سوشل میڈیا پر تحریک آزادی مقبوضہ کشمیر کے عظیم رہنما سید علی گیلانی کی ایک چھوٹی سی ویڈیو کلپ آنسوؤں سے تر کر گئی ۔ میں نے پہلے بھی یہ بات نقل کی تھی کہ یہ تمام پاکستانیوں سے بڑے اور عظیم پاکستانی ہیں جو آٹھ لاکھ بندوقوں کی نوک پر پاکستان زندہ باد اور پاکستان سے ملنے کا اعلان کرتے ہیں۔اس ویڈیو میں ہم نے دیکھا کہ بستر پر موجود انتہائی علیل حالت میں قائد انقلاب و قائد حریت ’’لا الہ الا اللہ ، پاک سر زمین ‘‘پھر کلمہ طیبہ و درود پاک کا ورد کر رہے ہیں۔یہ وائرل ویڈیو اُن لاکھوںناظرین کو یقیناً جھنجھوڑ گئی ہوگی جو کشمیر، سید علی گیلانی، پاکستان سے وابستہ ہیں ۔ اگلے ہی روز کہیں سے سید علی گیلانی کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر پھیلا دی گئی جس کیبعد میں تصحیح کر دی گئی کہ اُن کی طبعیت ناساز ہے اور صحت یابی کی دُعا کی جائے ۔میری دعا ہے کہ ’’اللہ پاک اپنے خاص کرم کے طفیل سید علی شاہ گیلانی کو صحت کاملہ عطا فرمائے ، ان کی عظیم جدو جہد بھری زندگی کو انہی کے سامنے ثمر بار بنائے اور آگے رہنمائی کے لیے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو اُن کا بہترین متبادل بھی عطا فرمائے۔‘‘
اب چلتے ہیں ایک ’وائٹ کالر ڈان ‘ کی طرف۔ وہ ’ڈان‘ جس کا نام پاکستانی میڈیا میں تعریف و توصیف کے سوا نہیں آنے دیا جاتاتھا آج اس سوشل میڈیا کی بدولت اُس ’بحریہ ٹاؤن ‘کی نام نہاد ’ریپوٹیشن ‘کی دھجیاں د ل کھول کر بکھیری جا رہی ہیں۔کے الیکٹرک، پانی، مہنگائی و دیگر کی طرح جماعت اسلامی نے ایک بار پھر اہل کراچی و بیرون ملک پاکستانیوں کو درپیش ایک ایشوکو ہاتھ میںلیا اور متاثرہ عوام کو ساتھ کامیابی سے ملایا۔بات اتنی نہیں کہ یہ صرف چند لوگوں کا مسئلہ ہے بلکہ اسی چند لوگوںکی آڑ میں ایک بہت بڑی مافیا کے ساتھ مقابلہ کا ہے۔ یہ جو پیٹرول میں آپ کو ریٹیل کی قیمت میں 10 -20پیسے کا فرق نظر آتا ہے ، کبھی تصورتو کریں کہ یہ معمولی سی تبدیلی لاکھوں،کروڑوںروپے ایک پیٹرول پمپ کے مالک کو فراہم کر دیتی ہے۔ اگر وہ ایک دن میں ایک کم ازکم 50000لیٹر پیٹرول فروخت کرے گا تو 20پیسے اضافی لیکر وہ10000روپے اضافی وصول کریگاجو کہ ایک سال میں 36لاکھ روپے بنیں گے ۔آپ کے لیے تو معمولی سے 20پیسے تھے جس پر آپ لڑتے ہوئے بھی شرمائیں گے لیکن وہ اس سے کتنا اضافی کما ئے گا ؟اسی طرح سے یہ بلڈرمافیا ہوتی ہے، سب کو الگ الگ توڑتی ہے۔بحریہ ٹاؤن پاکستان میں تعمیراتی صنعت سے جڑا ایک ایسا نام ہے جس نے ابتداء سے ہی مہنگے لیکن اعلیٰ ترین معیار کی رہائشی اسکیموں کو متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پنڈی، لاہور کے بعد کراچی میں بھی قدم رکھا۔مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ لوگوں نے سوری (متعین کردہ مافیا ) نے درخواست فارم بھی بلیک میں فروخت کیے۔کہا گیا کہ انڈر ٹیبل ڈیل کر کے کراچی کا پانی بحریہ کو دیاگیا۔ پاک سرزمین پارٹی کی لانچ کے پیچھے بھی بحریہ کا ہاتھ قرار دیا گیا اور ایسی ہی کئی باتیں لیکن اس طرح تو کہانی لمبی ہو جائے گی ۔بہر حال ہوا یہ کہ ملکی و بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سونے کے انڈے والی مرغی جان کر خوب سرمایہ کاری کی۔