سیدہ عنبرین عالم
۱محمد ابرار صدیق 24 نومبر 1980ء کو محمد صدیق حسن کے گھر پیدا ہوئے۔ محمد صدیق صاحب 1960ء میں حیدرآباد دکن (بھارت) سے ہجرت کرکے پاکستان میں آباد ہوئے تھے۔ دکن میں حالات یوں تو بلوہ وغیرہ کے نہیں تھے لیکن معاشی اور معاشرتی طور پر مسلمانوں کا مستقبل تاریک تھا۔ اردو پڑھنے والوں کے لیے نوکریاں نہیں تھیں، لہٰٰذا مسلمان اپنے بچوں کو ہندی اور انگریزی اسکولوں میں داخل کراتے تھے۔ بچے مسلمان ہوکر بھی ہندوئوں کی تہذیب سیکھ رہے تھے، اُن کے تہواروں میں شریک ہورہے تھے۔ کاروباری حالات بھی مسلمان گھرانوں کے لیے موافق نہیں تھے۔ باقاعدہ معاشی مقاطعہ تھا۔ ہاں، جو مسلمان ہندوئوں میں بیٹھ کر اسلام کی برائی کرتے، پاکستان کو بددعائیں دیتے وہ ہر دلعزیز بن جاتے۔ پھر ایک روز ایک مسلم صاحب جو ہندوئوں کے تہواروں میں شریک نہیں ہوتے تھے، اپنے بچوں کو بھی ہندو بچوں میں گھلنے ملنے نہیں دیتے تھے، ہندوئوں کے ظلم کا شکار بنے۔ اُن پر گائے کا گوشت کھانے کا جھوٹا الزام لگاکر ہندو ہجوم نے اس قدر تشدد کیا کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ صدیق صاحب دس برس کے تھے، یہ وہ لمحہ تھا کہ ان کے والد نے سب چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ صدیق صاحب کی دو چھوٹی بہنیں تھیں۔ سب پاکستان آگئے۔ یہ ایوب خان کا دور تھا۔
صدیق صاحب کے والد نے کراچی آکر لالوکھیت کے علاقے میں دو کمروں پر مشتمل مکان خرید لیا۔ میاں بیوی اور تین بچوں کے لیے یہ مکان مناسب تھا۔ مکان کے صحن میں تھوڑی تعمیر کراکر ایک دکان کھول لی۔ دکان میں جہاں روزمرہ کا سامان تھا، وہیں انہوں نے دوائیں بھی رکھ لیں۔ یہ محلے میں کھلنے والا پہلا میڈیکل اسٹور تھا، لہٰذا خوب چلنے لگا۔ بچوں کو ایک سرکاری اسکول میں داخل کرا دیا۔ سرکاری اسکولوں کا معیار بھی ایسا اعلیٰ تھا کہ بچوں میں تہذیب اور علم دونوں ہی پروان چڑھتے۔ یہ وہ دور تھا کہ کراچی میں بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے ہی سرکاری محکموں، اسکولوں، اسپتالوں اور دیگر اداروں کو ترقی پر لے جانے کے لیے تندہی سے کام کررہے تھے۔ کراچی ملک کا دارالحکومت تھا اور پاکستان کی تمام معیشت کراچی کی مرہونِ منت تھی۔ رشوت اور اقربا پروری کا نام و نشان نہ تھا۔ مجموعی طور پر بھی پاکستان کا انتظام و انصرام اردو بولنے والے طبقے کے ہاتھ میں ہی تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مقامی آبادی میں تعلیم کا زیادہ رجحان نہ تھا، اور ملک چلانے کے لیے معیشت، خارجہ پالیسی، دفاع اور دیگر شعبوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت تھی۔ بھارت سے ہجرت کرکے آنے والا اردو داں طبقہ تقریباً مکمل طور پر تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل تھا، اور نوخیز پاکستان سے انتہائی مخلص بھی تھا، کیوں کہ یہی وہ لوگ تھے جو اپنے خون کے رشتے اور جدی پشتی جائدادیں پاکستان کے لیے قربان کرکے آئے تھے، درحقیقت انہی لوگوں نے آزادی کی قیمت ادا کی تھی اور یہی لوگ پاکستان کو افلاک کی بلندیوں تک لے جانا چاہتے تھے۔ ابھی کراچی کو دبئی سمجھ کر قسمت آزمانے کے لیے آنے والوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، لوگ اپنے ہی علاقوں میں محنت سے مویشی بانی اور کھیتی باڑی کرتے تھے، کراچی کی آبادی 90 فیصد مہاجروں پر مشتمل تھی۔
صدیق صاحب کے والد خوش تھے کہ مسلمانوںکے دیس میں آن بسے۔ اس طرح اب بچوں پر غلط اثرات نہ ہوں گے، وہ پڑھیں گے، لکھیں گے اور خوب ترقی کریں گے۔ صدیق صاحب کی والدہ نے پیسے جمع کرکے ریڈیو بھی لے لیا تھا۔ وہ بھی خوش تھیں کہ اب اپنوں میں ہیں، جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ بڑے فخر سے بچوں کو بتاتیں کہ پاکستان کی تشکیل کے ابتدائی دنوں میں ہر سرکاری اہلکار کو تنخواہ حیدرآباد دکن کے نظام کے خزانے سے دی جاتی تھی۔ بچوں کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری جارہی تھی۔ صدیق صاحب کے والدین اس بات سے بے خبر تھے کہ حکومتی سطح پر تعصبات کو فروغ مل رہا ہے، ہجرت کرکے آنے والوں کے خلاف یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ دھرتی کے بیٹے نہیں۔ ان کی تمام تر علمی صلاحیتوں اور تجربے کے باوجود ان پر نوکریوں کے دروازے بند کیے جارہے تھے۔ میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے لے کر ملازمتیں تک کوٹہ سسٹم کی نذر ہوئیں۔ اس سے احساسِ محرومی بڑھ رہا تھا۔ پھر لسانی فسادات کا آغاز ہوا اور حکومتی مشینری کو بھرپورطریقے سے آپریشن میں استعمال کیا گیا۔ صدیق صاحب کے والدین کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ اپنے مسلمان بھائی کیوں خون کے پیاسے ہوگئے ہیں! لالوکھیت ایسی بربادی دیکھ رہا تھا جو بھارت میں رہتے ہوئے بھی نہ دیکھی۔ گن کلچر بھی کراچی میں آگیا، جب کہ مہاجر اہلِ قلم قوم تھی۔
لالوکھیت مارکیٹ کو کئی بار آگ لگائی گئی۔ باقاعدہ نسل کُشی کی جارہی تھی۔ صدیق صاحب کے والد انہی فسادات کی نذر ہوگئے۔ 16 سال کی عمر میں صدیق صاحب کے کاندھوں پر گھر کا بوجھ آگیا۔ والدہ پڑھی لکھی تھیں مگر دستور یہ تھا کہ اگر شناختی کارڈ پر جائے ولادت انڈیا ہے تو نوکری ملنی مشکل ہوجاتی۔ بہرحال اللہ نے روزی دی اور وہ ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ صدیق صاحب کالج کے بعد والد کی دکان پر بیٹھنے لگے۔ والدہ اس قدر خوف زدہ تھیں کہ دونوں بچیوں کو میٹرک کرتے ہی سادگی سے بیاہ دیا کہ یہ ذمہ داری تو کاندھوں سے اترے۔ یہ وہ عرصہ تھا جب بھٹو صاحب نے کوٹے کا کالا قانون رائج کردیا۔ جب احساسِ محرومی بہت بڑھ گیا تو APMSO وجود میں آئی۔ اس دوران صدیق صاحب کی شادی ہوگئی تھی، اور ابرار کی ولادت ہوئی۔
