رسا چغتائی قادرالکلام شاعر تھے‘ پروفیسر سحر انصاری

834

نثار احمد نثار
رسا چغتائی ہمہ جہت شخصیت تھے‘ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ادبی منظر نامے میں اپنی پوزیشن بنائی‘ وہ سہل ممتنع کے ممتاز شعرا میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں غزل کے تمام روّیوں کو برتا‘ ان کے ہاں حسنِ تاثیر ہے‘ وہ محسوسات و کیفیات کے شاعر تھے‘ انہوں نے خوش حال زندگی گزاری ان کی شہرت ان تمام بستیوں تک پہنچی جہاں اردو زبان بولی جاتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے ادارۂ فکر نو کراچی کے زیر اہتمام ہونے والے رسا چغتائی تعزیتی ریفرنس اور مشاعرے کے موقع پر کیا۔ اردو لغت بورڈ کراچی کے تعاون سے ہونے والے اس پروگرام میں انہوں نے کہا کہ رسا چغتائی کے لیے حکومتی سطح پر سیمینار ہونا چاہیے جس میں ان کی مختلف جہتوں پر مقالہ جات پیش کیے جائیں۔ ایک زمانے میں رسا چغتائی نے رئیس فروغ کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے نثری نظمیں کہیں اور ہائیکوز میں بھی ان کا کلام موجود ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے تمام کلام کو یکجا کرکے کتابی شکل میں محفوظ کریں تاکہ ہر کوئی ان سے استفادہ کرسکے۔ تقریب کے مہمان خصوصی رفیع الدین راز نے کہا کہ رسا چغتائی اردو زبان و ادب کا ایک اہم نام ہے‘ بظاہر وہ اب ہم میں نہیں ہیں لیکن وہ ہمارے دلوں میں آباد ہیں‘ وہ اپنے کلام کے ذریعے حشر تک زندہ رہیں گے۔ ان کی وفات ایک سانحۂ عظیم ہے۔ ادارہ فکر نو ہر سال ان کی یاد میں پروگرام ترتیب دیتا ہے‘ اپنے محسنوں کو یاد رکھنا اچھی روایت ہے۔ اس موقع پر ظفر محمد خان ظفر نے رسا چغتائی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا جب کہ ادارۂ فکر نو کراچی نے ظفر محمد خان کی ادبی خدمات پر انہیں رسا چغتائی ایوارڈ 2020ء پیش کیا۔ محمد علی گوہر نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ان کا ادارہ یادِ رفتگاں کے سلسلے میں رسا چغتائی‘ خالد علیگ اور نور احمد میرٹھی کے لیے پروگرام مرتب کرتا ہے‘ ہم ان شخصیات کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ آج ہم رسا چغتائی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسا چغتائی نابغۂ روزگار شخصیت تھے وہ جب تک زندہ رہے ادب سے جڑے رہے اور انہوں نے غزِل کی ترویج و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ اختر سعیدی نے کہا کہ رسا چغتائی عہد ساز شخصیت تھے‘ ان کی شاعری جدید لب و لہجے اور غزل کے روایتی مضامین کا مجموعہ ہے‘ وہ مشاعروں کی جان سمجھے جاتے تھے‘ ان کے اشعار حالتِ سفر میں ہیں وہ روز مرہ استعمال ہونے والے الفاظ میں اپنا نفسِ مضمون بیان کرتے تھے‘ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ چھوٹی بحروں پر مشتمل ہے وہ محبتوں کے انسان تھے‘ غرور و تکبر سے انہیں نفرت تھی ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب وہ گورنمنٹ کے ملازم تھے‘ اپنی کمائی کا زیادہ تر حصہ اپنے دوستوں پر خرچ کرتے تھے ان کے انتقال سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ ابھی تک پُر نہیں ہو سکا‘ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ پروگرام میں رسا چغتائی کی نواسی مہک راشد نے رسا چغتائی کی غزل ترنم سے سنا کر خوب داد حاصل کی۔ اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شاہد ضمیر نے کہا کہ آج کی تقریب بہت کامیاب ہے‘ بہت اچھی شاعری پیش کی گئی جس کے لیے ادارۂ فکرِ نو کراچی کے تمام اراکین و عہدیداران قابل مبارک باد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو لغت بورڈ ایک قومی ادارہ ہے جس کے کریڈٹ پر کئی اہم امور ہیں اردو لغت کی تیاری بھی ایک یادگار کارنامہ ہے لیکن اب اس ادارے کو دوسرے ادارے میں ضم کرکے اس کی اہمیت کم کی جارہی ہے۔ رشید خان رشید کی نظامت میں ہونے والی اس تقریب میں ڈاکٹر پروین کاظمی نے رسا چغتائی کے لیے مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ رسا چغتائی 5 شعری مجموعی کے خالق تھے وہ سہل ممتنع میں اشعار کہنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے‘ وہ قلندر صفت انسان تھے‘ ان کی ذات سے کسی تکلیف نہیں پہنچی‘ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں پرناقدین علم و ادب انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے رسا چغتائی پر سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے کہا کہ ریاست جے پور بھارت میں پیدا ہونے والے محتشم علی بیگ (رسا چغتائی) 1950 میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور 5 جنوری 2018ء تک کراچی میں رہائش پذیر رہے‘۱ وہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں نظریاتی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کی شاعری زندگی سے مربوط ہے‘ وہ شاعری میں اپنے تجربات و مشاہدات کے علاوہ اپنے اردگرد کے ماحول کے مناظر بھی نظم کرتے تھے۔ وہ تہذیبی روایات کو آسان لفظوں کی شاعری میں ڈھالنے کا فن جانتے تھے جس کے باعث وہ عوام میں بہت مقبول ہوئے‘ وہ جدید غزل میں عصری حسیت کے ساتھ علامات‘ تشبیہات‘ استعارات اور تراکیب کی ندرت کا خیال رکھتے تھے‘ ان کے یہاں سادہ زبان میں فکر و احساس کی دل آویزی پائی جاتی ہے وہ اردو غزل کی روایت میں ایک خاص اسلوب و لب و لہجے کے شاعر تھے‘ وہ بڑی متانت و سنجیدگی کے ساتھ دھیمے لہجے میں عصری صداقتوں اور انسانی روّیوں کے آئینہ دار تھے ان کی شاعری جمالیات‘ رومانیت اور روشن خیالی کا مرقع ہے۔ پروگرام کے دوسرے دور میں شعری نشست ہوئی جس میں پروفیسر سحرانصاری‘ رفیع الدین راز‘ ظفر محمد خان‘ انور انصاری‘ ناہید رعنا ناہید‘ نعیم بازید پوری‘ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ خالد معین‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ رشید خان رشید‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ نسیم شیخ‘ حامد علی سید‘ حنیف عابد‘ سخاوت علی نادر‘ آمنہ عالم‘ فیروز برہان پوری‘ صفدر علی انشا‘ یاسمین یاس‘ نظر فاطمی‘ سلمان عزمی‘ شاعر علی شاعر‘ رفیق۱ مغل‘ تنویر سخن‘ شائق شہاب‘ شجاع الزماںخان‘ یاسر سعید صدیقی‘ کامران طالش‘ آفتاب عالم قریشی‘ شائستہ سحر‘ محمد علی سوز‘ ریحانہ احسان‘ ہما اعظمی‘ عاشق شوقی‘ کوثر گل‘ کاشف علی ہاشمی‘ علی کوثر‘ عینی میر‘ قمر جہاں‘ عنبر‘ جنید حسن جنیدی اور قمر جہاں قمر نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ پروگرام میں سامعین کی بڑی تعداد موجود تھے‘ مشاعرہ گاہ میں کرسیاں کم پڑ جانے کے بعد مزید کرسیوںکا انتظام کیا گیا۔ مشاعرے کا ڈیکورم قابل تعریف تھا‘ شعرا کی تعداد کے پیش نظر سات اشعار کی پابندی لگائی گئی تھی تاہم کچھ شعرا نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ناظم مشاعرہ رشید خان رشید نے بہت عمدہ نظامت کی اور اپنے دل چسپ جملوں سے محفل گرمائی۔ قاسم جمال نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادارۂ فکر نو ہر سال ایک شاعر کا مجموعہ کلام شائع کرنا چاہتا ہے اس سلسلے میں ہم اپنی پالیسی وضع کر رہے ہیں ہم چاہیں گے کہ ہم مستحق قلم کاروں کی اعانت کریں‘ ہر سال ایک شعری مجموعہ Free of cost شائع کریں۔

