افشاں نوید
دنیا بھر کی عورتیں عالمی یوم ِخواتین پر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سڑکوں پر نکلتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ مردوں کو سو فیصد حقوق حاصل ہیں۔ اُن کے بھی حقوق غصب کیے جاتے ہیں، لیکن وہ صنفِ قوی ہیں، اس طرح سڑکوں پر نہیں آتے۔ آتے ہیں تو ڈنڈے کھاتے ہیں۔ کل ہی شہر میں ایک تیس برس کے نوجوان نے بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کر لی، کیونکہ بے چارہ بینک سے قرض واپسی کے مسلسل نوٹس آنے پر ذہنی دباؤ برداشت نہ کرسکا۔
سو، زمین جنت کسی کے لیے بھی نہیں ہے۔ حقوق کی جنگ میں ہم سب ہلکان ہورہے ہیں، جبکہ اکثریت فرائض سے غافل ہے۔
خواتین کے حقوق خواتین بھی غصب کرتی ہیں اور مرد بھی۔
بات یہیں تک ہوتی کہ ہمیں حقوق نہیں ملتے اس لیے ہم سڑکوں پر آنے پر مجبور ہیں۔
مغربی ممالک کی عورتیں اپنی ملازمت کے اوقاتِ کار میں نرمی، ڈے کیئر کی مزید سہولتوں، سازگار ماحول، اجرتوں میں اضافے، دورانِ ملازمت صنفی استحصال یا عدم مساوات وغیرہ جیسے مطالبات کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے پلے کارڈز اٹھائے سڑکوں پر آجاتی ہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔
عالمی یومِ خواتین سمیت اقوام متحدہ کے ایام کم وبیش ساری دنیا میں منائے جاتے ہیں۔
ایشوز ہیں پاکستانی عورتوں کے بھی۔ بات ان ایشوز کی ہونی چاہیے، نہ کہ اس عالمی یوم ِخواتین کو ہم گھناؤنے ایجنڈوں کو پروموٹ کرنے کے لیے استعمال کرنے لگیں۔
بات اتنی سی نہیں ہے کہ چند سو خواتین مظاہرہ کرتی ہیں، پلے کارڈز اٹھاتی ہیں کہ… ’’میرا جسم میری مرضی‘‘… ’’میں روٹی کیوں پکاؤں؟‘‘… ’’اپنا موزہ خود ڈھونڈو‘‘… ’’دوپٹہ اچھا ہے تو اپنی آنکھوں پر باندھ لو‘‘ وغیرہ۔ سلوگن اس حد تک بھی ہوتے تو ہم یہ کہہ کر آگے بڑھ سکتے تھے کہ کچھ آزاد خیال عورتیں ہیں، سڑکوں پر شور مچا کر چلی جاتی ہیں۔
بات اس سے بھی آگے، بہت آگے ہے۔
پاکستان میں عالمی یومِ خواتین کو ایک نظریاتی جنگ کا عنوان بنادیا گیا ہے۔
تعفن کے گڑھے پر ڈھکنا پڑا رہے تو خیر ہے۔ اس تعفن کو جس طرح پھیلایا جاتا ہے وہ کروڑوں اذہان کو پراگندہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔
اس ایک دن کی سرگرمیوں اور نعروں کو ہفتوں سوشل میڈیا اور ٹی وی کے اینکر پرسنز ڈسکس کرتے ہیں، خبرناموں کا حصہ بنایا جاتا ہے اگرچہ کہ پاکستانی معاشرے کی ننانوے فیصد اکثریت اس بے ہودگی کی تائید نہیں کرتی۔ تو پھر ان کی بھرپور کوریج کا کیا جواز ہے! برائی کی تشہیر برائی سے زیادہ گناہ ہے۔
کوئی پاکستانی یا مسلمان عورت دوپٹے یا پردے سے آزاد ہوسکتی ہے، لیکن انتہائی گندہ کردار رکھنے والی کوئی عورت بھی کبھی سڑک پر یہ پلے کارڈ اٹھا کر کھڑی نہیں ہوگی کہ… ’’میں بدچلن، میں آوارہ‘‘… ’’ہم بے شرم ہی سہی‘‘… ’’مجھے شادی نہیں، آزادی چاہیے‘‘… ’’ناچ میری بلبل‘‘ … ’’نظر تیری گندی، پردہ میں کروں!‘‘… ’’تواڈی عزت تواڈا مسئلہ‘‘۔کچھ پلے کارڈز فحش نقوش لیے نامعلوم کس دجالی خدا کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے کے عکاس تھے۔
عورتیں خود اپنی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگانے پر آمادہ ہوں تو عزت کہاں سے خرید کر دی جاسکتی ہے!۔
یہ خواتین جن میں اداکارائیں بھی شامل ہیں،کچھ ڈراما رائٹرز بھی، کن کی ایجنٹ ہیں؟ ان کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے؟ ان کو اتنا پروموٹ کیوں کیا جاتا ہے؟کیوں ٹی وی کے کیمرے اتنے فحش پلے کارڈز اٹھائی عورتوں کے انٹرویو کرتے ہیں؟ ہر سال ان کی سرگرمیاں اور تشہیر کیوں بڑھتی جارہی ہے؟
یہ چھوٹے سوال نہیں ہیں۔ اگر ہمیں اپنی نسلوں کا ایمان بچانا ہے تو ان سوالوں سے سرسری نہیں گزرنا ہوگا۔
کچھ ایسی ہی گند’’می ٹو‘‘ نامی ایک مہم کے ذریعے لانچ کی گئی تھی۔
اسلامی ملک میں نکاح کو ختم کرنے کی تحریک چلانے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ نہ ہی نکاح کو مذاق بنانا درست ہے۔ ایک سنت کا نام ہے نکاح… لیکن اس تقریب میں جس طرح دلہا دلہن کو والدین اور خاندان کے بزرگوں کے سامنے پکچرائز کیا جاتا ہے، قرآن ہاتھ میں اٹھاکر رخصت کرنے والے باپ اور بھائی بھول جاتے ہیں کہ اس قرآن میں سورۃ النور اور الاحزاب بھی ہے۔کون سی حد نہیں توڑی جاتی شادی بیاہ کی تقریب میں؟ اور اب تو نکاح کو مذاق بنایا جارہا ہے…!