صدیق صاحب تو ذمہ داریوں کی وجہ سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے، مگر ابرار کو وہ کسی اچھے مقام پر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں گہرے شکوک کا شکار تھے۔ شریف آدمی تھے، زندگی بھر کبھی کسی کوگالی تک نہ دی۔ اہلیہ جماعت اسلامی کے خاندان سے تھیں، سو خود بھی جماعت سے وابستہ ہوگئے۔ خیال تھا کہ اسلامی نظام قائم ہوگیا تو ناانصافیاں دھیرے دھیرے ختم ہوجائیں گی۔ مگر حالات کسی اور رُخ پر جارہے تھے، غیر مقامی افراد کی باقاعدہ بستیاں بسائی جارہی تھیں، کراچی میں کراچی والے ہی لاوارث ہوگئے تھے، نااہلوں کی تعیناتیوں کی وجہ سے ادارے بھی تنزلی کا شکار تھے اور بحیثیتِ مجموعی پاکستان غیر مستحکم ہورہا تھا۔ صدیق صاحب جیسے لوگ جنہوں نے پاکستان کی خاطر قربانیاں دی تھیں، کڑھتے تھے اور دعائیں کرتے تھے۔ مگر انہی شریف خاندانوں کی اگلی نسلیں چپ چاپ اپنی گردنیں چھریوں کے نیچے پیش کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں، وہ مرنے سے پہلے مقابلہ کرنے کی حامی تھیں، ایسا مقابلہ جہاں دونوں طرف ہی کلمہ گو تھے، دونوںطرف پاکستانی تھے، مگر دلوں میں گنجائش نہیں تھی۔ اس لمحے کا فائدہ انڈیا نے اٹھایا۔ الطاف حسین کے ذریعے حقوق کی جدوجہد کو مسلح کردیا گیا۔ کراچی شعلوں کی نذر ہوگیا۔
ابرار میٹرک کرچکا تھا۔ یہ لوگ ابھی تک اپنے لالوکھیت والے گھر میں رہائش پذیر تھے اور وہی میڈیکل اینڈ جنرل اسٹور ذریعۂ معاش تھا۔ ہڑتالیں روز کا معمول بن چکی تھیں اور فائرنگ میں کراچی لہولہان ہوتا۔ جوان، جوان بچے موت کی نیند سلا دیے جاتے۔ ماں باپ اپنے بچے دفناتے دفناتے تھک چکے تھے۔ ایک مرتبہ ابرار رات کو بہت دیر سے گھر آیا، صدیق صاحب نے دریافت کیا تو ابرار غصے میں بھرا ہوا تھا، وہ تھانے سے آیا تھا، پولیس اسے محض اس لیے اٹھا کر لے گئی تھی کیوں کہ وہ مہاجر تھا۔ ’’الطاف حسین صحیح کہتا ہے بابا! ہم جماعت سے منسلک رہ کر، قرآن پڑھ پڑھ کر ان شیطانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ہمیں بھی ہتھیار اٹھانا ہوگا، ہمیں ریاست سے مقابلہ درپیش ہے، ہمیں انڈیا سے مدد لینی ہوگی‘‘۔ وہ چلّایا۔
ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑا۔ ’’تُو پاکستان کی ریاست کے خلاف انڈیا سے مدد لے گا؟ وہ انڈیا جس پر تھوک کر ہم پاکستان آئے، وہ انڈیا جو ہمارے خون کا پیاسا ہے، وہ انڈیا جو تم جیسے غداروں کی تلاش میں ہے۔ آج حالات خراب ضرور ہیں مگریہ ہمارے اپنے ہیں، ہمارے مومن بھائی ہیں‘‘۔ صدیق صاحب بولے۔
