نسیم آرا
ماسی نوراں کا مسکراتا چہرہ آج بھی آنکھوں میں تھا۔ وہ چہرے پر بھرپور مسکراہٹ لیے سبزی کی ٹوکری سر سے اتار کر صحن میں رکھتی اور پھر خود بھی زمین پر یوں بیٹھ جاتی جیسے مخمل کے فرش پر بیٹھ رہی ہو۔ جب امی پوچھتیں ’’ہاں نوراں، آج کیا لائی ہو؟‘‘ تو اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی۔ بڑے فخر سے کہتی ’’بی بی آج تاسں موضاں ای لگ گیاں نیں۔ ایہہ تاجی تاجی سبجی دیکھو تاں سہی‘‘۔ پھر وہ گاجر، مولی، ٹماٹر، آلو کی یوں تعریف کرتی جیسے اپنے بچوں کے گن گا رہی ہو۔ امی، ماسی نوراں سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھیں۔ سبزی خریدنے کے ساتھ ساتھ اُس کے حالات بھی پوچھتیں۔ ماسی نوراں کے منہ سے الحمدللہ اور شکر کے سوا کوئی بات نہ نکلتی۔ اگرچہ ماسی نوراں کا گھر ہمارے گھر سے ملا ہوا تھا۔ اکثر اس کے میاں کے دھاڑنے کی آوازیں آتی تھیں۔ اگر امی پوچھتیں ’’یہ تیرا میاں غصہ کس پر کرتا ہے؟‘‘ تو جھینپ کر کہتی ’’بی بی میرا بیٹا جمیل بات نہیں سنتا، اُس کا ابا غصہ کرتا ہے، پر بی بی وہ غصے والا تھا نہیں، دائمی پیچش کی بیماری نے اسے ایسا بنا دیا ہے، یقین کر بی بی پٹیالے میں سپاہی تھا میرا میاں، میرے بڑے لاڈ اٹھائے، میرا بڑا خیال کرتا تھا، میرے لیے روز کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتا تھا، مگر اب کیا کرے! ایک بیماری، دوسرے بے کاری۔ غصہ نہ کرے تو کیا کرے!‘‘ پھر ٹھنڈا پانی پی کر بھاری ٹوکری سر پر رکھ کر ’’سلام بی بی جی‘‘ کہتی ہوئی روانہ ہوجاتی۔
دوپہر سے پہلے پہلے سبزی بیچ کر وہ گھر جاتی۔ ظہر کے بعد سے مسلسل چکی چلنے کی آواز آنے لگتی۔ ماسی نوراں شہر کے نجانے کتنے گھروں کی مرچیں، ہلدی، دھنیا پیستی تھی۔ جب کبھی ہم کھیلتے ہوئے اس کے آنگن میں جاتے تو منہ پر دوپٹہ باندھے وہ چکی پیس رہی ہوتی۔ اس کی بیٹی زبیدہ گھر کے کاموں میں لگی ہوتی۔ اگرچہ عمر بارہ تیرہ برس سے زیادہ نہیں تھی لیکن گھر بہت صاف ستھرا ہوتا۔ ماسی کا بیٹا بڑا تھا مگر گھر میں کم ہی نظر آتا۔ ایک روز ماسی نوراں آئی تو بہت خوش تھی۔ بھاری ٹوکرا صحن میں رکھ کر بولی ’’مبارک ہو بی بی، میرا جمیل ملاجم ہوگیا ہے۔‘‘
’’ماشاء اللہ… ماشاء اللہ بڑی خوشی کی بات ہے‘‘۔ امی نے بھی مبارک باد دی، پھر پوچھا ’’کہاں ہوئی نوکری؟‘‘ تو بولی ’’بھٹی صاحب کی دکان پر منشی ہوگیا ہے۔‘‘
امی نے کہا ’’لیکن یہ کوئی پکی نوکری تو نہ ہوئی۔ خیر اس سے کہنا لگ کے محنت سے کام کرے، اللہ خیر کرے گا۔ کسی کام میں لگ تو گیا، ورنہ میٹرک کرنے کے بعد سے وقت ضائع کررہا تھا۔‘‘
جمیل کی نوکری کو کوئی مہینہ بھر ہی ہوا تھا کہ ماسی کا میاں بہت بیمار ہوگیا۔ میاں کی خدمت خاطر میں مصروفیت بڑھ گئی۔ ماسی نہ سبزی بیچنے جا سکتی تھی، نہ مسالا پیسنے کا وقت ملتا، لیکن ماسی نے میاں کی دوا دارو میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ ہاتھ تنگ ہونے پر ماسی نے بیٹے سے گھر کے خرچے میں ہاتھ بٹانے کو کہا تو اُس نے گھر سے جانے کی دھمکی دے دی۔ ماسی خاموشی سے اپنے جمع جوڑ سے جو برے وقت کے لیے بچا رکھا تھا، گزارا کرتی رہی۔