چند روز قبل آصف نامی نوجوان کے نکاح کو میڈیا بری طرح تماشا بنارہا ہے۔ اس آدمی کو مارا پیٹا گیا۔ اب ہر چینل پر اس کو بلایا جارہا ہے۔ ایک خالصتاً نجی معاملہ، ایک خاندان کا مسئلہ میڈیا مرچ مسالے کے لیے یوں اون کرلیتا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہو۔ جو بھی کچھ تیسری شادی میں مارپیٹ ہوئی، معاشرے میں ایسے واقعات کا وقوع پذیر ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اسے ایک خاندان کا مسئلہ نہیں رہنے دیا جاتا۔ این جی اوز میدان میں آجاتی ہیں۔ سب کی ہمدردیاں عورت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ پرائیویسی کس چیزکا نام ہے، اسے بھلا دیا گیا۔ سب کچھ میڈیا کی ریٹنگ کی بھینٹ چڑھ گیاے۔
اٹھارہ برس کے اسکول کے طالب علم اور طالبہ نے شادی کی۔ اچھی بات ہے۔ ایک خاندان کا حق ہے ایسے فیصلے کرے تو انھیں نبھائے۔ لیکن وہ نوجوان جوڑا ہر ٹی وی چینل پر ہیرو بناکر پیش کیا جارہاہے کہ بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا، زنا سے بچ گئے۔ اسلام میں استثنائی صورتیں بہت سی رعایتیں رکھتی ہیں، لیکن نوجوانوں کو یہ راستہ دکھانا کہ کم عمری میں لکھنا پڑھنا چھوڑ کر شادیاں شروع کردیں،کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ہر گھر کے معاشی معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ میڈیا ایک جوت جگا رہا ہے۔
میاں بیوی کتنے بچے چاہتے ہیں، یہ ان کے خاندانی حالات پر منحصر ہے۔ لیکن میڈیا اور ریاست مجبور کرتی ہے بچے دو ہی اچھے۔ فرد ہو یا ریاست، جب اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو فساد برپا ہوتا ہے۔
اگر کسی عورت کو اسلامی قوانین بوجھل لگتے ہیں، وہ شریعت پر عمل پیرا ہونا نہیں چاہتی تو اس کی مرضی۔ لا اکراہ فی الدین، لیکن کسی عورت یا عورتوں کے ایک گروہ کو یہ اجازت ریاست کیونکر دے سکتی ہے کہ وہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے پلے کارڈ لے کر سڑکوں پر آجائیں! ببانگِ دہل یہ اعلان کریں کہ وہ پاکستانی عورتوں کی اکثریت کی آواز ہیں! وہ تو ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ الحمدللہ پاکستانی عورت دین سے وفاداری نبھانا جانتی ہے۔ وہ اپنے گھر و خاندان کی محافظ ہے۔
اگر کسی کو اسلامی حدود سے اختلاف ہے تو یہاں قوانین مردوں نے نہیں خدا نے بنائے ہیں۔ سارا غصہ مردوں پر اتارنا، انھیں قصور وار ٹھیرانا، ان سے آزادی طلب کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟
ہر سال یہ مظاہرے ہوجاتے ہیں اور ہم ذہنی انا اور جذبہ ایمانی کا ثبوت ان پر لعنت ملامت کے ذریعے دے کرمطمئن ہوجاتے ہیں۔
خیر کی قوتیں اس قابل کیوں نہیں ہوجاتیں کہ مٹھی بھر شر کو سر اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے۔
وہ جنسی آزادی کی تحریک کو دودھ پلاتے رہیں، ان کے انڈوں،بچوں میں اضافہ ہوتا رہے اور ہم پھڑپھڑانے پر ہی اکتفا کرتے رہیں۔
عالمی یومِ خواتین پھر نزدیک ہے…۔
کیا ہم منتظر ہیں کہ وہی سب ہو اور ہم تبرا بھیج کر اپنی ایمانی شوکت کا ثبوت دیں…!یا
کرنے کے کام کچھ ہمارے بھی ذمے ہیں۔