اسٹیٹ ایجنٹ مافیا کی تو لاٹری لگ گئی۔سب بک گیا یہاں تک کہ اتنا مال بکا کہ جو زمین تھی ہی نہیں وہ بھی بیچ دی گئی۔سپریم کورٹ نے ان ساری دو نمبریوںکو جب پکڑا تو صرف جرمانہ لگا کر چھوڑ دیا۔جعلی زمین کے الاٹیز کا رونا ، اُن کی ادائیگی کے چیک کا باؤنس ہونا ، میڈیا کی ہر جانب سے خاموشی،پھر اس کے بعد اچانک ہی بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے الاٹیز کے لیے نئی شرائط وجرمانے وادائیگیوں کا شیڈول آگیا جو کہ سب پر ایک بم کی صورت گرا ۔ ایسے میں جب کوئی بحریہ ٹاؤ ن کے خلاف نہ بولنے کو تیار ہو اور نہ ہی لکھنے کو ، سارا میڈیا، انتطامیہ ، سیاسی جماعتیں، سماجی و نام نہاد مذہبی جماعتیں سب خاموش تھیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی آگے بڑھی اور ظلم کے خلاف مظلوم کے ساتھ ایک موثر آواز بنی۔ سب کو جمع کیا اور ایک دھرنا بھی دیا۔ دوسرے کا اعلان کیا لیکن اس سے دو دن قبل بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض خود دفتر جماعت اسلامی پہنچ گئے ۔3گھنٹے طویل ملاقات رہی ، یہ ٹھیک ہے کہ کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا لیکن ان کی درخواست پر کچھ د ن کے لیے دوسرا احتجاجی دھرنا موخر کیا گیا تاکہ متاثرین کے مسائل کے حل کے لیے کوئی لائن آف ایکشن یا عملی اقدام اٹھانے کا موقع مل سکے۔اب آپ سوچیں گے کہ اس میں سوشل میڈیا کہاں گیا تو جناب عرض یہ ہے کہ اس سارے عمل میں سوشل میڈیا ہی سوشل میڈیا تھا۔بحیثیت مجموعی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کوہمیشہ کی طرح سانپ سونگھ گیا تھا اور اُن کی کاروباری مجبوریاں دیوار بنے کھڑی تھیں جبکہ سوشل میڈیا پر سب کچھ کھلا ڈلا چلتا رہا۔متاثرین و انکے گھر والے سب دھرنے کی اپنی اپنی ویڈیوز شیئرکرتے نظرا ٓئے۔ جماعت اسلامی کے اپنے میڈیا سیل نے خوب مہم چلائی ۔ان سب نے بہر حال نام نہاد بحریہ ٹاؤن کی ساکھ کو خوب دھچکا پہنچایا۔کراچی جیسے شہر میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف اتنے بڑے دھرنے کا انعقاد بہت بڑا مسئلہ تھا اور اب اگلے دھرنے کا بھی اعلان کر دیا گیا تھا۔اسلیے اُس کو رکوانا نہایت ضروری تھا جس کے لیے ملک ریاض از خود جماعت اسلامی کے دفتر آئے۔سوشل میڈیا پر اس ملاقات پر خوب ڈھنڈورا پیٹا گیاجس میں جماعت اسلامی کی حق گوئی اور بے لوث عوامی جدو جہد پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔پھر یہی نہیں اس کے خلاف ایجنٹ مافیا کے منفی پروپیگنڈے کو قابو کرنے کے لیے امیر جماعت اسلامی کراچی نے سوشل میڈیا پر الگ سے ایک طویل خصوصی لائیو سیشن بھی کیاجو خاصا مقبول رہا ۔ اس سیشن میں انہوں نے متاثرین بلکہ عوام کو بھی مسئلہ کے حل کے لیے نکلنے اور جدو جہد کی اہمیت پر زور دیا۔