شمالی امریکا اردو کا اہم مرکز ہے‘ رفیع الدین راز

رفیع الدین راز نارتھ امریکا میں مقیم ہیں‘ گزشتہ دنوں وہ کراچی آئے تھے اس موقع پر جن ادبی اداروں نے ان کے اعزاز میں تقریبات منعقد کیں ان میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی‘ ادارہ فکر نو کراچی‘ جمعیت الفلاح‘ بزم یارانِ سخن‘ بزم تقدیس ادب‘ بزم شعر و سخن‘ بزم ناطق بدایونی‘ بزم سعید الادب‘ سلام گزار ادبی فورم‘ بزم جمال ادب‘ موج سخن ادبی فورم‘ ادارۂ دستک میرپور خاص‘ ادارہ عالمی رنگِ ادب‘ شمس الادب حیدرآباد شامل ہیں۔ رفیع الدین راز نے ان اداروں کے لیے کراچی پریس کلب میں 3 فروری کو عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں اس وقت شمالی امریکا اردو کا سب سے اہم مرکز ہے‘ وہاں کے لوگ کتاب سے جڑے ہوئے ہیں جب کہ پاکستان میں کتب بینی کا ادارہ کمزور ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے نئی نسل سے مطالعے کا شوق چھین لیا ہے‘ جہاں تک مغربی ممالک میں اردو شاعری کا تعلق ہے‘ تو وہاں کے شعرا ابھی تک غزل کی تہذیب و روایت کے علمبردار ہیں تاہم نظم میں وہاں کے معاشرتی مسائل لکھے جارہے ہیں‘ وہاں تنقیدی مضامین کے مقابلے میں تراجم کا شعبہ زیادہ فعال ہے انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ ہندوستان اور پاکستان سے معاشی مجبوریوں کے سبب مغربی ممالک میں آباد ہیں‘ ان کے کلام میں ہجرت کا درد نمایاں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں رفیع الدین راز نے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک میں کم از کم چالیس‘ پچاس سال تک اردو ختم نہیں ہوسکتی تاہم ہمیں اردو زبان کے فروغ میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ اردو عالمی زبان ہے اس میں قوت بیان ہے اور دوسری زبانوں کے الفاظ کو سمونے کی صلاحیت بھی ہے جس کے باعث یہ زندہ ہے اور اس کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ عشایئے میں سعید الظفر صدیقی‘ رفیع الدین راز‘ محسن اعظم ملیح آبادی‘ رونق حیات‘ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ انور انصاری‘ خالد میر‘ حنیف عابد‘ تنویر سخن‘ فہیم برنی‘ طارق جمیل‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ عاشق شوقی‘ محسن نقوی‘ رشید خان رشید‘ محمود اختر خان‘ یاسر سعید صدیقی‘ نسیم شیخ‘ فیاض علی فیاض‘ احمد سعید خان‘ آصف رضا رضوی‘ کشور عدیل جعفری‘ قادر بخش سومرو‘ شاعر علی شاعر شریک تھے۔ اس موقع پر رونق حیات نے کہا کہ کراچی میں مغربی ممالک سے آنے والے شعرا کے لیے تقریبات سجائی جاتی ہیں کیوں کہ ہم مہمان نواز ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ممالک میں اردو شاعری تو ہو رہی ہے لیکن میرے نزدیک وہاں کے شعرا کا وہ معیار نہیں بن پایا جو کہ دبستان کراچی کا ہے۔ اس وقت ہمارے یہاں صنفِ سخن میں مطالعاتی اور تحقیقی کام ہو رہا ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے ویسے بھی ہمیں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا۔ طارق جمیل نے کہا کہ رفیع الدین ایک کہنہ مشق اور سینئر شاعر ہیں ان کی شاعری میں زندگی کے تمام مناظر نظر آتے ہیں ان کی نثری کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں‘ ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اکادمی ادبیات کراچی کا یکجہتی کشمیر مشاعرہ