ابرار حیرت سے باپ کو دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے اپنی آستین اٹھائی، اس کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ کر ٹیڑھی ہوچکی تھی، اس کے پیروں سے خون بہہ رہا تھا۔ ’’بابا، کافر مارتے تو میں برداشت کرلیتا کیوںکہ پھر میں شہید ہوتا، آپ بتایئے کہ آپ کے مومن بھائی میرے خون سے کون سا خراج وصول کررہے ہیں؟ اگر آپ کی نسل ان ظالموں کا دماغ درست کردیتی تو آج ہمارے ساتھ یہ نہ ہوتا۔ مگر میں اپنی اگلی نسل کے لیے ظلم و ناانصافی کے یہ پہاڑ چھوڑ کر نہیں مروں گا۔ انصاف اب ہم خود کریں گے، اپنا حق وصول کریں گے‘‘۔ وہ بلند آواز سے بولا۔
ابرار نے 1997ء میں لسانی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ وہ انتہائی پُرجوش تھا، وہ سب کچھ ٹھیک کردینا چاہتا تھا، اس کی عسکری تربیت شروع ہوچکی تھی، اس نے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی نقل و حمل دیکھی، وہ حیران تھا کہ یہ کروڑوں کے ہتھیار، بھوکے بے روزگار نوجوانوں کے پاس کہاں سے آگئے؟ اس نے تعلیم بھی جاری رکھی۔ اسلامیہ کالج سے انٹر کرنے کے بعد وہ کراچی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے لگا۔ تعلیم کا تو بس نام تھا، اصل میں یہ لوگ یونیورسٹی بھی اپنے نظریات کی ترویج کے لیے جاتے تھے۔ یہ تنظیم اتنی طاقتور ہوچکی تھی کہ حکومت کو ان سے مذاکرات کرنے پڑتے۔ الیکشن جیت کر یہ لوگ حکومتوں میں شامل ہونے لگے تھے۔ پارٹی کا اعلیٰ طبقہ تو پڑھے لکھے افراد پر مشتمل تھا، مگر پارٹی کے مجموعی ورکر اپنا تہذیبی تشخص کھو چکے تھے۔ دو عشرے پہلے جس مہاجر کی پہچان یہ ہوتی تھی کہ وہ پڑھا لکھا ہوگا، نفیس طرزِتکلم ہوگا، دھیمی آواز، لڑائی جھگڑا تو درکنار نازیبا الفاظ بولنے تک سے عاجز، حلال کمانے والا، تہذیب سے مرصع… آج اس مہاجر کی پہچان منہ میں گٹکے، کھلے گریبان، پیٹی سے اڑسے پستول اور بات بے بات سر پھاڑ دینے والے شخص کی رہ گئی تھی۔ بے روزگاری اب بھی تھی، مگر اب یہ بے روزگار نوجوان تیزی سے تنظیم میں شامل ہورہے تھے، ان کو ان کے عہدے کے مطابق مناسب تنخواہیں بھی مل رہی تھیں اور کئی سرکاری اداروں میں نوکریاں بھی دلوائی جارہی تھیں۔ مگر یہ ادارے سے زیادہ پارٹی کی خدمت کرتے تھے۔
ابرار کے سیکٹر انچارج ذیشان انور تھے۔ اب پارٹی دولخت ہوچکی تھی۔ ابرار کو مخالف گروپ کے تین افراد کو موت کی نیند سلانے کا حکم دیا گیا تھا۔ ’’مگر وہ تو مہاجر ہیں، ہم انہیں کیسے مار سکتے ہیں؟‘‘ وہ بولا۔
’’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘‘۔ ذیشان نے ابرار کو اصول بتادیا۔ یہ ایک تنبیہ بھی تھی۔ ’’ہمارا مقصد الطاف حسین کی دہشت قائم کرنا نہیں بلکہ مہاجروں کے حقوق کی جدوجہد ہے‘‘۔ ابرار کو بات سمجھ نہیں آئی۔ ’’منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘، یہ دوسرا اصول تھا جو تنظیم کی اساس تھا۔ ابرار نے مزید بحث فضول سمجھی، لیکن وہ مخالف گروپ کے افراد پر گولی چلانے کو تیار نہیں ہوا۔ یہ اس کا پہلا جرم تھا، اس کے خلاف چارج شیٹ شروع ہوگئی تھی۔