سوشل میڈیا کو پاکستانی حکومت نے قابومیںکرنے اور اپنے بائے پاس ہونے کے عمل کو روکنے کے لیے راتوں رات قابو کرنے کا زبردست قانون منظور کر لیا۔معاملہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت سوشل میڈیا کی طاقت کو بخوبی سمجھتی ہے اسلیے حکومت کسی طور اپنی ساکھ سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام میں خراب نہیں کرنا چاہتی ۔برما، نارتھ کوریا میں تو سمجھ آتا البتہ ایک ڈجیٹل پاکستان میں ایسا عمل یا قانون سوالیہ نشان ہے ۔حکومت نے تمام بین الاقوامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یو ٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹوئٹر کو اپنے ڈیٹا سینٹر پاکستان میں بنانے اور لائسنس لینے کا قانون منظور کیا ہے تاکہ حکومت مخالف مواد کو بھی قابو کیا جا سکے ۔ویسے یہ قانون اگر نیک نیتی سے انٹرنیٹ سے پھیلنے والے فحش مواد کو روکنے میں استعمال ہوتا تو کیا ہی بات تھی۔اس قانون کی منظوری کے بعد خاصی ہل چل مچی ویسے انہی دنوں پیمرا نے بھی ویب ٹی وی کی ریگولیشن و لائسنس کے لیے تجاویز طلب کر لیں ۔اس قانون کے نتیجے میں بننے والی اتھارٹی کو بے پناہ اختیارات دیئے گئیے ہیں ۔کسی بھی شکایت پر ہر قسم کے اختیار کے ساتھ حکومت عمل درآمدکرے گی۔سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔ بین الاقوامی اداروں پر50کروڑ روپے تک کا جرمانہ رکھا گیا ہے کہ اگر وہ اتھارٹی کا کہنا نہ مانیں ۔اس قسم کی سینسر شپ کو ’انفارمیشن بلیک آؤٹ‘کا نام دیا گیاہے اور تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس قسم کے قوانین کا 20فیصد بھی ماننے کو تیار نہیں ہونگے ۔اس کے نتیجے میں عملاً پاکستان میں بین الاقوامی کمیونیکشن چینل ( یو ٹیوب، ٹیلی گرام، فیس بک، ٹوئٹر و دیگر ) بند ہو جائیںگے۔بہر حال اس کی تمام تر تفصیل آگے چل کر بتائیں گے ۔ بس سینئر صحافی و تجزیہ نگار سید طلعت حسین اس تناظر میں سخت تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ٹوئیٹ میں لکھتے ہیں کہ ،’’پاکسان میں سوشل میڈیاپر بد ترین قدغن کا آغاز۔ فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر وغیرہ سب ریاستی بوٹ کے نیچے۔ عمران بچاؤ، عوام نچاؤ مہم کا ابتدائیہ۔ یہ ملک برما یا دوسری جنگ عظیم کا جرمنی بنایا جا رہا ہے۔ ایک ناکام تجربہ اب جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے کامیاب دکھایا جائیگا۔سلیکٹڈ اورسلیکٹرز کی ناکامی کے چرچے زبان زد عام انکو عوام سے جتنے زیادہ جوتے پڑیں گے یہ اتنی زیادہ سینسرشپ سخت کریں گے۔کپتان اب ایمپائر کی گلے کی وہ ہڈی بن گیا ہے جو نہ تو نگلی جارہی ہے اور نہ اُگلی۔‘‘
یہ ہفتہ یوں بھی اہم رہا کہ اسی ہفتہ ترک صدر 2 روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ۔ اہل پاکستان میں ترک صدر مسلم امہ کی ترجمانی کی وجہ سے بھی انتہائی مقبول ہیں ۔ خارجہ امور کے تناظرمیں تو ترکی ویسے بھی ہمیشہ سے پاکستان دوست ملک کے دائرے میں رہا ہے اور تمام حکومتوں نے ترکی کو ہمیشہ قریبی برادر مسلم ملک میں شامل رکھا ہے۔کشمیر سے لے کر ہر بڑے اہم ایشو پر ترکی پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ان سب میں موجودہ ترک صدر ’رجب طیب اردوان ‘ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ۔اُن کی سیاسی جدو جہد استنبول کے میئر سے لے کر فوجی بغاوت کچلنے اور صدربننے تک ایک عظیم تاریخی باب ہے۔وہ بلاشبہ اس وقت مختلف حوالوں سے ترکی کے مقبول ترین صدر جانے جاتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ترکی کو اس کے کھوئے ہوئے مقام دلانے اور خلافت اسلامیہ کی عظیم تاریخ سے جوڑنے میں بھی ان کا کردار قابل تقلید ہے۔