ریحانہ افروز
جمعہ کا دن تھا، میں جمعہ کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ موبائل کی بیل نے متوجہ کیا۔ دوسری طرف سے حفصہ بول رہی تھی کہ آپ امی سے بات کرلیں۔ صفورا باجی کی آواز سنتے ہی میں چہکی: ’’ارے واہ! صفورا باجی زہے نصیب… کیا حال ہیں؟‘‘ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے صفورا باجی نے اپنی والدہ بیگم فیض رسول کے انتقال کی خبر دی۔ وہ بتا رہی تھیں اور میں سکتے میں تھی۔
وہ اپنی والدہ کے پاس رہ کر اسی رات لاہور سے واپس آئی تھیں۔ صفورا باجی رات بھر بے چین رہیں۔ صبح فجر کے وقت فون آیا کہ دنیا کی سب سے قیمتی متاع سے محروم ہوگئی ہیں جس کا کوئی بدل نہیں۔ ہر آنے والے کو دنیا سے جانا تو ضرور ہوتا ہے کہ یہ ہر نفس کا مقدر ہوتا ہے، لیکن جانے والا اپنے پیچھے کیا چھوڑ جاتا ہے، یہ حقیقت بڑے غور و فکر کی متقاضی ہے۔
میری خالہ جان (بیگم فیض رسول) سے دوستی تب ہوئی جب میں اسکول میں پڑھتی تھی اور ہم اقبال ٹائون نارتھ ناظم آباد میں رہتے تھے۔ اسی سے آگے حسین ڈی سلوا ٹائون ہے جہاں پہاڑ کے دامن میں صفورا باجی کی والدہ کا گھر ’’دامنِ کوہ‘‘ کے نام سے تھا۔ وہاں خواتین کا اجتماع ہوتا اور درس عموماً بلقیس آپا مرحومہ دیا کرتیں۔
خالہ جان نے وہیں ایک بک شیلف رکھی تھی جس میں بچوں کی کہانیوںکی کتابیں، قصص الانبیاء، موتیوں کے ہار اور دوسری کتب ہوتیں، اور یہی میری توجہ کا مرکز تھیں۔ خالہ جان بہت محبت سے کتاب دیتیں، پرانی کتاب واپس لیتیں اور رجسٹر میں نام لکھ لیا کرتیں۔ ساتھ نمک پارے، بسکٹ اور دہی بڑوں سے تواضع بھی کرتیں۔ سادہ سی، محبت کرنے والی شفیق خاتون کے ساتھ میرا دل بڑا لگتا۔
اُن کا ایک گھر کرشن نگر لاہور میں تھا۔ وہ لاہور چلی گئیں۔ ہم اسکول کی چھٹیوں میں لاہور نانا نانی کے پاس جاتے۔ میں ان کا لاہور کرشن نگر کا ایڈریس ساتھ لے کر گئی اور میری بڑی خالہ (رکن حریم ادب بیگم جلوس اسرار مرحومہ جن کو بیگم مولانا نے اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا اور وہ ہلدی، مرچ، دھنیا بطور خاص اپنی نگرانی میں پسوا کر دیتیں، جس میں بانیِ تحریک سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کھانا پکتا تھا) میری فرمائش پر کہ مجھے اس پتے پر ملنے جانا ہے، مجھے تانگے میں لے کر گئیں۔ بہت ڈھونڈنے پر گھر ملا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ میری خالہ سے تعارف ہوا، انہوں نے اپنے گھر میں موجود بہو بیٹیوں سے میرا تعارف کروایا، اور یوں ہمارا تعلق اور محبت گہری ہوگئی۔ میری خالہ نے گھر آکر سب کو بتایا کہ ملاقات کیسی رہی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا، میں تو سمجھی اسکول کی کوئی سہیلی ہوگی۔