اُن دنوں ہماری بڑی آپا گھر آئی ہوئی تھیں جن کے دو چھوٹے بچے تھے۔ امی نے نوراں کی مدد کے خیال سے زبیدہ کو بچوں کا خیال رکھنے کی غرض سے اپنے گھر پر رکھ لیا۔ اس طرح وہ دو وقت کھانا گھر لے جاتی اور کچھ پیسوں سے ان کی مدد ہوجاتی۔ بڑی آپا کے جانے کے بعد بھی زبیدہ کو کپڑے دھونے اور استری کرنے کے لیے رکھ لیا گیا۔ اس طرح ماسی کی زندگی کچھ آسان ہوگئی۔ دو مہینے کی بیماری کے بعد ماسی کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ ماسی کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ اتنے دن کی محنت اور خدمت کے بعد وہ بہت کمزور ہوگئی تھی، ہر وقت مسکرانے والی ماسی حزن و ملال کی مورت نظر آتی تھی۔ لیکن تھی بہت باہمت، پھر سے چکی پیسنے کی مشقت شروع کردی۔
ادھر جمیل نے اپنی شادی کے لیے تقاضا شروع کردیا، ماں کی عدت کا بھی خیال نہ کیا۔ جمیل نوراں کے بھائی کی بیٹی زینب کے لیے اصرار کرنے لگا۔ بچی بہت اچھی اور سمجھ دار تھی، لیکن ماسی اپنے حالات کو دیکھ رہی تھی۔ اگرچہ وہ لوگ گائوں میں رہتے تھے مگر اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ ماسی کو یہ فکر تھی کہ وہ بچی غربت کے اس ماحول میں کیسے رہ پائے گی۔ جمیل بضد تھا کہ شادی اسی سے ہو۔ ناچار عدت کے بعد ماسی رشتہ لے کر گئی جو منظور ہوگیا۔
ماسی نوراں نے بیٹی کے لیے جمع کیا ہوا سامان نکالا اور عزت سے بہو گھر آگئی۔ شادی تو سادگی سے ہوئی لیکن ماسی نے سب قریبی رشتے داروں کو ہر موقع پر شریک کیا، لیکن ماسی کی بڑی نند ابھی تک روٹھی ہوئی تھی۔ شادی کو سال بھر ہوگیا تھا۔ زبیدہ اور ماسی آئے دن گائوں سے آنے جانے والے مہمانوں کی تواضع کرتے کرتے تھک چکی تھیں لیکن ماتھے پر بل نہیں آنے دیتی تھیں۔ زبیدہ کی خدمت گزاری اور سلیقہ مندی کو سبھی نے محسوس کیا۔ اس کے علاوہ وہ بہت کم گو اور تمیزدار بھی تھی جس کی سب نے تعریف کی۔
دوپہر کے کھانے کے برتن سمیٹنے کے بعد زبیدہ رات کی ہانڈی چڑھا رہی تھی۔ ماسی دالان میں رکھی لکڑی کی چوکی پر لیٹی تھی کہ بڑی نند پاس آکر بیٹھ گئی اور بڑی رازداری سے نوراں سے مخاطب ہوئی:
’’نوراں اب اپنی بیٹی کا خیال کر، کب تک بھائی بھابھی کی خدمت کروائے گی!‘‘ ماسی بولی ’’پر آپا، میری بیٹی تو ابھی بہت چھوٹی ہے، کچھ عقل سمجھ تو آئے‘‘۔ ’’نا بی بی نا! یہ نہ کہہ، بیٹیاں تو پیدا ہوتے ہی سیانی ہوتی ہیں‘‘۔ آپا بولی۔
’’تُو اس کا کچھ خیال نہ کر، میرا فیقا ہے نا۔ گھر کا بچہ ہے، کوئی غیروں میں تھوڑا ہی جانا ہے‘‘۔ یہ سن کر ماسی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ فیقا جو ایک بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور کئی بار دنگے فساد کی وجہ سے حوالات کے چکر بھی لگا چکا تھا، اس کے علاوہ زبیدہ سے دگنی عمر۔ ماسی گھبرا کر بولی ’’نا آپا جیناں، میری زبیدہ بڑی معصوم ہے، اسے تو دنیا کا کچھ پتا ہی نہیں ہے‘‘۔ آپا جیناں اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی ’’تو اس غریبی میں کوئی نواب آئے گا تیری بیٹی کو بیاہنے؟ میں تو تیرے بھلے کی بات کررہی ہوں۔‘‘
اتنے میں ماسی کی بہو زینب کمرے سے باہر آئی تو آپا جیناں اسے دیکھ کر خاموش ہوگئی، لیکن شام کو جاتے جاتے ماسی کو ایک بار پھر سوچنے اور جمیل سے مشورہ کرنے کی تاکید کی۔ آپا جیناں کی باتوں نے ماسی کو پریشان کردیا تھا۔ فیقہ کا خیال ہی اُسے دہلائے دے رہا تھا۔
زینب نے ماسی کی کیفیت دیکھی تو پاس آکر بیٹھ گئی اور اِدھر اُدھر کی باتوں سے اس کا دل بہلانے کی کوشش کرنے لگی۔ بہو کی دلداری نے ماسی کو کچھ مطمئن کیا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ زینب خاصی سمجھ دار ہے، شاید اس نے آپا جیناں کی باتیں سن لی تھیں۔زبیدہ پسینے میں شرابور دالان میں آئی تو زینب اسے دیکھ کر کھڑی ہوگئی۔ ’’زبیدہ اب تُو ذرا ہوا میں بیٹھ، میں آٹا گوندھ کر روٹی بنا لوں گی۔ سارا وقت کام میں جٹی رہتی ہے۔‘‘