پاکستان کے دینی طبقات میں بھی وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ بے حد مقبول ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی پیجز گروپس RTE اردو، رجب طیب اردوگان اردو، ترکی اردواُ نکے بیانات کی موثر ترویج کر رہی ہیں۔یہ پیجز مستقل اُن کی تقاریر کے کلپس بھی اردو ترجمہ کر کے اپ لوڈ کرتے ہیں جو سب کے سب وائرل ہوتے ہیں ۔کبھی مسجد کے دورے کی ،کبھی تلاوت کی ، کبھی تراویح کی، کبھی سحر و افطار میں عوام کے پاس، کبھی عوام سے ملاقات کی، کبھی مقامی و بین الاقوامی فورمز پر زبردست موقف پیش کرنے کی ویڈیو کلپس ۔اُن کی تقاریر کے بے شمار وائرل کلپس میں سے ایک فکر انگیز وعمل پر ابھارنے والے کلپ کا ترجمہ پیش ہے ، ’’اگر ہم بیت المقدس سے محروم ہوئے تو مدینہ کی بھی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔مدینہ ہاتھ سے نکل گیا تو مکہ کو بھی نہیں بچا پائیں گے۔مکہ کھو دیا تو کعبہ سے بھی محروم ہو جائیں گے۔مت بھولو! بیت المقدس کا مطلب استنبول، اسلام آباد، جکارتہ ہے۔ مدینہ کا مطلب قاہرہ، دمشق، بغداد ہے۔‘‘بات یہاں تک نہیں بلکہ گذشتہ کوئی دو تین سال سے اِسی سوشل میڈیا کی بدولت صدراردوان کی ہدایت پر تیار کردہ ترکی کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والا ترک ڈرامہ سیریز ارتغرل بھی لاکھوں پاکستانیوں کو ترکی سے جوڑنے میں کامیاب ہوا ہے ۔سیکڑوں پاکستانی تو صرف اس ڈرامہ سے متاثر ہوکر ترکی کو جاننے سمجھنے کے لیے وہاں کے لیے عازم سفر ہوئے ۔سوشل میڈیا کے ذریعہ پاکستان میں مقبول ہونے والے 150اقساط والے اس ڈرامہ سیریز ارتغرل نے لاکھوں فین پیدا کر دیئے ۔ ان شائقین نے بھی اپنے مختلف فیس بک گروپس میں ،ٹوئٹر ٹرینڈ میں حصہ ملا کر مختلف پوسٹوں سے عظیم ترک صدرکا والہانہ استقبال کیا۔ ایک صاحب نے اپنے گھر کے باہر استقبال کا بینر لٹکایا اور پھول برسائے اور ویڈیو بنا کر گروپس میں ڈال دی۔ ایک گروپ میں مشورہ آیا کہ سب ملکر پیسے جمع کرتے ہیں اور ترک صدر کا استقبال قائی لباس میں کرتے ہیں۔ایک پوسٹ میں یوں لکھتے ہیں کہ ’’امت مسلمہ کے ہیرو ، طیب اردوان کا استقبال مثالی ہونا چاہیے ۔سعودی شہزادے سے زیادہ عزت دی جائے کیونکہ یہ بندہ عزت کے لائق ہے ۔ ایک تاریخی یادگار استقبال ہونا چاہیے ۔ عمران خان اور طیب اردوان نماز جمعہ فیصل مسجد میں ادا کریں گے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کریں گے ۔اسی طرح جب انکی آمد پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا تو لوگوں نے یوں بھی تبصرہ کیا کہ ’’اِدھر ترک صدر کو گارڈ آف آنر پیش کیا جارہا ہے۔ امریکہ سمیت عربوں اندر بھی اس وقت آگ بھڑک رہی ہو گی۔‘‘ترک صدر کا دورہ جاری ہے لیکن ہمارے میگزین کی کاپی اشاعت کو جارہی ہے ، بہت کچھ لکھا جا رہا ہے ، ٹوئٹر پر مستقل ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے ایردوان ۔ ویسے کئی لوگ اُن کے نام کو ’اردوگان‘ لکھ رہے تھے جس کی تصحیح بھی کی گئی کہ ان کا نام یا تو ’ایردوان‘ لکھا جائے یا ’اردوان‘۔ یہ تصحیح اُن کے ساتھ دورے پر آئے ہوئے مترجم اور ٹی آر ٹی اردو سے تعلق رکھنے والے ہمارے صحافی بھائی اور دوست ڈاکٹر فرقان حمید نے کرائی۔