بکری کو دیکھتے ہی اس کے دماغ میں ايک خيال آيا اور اس نے اونچى آواز سے بکرى کو پکارنا شروع کر دیا
“ارے بکری پانی پینا ہے تو کنوئیں میں اتر آؤ”
بکری نے پوچھا کہ کیسا پانی ہے؟
لومڑی نے چلاکی کى اور بولی
“کنويں میں اتروں گی تو تب ہی پتا چلے گا کہ پانی کتنا ٹھنڈا اور میٹھا ہے،میری بات کا تو شاید يقين نہ کرو”
بکری پیاسی تو تھی ہی اسی لئے فورا کنوئیں میں چھلانگ لگا دی- لومڑی نے بکری کا استقبال کیا اور بڑے پیار سے کہنے لگى
“چلو اب خوب سیر ہو کر پانی پیو”
بکری جھک کر پانی پینے لگی تو چالاک لومڑی فوراً اس کی پشت پر کھڑى ہوگئی اور پوری طاقت سے چھلانگ لگائی-بالاآخر کنويں کے منڈیر کے کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئى- بکری کی پيٹھ سے چھلانگ لگانے کی وجہ سے وہ آسانی سے باہر آگئى-اب بھولى بکرى کنويں میں پھنس چکى تھى اور لومڑى اپنى چالاکى سے باہر تھى- اس نے جھانکا اور بکری سے کہا
” دوست آئندہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے نتیجے کے بارے میں ضرور سوچ لینا”