اکادمی ادبیات کراچی کے زیر اہتمام یکجہتی کشمیر کل پاکستان مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر سلمان صدیقی نے کی۔ مہمانانِ خاص نسیم سحر‘ ڈاکٹر فرحت عباس‘‘ عرفان خانی‘ رحمت اللہ عامر‘ ظریف احسن‘ اقبال سہوانی اور افضال بیلا تھے۔ سلمان صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری رہے گی‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے 1988ء میں بھارت سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور مختلف نشیب و فراز کے باوجود یہ تحریک جاری ہے۔ مسلح و سیاسی جدوجہد آزادی کے دوران کشمیریوں نے ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی اور جہد مسلسل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریک اقوام عالم کی طرف سے کشمیریوں کے عزت و وقار کے ساتھ حق آزادی کو تسلیم کیے جانے تک جاری رہے گی۔ راقم الحروف نثار احمد نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اور جارحانہ پالیسیوں نے خطے میں امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارت متنازع علاقے کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا یہ عمل بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو بھارتی زیادتیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان کے تمام اہل قلم دانشور ادیب‘ شاعر‘ مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔ اقبال سہوانی نے کہا کہ کشمیر کی کہانی ریاست جموں و کشمیر کی ایک مکمل داستان ہے۔ بھارت اپنے مظالم کے بل بوتے پر کشمیر پر قابض نہیں رہ سکے گا۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ کشمیریوں پر مظالم قابل قبول نہیں‘ وہ وقت دور نہیں جب کشمیری عوام آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ معروف شاعر شجاع الزماں نے کہا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور دنیا کو امن کا پیغام دیتے ہیں لیکن کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔ اس موقع پر شعرائے کرام سلمان صدیقی‘ عرفان خانی‘ ڈاکٹر فرحت عباس‘ رحمت اللہ عاجز‘ ظریف احسن‘ نثار احمد نثار‘ شہناز رضوی‘ افضال بیلا‘ عرفان عالی عابدی‘ ہما عظمیٰ‘ فرح دیبا‘ محمد منظور حسین‘ دلشاد احمد دہلوی‘ ہدایت سائر‘ فہمیدہ مقبول‘ ضیا شہزاد‘ قمر جہاں قمر‘ سید علی اوسط جعفری‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی‘ وحید محسن‘ شجاع الزماں خان‘ ڈاکٹر رحیم ہمراز‘ اقبال سہوانی‘ شائستہ لئیق‘ شمائلہ سلمان‘ نسیم شیخ‘ طارق جمیل‘ محمد رفیق مغل‘ محمد عارف کمال‘ عبدالستار ستمانی‘ احسان شیرزوئے‘ سارہ محمود‘ نظر فاطمی‘ تاج علی رعنا‘ سید مشرف علی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ منشا غوری‘ کوثر گل‘ سیف الرحمن سیفی‘ جمیل ادیب سید‘ نسیم خان‘ خالد انصاری نے اپنا کلام سنا کر کشمیریوں کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا۔

حصہ