نہ جانے کیسا دور تھا، نہ کوئی جنریشن گیپ، نہ یہ شکوہ کہ ہماری تو کیمسٹری ان سے نہیں ملتی… بلکہ میری تو خوش قسمتی یہ رہی کہ شادی کے بعد شعبہ نشر و اشاعت کی ذمہ داری میرے پاس تھی اور آپا جی ام زبیر، بلقیس آپا، ام اکبر خالہ جان… یہ سب میرے ساتھ ٹیم ممبر رہیں۔ کیا کمال کی تھیں یہ خواتین، کیا خوب صورت تھا وہ وقت۔ سمع و طاعت کے سمندر بنتے ہی تب ہیں جب محبتوں کے دریا گہرے ہوں اور خلوص کے جھرنے بہتے ہوں۔
خالہ جان (بیگم فیض رسول) کی دی ہوئی کتابیں اور بچپن کی پڑھی ہوئی اصلاحی کہانیاں زندگی کا سنگِ میل ثابت ہوئیں۔ خالہ جان جب کراچی آتیں تو میری ان سے ملاقات رہتی۔ بیمار تو رہنے لگی تھیں۔ سعادت مند بہو، بیٹے اور بیٹیوں نے محنت اور محبت سے ماں کی خدمت کی۔ ماں جیسا میٹھا، نرم، شفقت و محبت سے لبریز لفظ جس کا کوئی متبادل نہیں۔ ماں عمرکے جس حصے میں بھی ساتھ چھوڑتی ہے اس کی جدائی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔
بچپن کے بیتے دنوں کی ایک ریل تھی جو آنکھوں میں چل رہی تھی۔ ہاتھ جلدی جلدی کام نپٹا رہے تھے، دل و دماغ ماضی میں گم تھے۔ صفورا باجی کے گھر پہنچی تو وہ اپنی والدہ کے بارے میں بتا رہی تھیں کہ کس طرح انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کی تربیت کی۔ وہ ہر کتاب اور ناول پہلے خود پڑھتیں، پھر ہم کو دیتیں اور ساتھ بتاکر کہ اس میں یہ غلط ہے اور یہ صحیح۔ معاشرتی، سیاسی حالات پر گہری نظر رکھتیں اور ہر وقت رہنمائی دیتیں۔ خصوصاً صبح کے وقت نمازِ فجر کے بعد وہ آٹا گوندھتیں تو ان کے ہاتھوں کے کڑے آٹے کے تسلے سے ٹکراتے جاتے اور ایک جھنکار پیدا ہوتی، اس کے ساتھ ہی وہ بہت خوب صورت انداز میں سورۃ یاسین کی تلاوت کرتی جاتیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو سورہ یاسین ایسے ہی حفظ ہوگئی۔ سبحان اللہ۔
نظریاتی لحاظ سے شوہر و سسرال سب بہت مختلف تھے، مگر ہمیشہ برائی کا بدلہ بھلائی اور محبت سے دیا، اور قرآن کی اس آیت پر پوری اتریں کہ ’’تم دیکھو گے کہ تمہارے دشمن تمہارے دوست ہوگئے۔‘‘ پورا سسرال ان کی مانتا تھا، یہاں تک کہ ان کی ایک رشتہ دار یہ کہنے لگیں کہ آپ ہمارے ہاں کیوں آتی ہیں؟ تو ان کا جواب تھا: میں خیریت معلوم کرنے آتی ہوں اور صلۂ رحمی نہیں چھوڑ سکتی۔ یہی بات ان کی نواسی، صفورا باجی کی بیٹی حفصہ نے بتائی کہ نانی اماں کا بڑا کام پورے کنبے کو جوڑ کر رکھنا تھا۔
ان کی بیٹی سائرہ فیض اسلامی جمعیت طالبات کراچی کی ناظمہ رہیں، جن کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوگیا۔ ناصرہ باجی جنہوں نے امت الرقیب خالہ کے ساتھ بہت کام کیا اور ہمارے لیے ایک شجر کی مانند صفورا باجی۔ کم از کم شعبہ تعلیم کے ہر مسئلے کا حل ان کے پاس ہے۔ سب نواسیاں، پوتیاں جمع تھیں، سب گواہی دے رہے تھے۔ گواہیاں جمع ہورہی تھیں۔ اللہ پاک نے ان کو جمعۃ المبارک دیا۔ خداوند تعالیٰ ان کی روح کو شاد رکھے، ان کی قبر کو جنت کا گوشہ بنادے، آمین۔