خبطِ عظمت اور اس کا انجام

783

اللہ نے یہ کائنات ایسی بنائی ہی نہیں کہ جس میں کوئی فرد ناگزیر ہو، اس کے بغیر یہ کارخانۂ قدرت رک جائے، وہ نہ ہو تو ترقی کی رفتار تھم جائے۔ فنا کی طرف مسلسل بڑھتی ہوئی اس دنیا میں ایک کامیاب فانی انسان چند لمحوں کے لیے یہ تصور کرلیتا ہے کہ شاید اس کا کوئی نعم البدل موجود نہیں ہے۔ خود کو ناگزیر سمجھنے والے فرد کا اگر نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو اس میں دو طرح کے رجحان بدرجۂ اتم موجود ہوں گے، ایک عالی مرتبی کا فریب (Delusion of Grandeur) اور دوسرا یہ کہ اسے اپنے خلاف سازشوں کے جال بچھانے والے لوگ نظر آتے ہیں جسے نفسیات کی زبان میں فریب سازش (Delusion of persecution) کہتے ہیں۔
یوں تو یہ ایک عمومی رویہ ہے جو اکثر لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اپنے دوستوں، خاندان والوں یا پڑوسیوں وغیرہ میں جو شخص نسبتاً زیادہ کامیاب ہوجائے، وہ اپنے اردگرد کے اکثر لوگوں کو ناکام تصور کرتے ہوئے اُن کی بات چیت اور رائے سے منہ موڑ لیتا ہے۔ اس رویّے کے ساتھ ساتھ اس میں جو خبطِ عظمت پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ یہ بھی سوچنے لگتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس کی حاسد ہے اور وہ اسے ناکام کرنے کے لیے سازشوں کا جال بُن رہی ہے۔ ایسی شخصیت کے لوگ اگر اقتدار کی راہداریوں میں آ نکلیں، کامیاب کاروباری سلطنت بنالیں یا کسی اعلیٰ انتظامی عہدے پر پہنچ جائیں تو ان کی اسی بیماری سے خوشامدی لوگ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خوشامدی لوگ اس طرح کی شخصیات کی نفسیاتی کمزوری کے ایک ایک پہلو سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ ان کے سامنے خاص طور پر اُن لوگوں کی غیبت اور برائیاں کرتے ہیں جن کے بارے میں اس شخص نے یہ گمان کررکھا ہوتا ہے کہ سب اس سے جلتے ہیں اور اس کی کامیابی کو اپنی سازش سے ناکامی میں بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ خوشامد کی ماہرانہ صلاحیتوں سے ایسے شخص کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو غلطیوں سے مبرا اور ذہین ترین فرد تصور کرنے لگتا ہے۔
دنیا کے ہر ملک کی تاریخ ایسے افراد کی داستانوں سے بھری پڑی ہے جو انتہائی شاندار ذہن اور بہترین صلاحیتوں سے مالامال تھے، انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ایک مقام بھی حاصل کرلیا تھا، مگر پھر ان کا خبطِ عظمت انہیں لے ڈوبا اور وہ ناکام داستان اور قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے۔ دنیا ہی نہیں بلکہ پاکستانی سیاست میں بھی آپ کو ایسے لاتعداد کردار نظر آئیں گے۔
پاکستانی سیاست میں ذوالفقارعلی بھٹو ایک ایسا نام ہے جو بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھا۔ وہ ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں وڈیرہ شاہی اور سیاست اوڑھنا بچھونا تھی۔ اس کے والد کی شکار گاہ پر اسکندر مرزا اور کمانڈر انچیف ایوب خان شکار کھیلنے آتے تھے۔ اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا والد بمبئی کی قانون ساز اسمبلی کا رکن تھا۔ دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرسٹر ذوالفقارعلی بھٹو صرف بیس سال کی عمر میں اسکندر مرزا اور ایوب خان کی نگاہِ انتخاب سے وفاقی وزیر بنا اور پھر اس کی پرواز کہیں رکی نہیں۔ تیزرفتاری کا عالم یہ کہ وہ 43 سال کی عمر میں صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور اگلے ہی سال وہ پاکستان کے پہلے متفقہ دستور کے تحت انتہائی طاقتور اور مطلق العنان وزیراعظم بنا۔
وہ اس ملک کا ایسا بلا شرکت غیرے حکمران تھا جو اختلاف برداشت ہی نہیں کرتا تھا۔ دو حکومتیں جو اس کی مخالف تھیں، یعنی صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد کی حکومتیں، ان کو وہ ختم کرچکا تھا اور ان دونوں صوبوں کے لیڈروں پر اس نے غداری کے مقدمے بنوا کر انہیں جیل میں ڈال رکھا تھا۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو کا خبطِ عظمت کا شکار ہونا کوئی زیادہ اچنبھے کی بات نہ تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو سے اگر کوئی یہ سوال کرتا کہ 12 نومبر 1973ء کو آپ نے اپنے سب سے قریبی ساتھی غلام مصطفی کھر کو وزیراعلیٰ پنجاب لگایا تھا اور صرف چار ماہ بعد 15 مارچ 1974ء کو آپ نے ایک آرٹسٹ اور فنکار قسم کے شخص حنیف رامے کو وزیراعلیٰ لگا دیا، کہیں آپ غلط فیصلہ تو نہیں کررہے؟ تو وہ یقینا یہی جواب دیتا کہ لوگ بھٹو کو ووٹ دیتے ہیں، یہ سب تو میرے طفیلی ہیں، میں جس کو جب چاہوں، بدل دوں۔ لیکن خوشامدیوں میں گھرے ہوئے بھٹو سے اوّل تو کوئی سوال نہیں کرتا تھا، اور دوسرا یہ کہ اسے یقین دلایا جاچکا تھا کہ اس کا ہر فیصلہ بہترین اور لاجواب ہے۔ یہی بھٹو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اسی بیوروکریسی کا مکمل اسیر ہوگیا تھا جس کو تبدیل کرنے اور عوامی راج قائم کرنے کا نعرہ لگا کر وہ سیاست میں کودا تھا۔ اسے دائمی موت سے ضیا الحق کی لگائی گئی پھانسی بچا گئی، ورنہ عرفِ عام میں اس کی سیاست 1977ء میں ہی دم توڑ گئی تھی۔
بھٹو سے لے کر عمران خان تک، لاتعداد لوگ مسندِ اقتدار پر آئے، اور پھر جس کسی نے بھی کچھ دیر کے لیے خود کو ناگزیر تصور کرنے کی غلطی کی اُس کا کوئی نہ کوئی متبادل وقت نے ضرور پیدا کردیا۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی جان دار سیاست کو ایک ایسا نوجوان شکست دے گا جس کی عمر سیاست سے زیادہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے اور مرنجاں مرنج زندگی گزارنے میں بسر ہوئی ہو۔ جب 1981ء میں اسے گورنر جیلانی نے صوبائی مشاورتی کونسل کا رکن بنایا تھا تو شاید اسے خود بھی اس بات کا یقین نہ ہو کہ ایک دن وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ نوازشریف کے بغیر اس ملک میں جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے نہ ترقی کے خواب دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن وقت کا پہیہ عجیب ہے، ایسے ناگزیر افراد آٹھ سال جلا وطن بھی رہیں، ملک چلتا رہتا ہے۔ واپس آجائیں، دوبارہ اسی خبطِ عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگیں، مقدر قید اور جلاوطنی ہوجائے تو بھی وقت کی رفتار مدھم نہیں ہوتی۔ لیکن لوگ اپنی خوشامد سے ان لوگوں کو عظمت کی ہوائی بلندیوں سے نیچے نہیں اترنے دیتے۔ آخری عمر تک ایسے رہنماؤں کی کہانیاں ’’کاش‘‘ کے لفظ سے شروع ہوتی ہیں اور’’کاش‘‘ پر ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ ’’کاش‘‘ ہمیں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا موقع ملتا۔ عمران خان کواگر درسِ عبرت لینا ہو توہر ملک اور ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی کہانیاں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔
عمران خان نے شاید خود کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ، ترقی کا راستہ، غربت کا قلع قمع اور قومی وقار کا حصول صرف اس کی قیادت میں ہی ممکن ہے۔ اگر وہ اقتدار سے گیا تو یہ ملک واپس کرپشن اور ناکامی کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ خان صاحب! آپ کو مصاحبوں نے شاید یہ احساس دلادیا ہے کہ آپ جو فیصلہ کرتے ہیں وہ دانش سے بھرپور ہوتا ہے، اور آپ کو اس بات کا بھی یقین دلایا گیا ہے کہ لوگ آپ سے شدید محبت کرتے ہیں اور آپ کے یوٹرن اور ہر ناکامی کو بھی محبوب لیڈر کی ادا اور عطا سمجھ کر خوشی سے قبول کرتے ہیں اور دفاع بھی کرتے ہیں۔ یہی وہ تمام عوامل ہیں جو آپ سے ہی نہیں بلکہ آپ سے سیاسی قد میں بہت بلند اور بڑے لیڈروں سے بھی قوتِ فیصلہ چھین لیتے ہیں۔ ان پر مسلسل ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جب آدمی اپنے فیصلوں کی وکالت عقل و دلیل سے نہیں بلکہ ڈھٹائی اور بے دلیلی سے کرنے لگتا ہے۔ اسے اپنے خلاف ہر کوئی سازش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کوئی سیاسی رہنما اس بات پر پختہ یقین کرنے لگ جائے کہ اس کے خلاف سازش ہورہی ہے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرنا شروع کردے تو سمجھ لو کہ یہ علامت ہے اس بات کی کہ وہ بیوروکریسی کی بھول بھلیوں اور خوشامدیوں کے سنہرے جال میں پھنس چکا ہے۔ یہاں سے نکلنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی آخری تقریریں اور گفتگو نکال کر دیکھ لیں۔ اسے تو لاہور، کراچی اور دیگر شہروں کے جلوس بھی عالمی سازشیں معلوم ہوتے تھے۔ ہر نعرے کے پیچھے اسے سرمایہ بولتا نظر آتا تھا۔ سمجھنے والے کے لیے یہ مشورہ کافی ہے کہ اردگرد بکھری تاریخ میں ان لوگوں کے آخری ایام کا غور سے مطالعہ کریں جو سمجھتے تھے کہ وہ ناگزیر ہیں اور پوری دنیا انہیں ناکام بنانے کی سازش کررہی ہے۔

حصہ