صدیق صاحب ابرار کو گھر سے نکال چکے تھے، ہر طرح سے سمجھایا مگر ابرار بات سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔ ہاں اپنی چار چھوٹی بہنوں کا اسے بہت احساس تھا، اکثر کچھ رقم لفافے میں رکھ کر کسی کھڑکی سے کسی بہن کو پکڑا آتا۔ صدیق صاحب کو اس بات کی کچھ خبر نہ تھی۔ پھر جب ابرار کو بولٹن مارکیٹ کے تاجروںسے بھتہ وصول کرنے بھیجا گیا تو وہ ایک بار پھر حیران ہوگیا۔ یہ تاجر بھی مہاجر تھے۔ اس نے اُن سے بھتہ لینے سے انکار کردیا۔ ’’ہمارا کام مہاجروں کو معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرنا ہے، ہم نے ان کی زندگی مزید اجیرن بنانے کے لیے پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی، قائد اب تک کوٹہ سسٹم کے خلاف بھی آواز نہیں اٹھا سکے، اتنی ہڑتالیں کرتے ہیں، ایک زبردست سی ہڑتال کوٹہ سسٹم کے خلاف کرکے چند بسیں، چند دکانیں جلاتے، کوٹہ سسٹم ختم ہوجاتا۔ بھائی مخلص نہیں ہیں‘‘، ابرار نے کہا۔ یہ اس کا دوسرا جرم تھا۔
ابرار پارٹی کے تحت چلنے والے عقوبت خانے دیکھ رہا تھا، جہاں ڈرل مشین سے انسانی اجسام کو چھیدا جاتا، ناخن پلاس سے کھینچے جاتے۔ یہ ظلم برداشت کرنے والے مہاجروں کے دشمن نہیں تھے بلکہ اکثر وہ مہاجر ہوتے جو بھتہ دینے سے انکار کرتے۔ اپنے بیڈ روم میں بھی بھائی کے خلاف بات کرنے والے عبرت کا نمونہ بنادیے جاتے۔ اب کراچی بھائی کے حکم سے کھلتا اور بند ہوتا تھا۔ پارٹی طاقت کا استعارہ تھی مگر ابرار کا دل اوبھ چکا تھا، وہ اب اس زندگی سے مطمئن نہ تھا۔ اس کی چاروں بہنیں بیاہی جا چکی تھیں، گھر میں اب صرف اماں، ابا تھے۔ اس نے اپنے گھر میں رہنا شروع کردیا تھا۔ صدیق صاحب نے چشم پوشی کی اور کوئی اعتراض نہیں کیا؟
ذیشان نے ڈیفنس کے ایک بنگلے میں ڈاکا ڈالنے کا حکم دیا۔ ابرار کے ساتھ چار لڑکے اور تھے۔ چہروں پر ڈھاٹے باندھے وہ بنگلے میں داخل ہوئے۔ گھر کے بڑے میاں خالص حیدرآبادی انداز میں احتجاج کررہے تھے، وہ دکنی تھے۔ ابرار کو ایسا لگا کہ جیسے اس کے بابا بول رہے ہوں۔ ’’یہ مہاجروں کا گھر تھا، پھر بھی ذیشان نے یہاں ڈاکا ڈالنے بھیج دیا!‘‘ ابرار غصے سے چلّایا، اور ایک لمحے کے اندر ایک گولی اس کے سینے کے پار ہوگئی۔ گروپ کے لیڈر سے ذیشان نے کہہ دیا تھا کہ اب ابرار ہمارے کام کا نہیں رہا، مگر اس کے سینے میں بہت راز ہیں، اسے پارٹی سے نہیں نکال سکتے، اگر یہ ڈاکے کے دوران ساتھ نہ دے تو اس کا فوراً کام تمام کردینا، غداروں کی ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے۔