افروز عنایت
اماں: میری مان بیٹا، دوسری شادی کرلے، کب تک اسد کا روگ دل پر لگا کر جیے گی! میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، یہ پہاڑ جیسی زندگی… پھر تیرے دونوں بھائی، اگلے مہینے دونوں کی شادی ہوجائے گی۔ یہ دنیا بڑی خودغرض ہے، تیرے بچوں کو باپ مل جائے گا اور تجھے چھت بھی…
کوثر: اماں، اسد نے اس مختصر عرصے میں مجھے اور بچوں کو اتنے سُکھ دیئے کہ (ہچکیاں لیتے ہوئے) میں کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اور رہی بات کفالت کی، تو اپارٹمنٹ میں نے کرائے پر دے دیا ہے، اس کے کرائے سے دونوں بچوں کی فیس نکل رہی ہے۔ شعیب بھائی نے کہا ہے کہ اسد کی چھوڑی ہوئی رقم وہ کاروبار میں لگائیں گے، گزارا ہوجائے گا۔
اماں: (کوثر کی بات پر چونکیں) وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن … بیٹا یہ پہاڑ سی زندگی کیسے بسر کرے گی…!
٭…٭…٭
شعیب: اماں آپ فکر نہ کریں، سہیل غریب میرا مطلب ہے شریف اور سیدھا سادہ بندہ ہے۔ ایک شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں کے لیے… میرا مطلب ہے کہ یہ صحیح رشتہ ہے۔ اور ہاں کوثر ایک بات کی احتیاط ضرور کرنا، سہیل کو تمہارے اپارٹمنٹ اور رقم کی کانوں کان خبر نہ پہنچے، نہ جانے آگے کیا حالات ہوں، اس لیے احتیاط ضرور کرنا۔ بلکہ تم اس پر یہ باور کرانا کہ میرے بھائی دونوں بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کررہے ہیں۔
کوثر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ یہ سب کیا ہورہا ہے! اس نے اپنے حالات رب کے سپرد کردیے۔
٭…٭…٭
سہیل: کوثر بیگم میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہیں خوش رکھ سکوں (ذرا ٹھیر کر) تم… دونوں بچوں کو یہاں لے آئو، اب وہ میری ذمہ داری ہیں۔
کوثر: جی… شکریہ، میں بھی یہی چاہتی تھی، ویسے بھی شعیب اور ذیشان کی شادی ہوجائے گی، اماں بیمار رہتی ہیں۔
٭…٭…٭
بچوں کے آنے سے گھر میں رونق ہوگئی، سہیل کا دل بھی بچوں سے لگ گیا۔ کوثر نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ عمیر کی پیدائش کے بعد تو سہیل دونوں بچوں کا اور زیادہ خیال رکھنے لگا۔ سہیل کا خلوص اور عمدہ کردار دیکھ کر اس نے پہلے شوہر کے گھر اور رقم کی بات سہیل کو بتائی لیکن اس نے کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔ کسی خاص ضرورت کے تحت ہی اب وہ بھائی سے منافع اور کرائے کی رقم میں سے کچھ لیتی۔ بچے بڑے ہوئے اور ان کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کے لیے سہیل کو پریشان دیکھا، تو بھائیوں سے بات کی، لیکن دونوں بھائی مکر گئے کہ ہم تمہیں تمہاری رقم سے زیادہ دیتے رہے ہیں، اب سب کچھ ختم ہوگیا۔ ماں کا انتقال ہوچکا تھا، وہ کس سے بھائیوں کا گلہ کرتی! زیادہ کہا تو کچھ رقم ہاتھ پر رکھ دی کہ اب تمہارا حساب چکتا ہوگیا۔
٭…٭…٭
کوثر اور سہیل کے چاروں بچوں نے جیسے تیسے کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور برسرِ روزگار ہوگئے، لیکن ان حالات کی وجہ سے کوثر کا اپنوں پر بھروسا اور اعتماد بھی جاتا رہا۔
٭…٭…٭
مذکورہ حقیقی واقعہ جب میں نے سنا تو زیادہ تعجب نہیں ہوا، کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ہم سنتے رہتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کا مال ہڑپ کرلیا، یا جائداد ہڑپ کرلی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن پیاروں پر انسان اندھا اعتماد کرتا ہے وہی ٹھیس پہنچا جاتے ہیں۔ ان سطور کو لکھتے ہوئے میں دو دہائیاں پیچھے پہنچ گئی جب ایک بیوہ خاتون نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے سب سے چھوٹے اور چہیتے بیٹے نے دھوکے سے کاغذات پر دستخط کرواکر ان کا اکلوتا سہارا یعنی چھت اپنے نام پر کرواکر ماں کو گھر سے بے گھر کردیا، ساتھ ہی تمام بہن بھائیوں کا حق بھی مارا۔
٭…٭…٭
اسلامی تعلیمات ہمیں حُسنِ معاشرت کا سبق دیتی ہیں، دوسروں کے لیے ایثار و محبت اور خلوص کی تلقین ملتی ہے۔ دھوکے بازی، امانت میں خیانت، جائداد و مال غصب کرنا، یا دوسروں کو اُن کے مال کا حصہ نہ دینا، یہ وہ گناہ ہیں جن پر آخرت میں سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ایسے شخص کے لیے کہا گیا ہے کہ اس کا دین کامل نہیں، جیسا کہ بخاری، مسلم کی حدیثِ مبارکہ کا حصہ ہے کہ ’’اور نہیں ہوتا کوئی تم میں سے خیانت کرنے والا دورانِ خیانت مومن‘‘۔
اوپر کے واقعے میں بھائیوں نے امانت میں خیانت کی، بہن کا مال اور اس کا حصہ ہڑپ کیا۔ ایسے خائنوں کی دنیا و آخرت برباد ہے۔ آخرت کا دردناک عذاب ان کا منتظر تو ہے ہی، ایسے لوگوں کی دنیا بھی برباد ہوتی ہے۔ وہ تمام زندگی عجیب بے چینی و بے سکونی کا شکار رہتے ہیں۔ پھر ایسے حرام طریقوں سے آئی کمائی کی بدولت برکت ختم ہوجاتی ہے اور اولاد بھی نافرمان ہوجاتی ہے۔ احادیث و احکامِ الٰہی سے ایسے گناہوں کے بارے میں واضح احکامات ہمارے سامنے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ ہے کہ جس نے کسی کی ایک بالشت بھر زمین ناجائز طور سے دبائی ہے تو قیامت کے دن اس کی وجہ سے ساتوں زمینوں کا اس کے گلے میں طوق ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری)۔
اس طرح ایک اور جگہ اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’’جس نے بالشت بھر زمین پر ناحق قبضہ کیا اسے حکم دیا جائے گا کہ اسے کھو دے، یہاں تک کہ وہ ساتوں زمینوں کی تہ تک پہنچ جائے گا، یہاں تک کہ قیامت کے دن لوگوں کا فیصلہ ہوجائے گا۔‘‘ (استغفراللہ)۔
آج دوسروں کے ساتھ نا انصافی کرنے والوں اور دوسروں کا مال ہڑپ کرنے والوں کو صرف ان دو احادیث کی روشنی میں ہی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کی آخرت کس قدر اذیت ناک ہوگی جس کو وہ فراموش کرچکے ہیں، جب ان سے سوال ہوگا: کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا…؟ رب العزت کے سامنے ہر بندے کو حساب دینا ہوگا۔ اس حساب کتاب کے دن کے لیے انسان کو تیار رہنا چاہیے تاکہ وہ ’’وہاں‘‘ سرخرو ہونے کے لیے اِس دنیا میں کسی کی حق تلفی نہ کرے اور نہ ہی نا انصافی … رب العزت ہم مسلمانوں کو ایسے گناہوں سے محفوظ رکھے جن سے دوسروں کو تکلیف اور اذیت پہنچتی ہو۔ آمین