’’نا بھابھی نا، ابھی تو تم کو میری روٹیاں ہی کھانی پڑیں گی۔‘‘
ماسی بیٹی اور بہو کا پیار دیکھ کر نہال ہوگئی اور بڑی محبت سے بولی ’’نہ ووہٹی ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں، کام تو ساری عمر کرنا ہی ہے۔ یہ دن تو آرام کرنے کے ہیں، تو کیا جانے ہمارے زمانے میں کتنے لاڈ اٹھائے جاتے تھے۔ میں نے جمیل کی پیدائش تک کوئی کام نہیں کیا، اللہ بخشے میری ساس کہتی تھیں یہ دو‘ دو نندیں کس لیے ہیں، انہیں پرائے گھر جانا ہے، سیکھنے دو انہیں کام۔‘‘ دن پَر لگا کر اُڑ گئے، گھر کے ماحول نے جمیل کو بھی آدمیت سکھا دی۔ زینب نے ماسی سے چکی چھڑوا دی اور گھر کا تمام خرچا جمیل سے لیتی۔
اللہ کی مہربانی اور زینب کی سلیقہ مندی سے گھر میں رحمت اور برکت نظر آنے لگی تھی۔ فارغ وقت میں وہ زبیدہ کو کروشیا اور کڑھائی بھی سکھاتی۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ زبیدہ نے کھچڑی بنائی تھی، ساتھ چٹنی اور اچار تھا۔ زینب نے حلوہ بھی بنایا تھا۔
ابھی کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ آپا جیناں آدھمکیں اور آتے ہی جمیل سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں ’’خود تو شادی کرکے بیٹھ گیا ہے، کچھ بہن کی بھی فکر ہے، یا اس سے خدمت ہی کرواتا رہے گا۔ میں نے تمہاری ماں سے ایک بات کہی تھی اور آج میں اس کا جواب لے کر ہی جائوں گی۔‘‘
ماسی نے بڑے تحمل سے آپا سے کہا ’’پہلے کھانا تو کھا لو، پھر آرام سے بیٹھ کر بات بھی کرلیں گے۔‘‘
خیر، آپا جیناں ہاتھ دھوکر کھانا کھانے بیٹھ گئیں۔ کھانے کے بعد جب سب دالان میں بیٹھ گئے تو آپا جیناں نے پھر اپنی بات دہرائی۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا، زینب نے ماسی سے کہا ’’اماں میں نے گھر میں زاہد کے لیے بات کی تھی، وہ انٹر پاس کرکے آگیا ہے اور ابا کے ساتھ زمینوں کا کام سنبھال رہا ہے، میری اماں نے زبیدہ کے لیے رشتہ مانگا ہے۔ آپ کہو تو اگلے ہفتے رسم کرلیں‘‘۔ آپا جیناں چیں بچیں ہوکر بولیں ’’لو اور سنو، رشتہ تو میں پہلے ہی لا چکی ہوں اپنے فیقہ کا۔ زبیدہ میرے بھائی کی اولاد ہے، پہلا حق میرا بنتا ہے‘‘۔ جمیل بڑے تحمل سے بولا ’’بوا رشتے تو زبیدہ کے پہلے بھی آچکے ہیں لیکن میری بہن میری ذمہ داری ہے، وہی ہوگا جو اس کے لیے اچھا ہو۔ زاہدکو میں جانتا ہوں، نیک بچہ ہے اور عمر بھی مناسب ہے، فیقہ اور زبیدہ کی عمر میں بڑا فرق ہے‘‘۔ آپا جیناں تپ گئیں اور بولیں ’’لو، مردوں کی عمر کون دیکھتا ہے، اچھی خاصی کمائی کرلیتا ہے، سُکھی رہے گی۔‘‘
جمیل بہت سنجیدگی سے بولا ’’نا بوا، فیقہ کے لیے کوئی اور رشتہ دیکھو‘‘۔ بوا جیناں بھنّا کر اٹھیں اور چادر اٹھاکر جانے لگیں۔ ماسی نوراں روکتی رہ گئی مگر وہ سخت غصے میں بڑبڑاتی ہوئی چلی گئیں۔
زینب بڑی بھاگوان بہو ثابت ہوئی۔ شاید ماسی نوراں کو زندگی بھر کے صبر اور شکر کا پھل مل رہا تھا۔ لیکن ماسی نوراں بھی فارغ بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھی، اس نے کمربند بُننے کا کام شروع کردیا تھا۔ رنگ برنگے دھاگوں میں الجھی رہتی اور خوب صورت کمربند اور پراندے بنایا کرتی۔ ماسی نوراں کے چہرے کی دائمی مسکراہٹ پھر سے لوٹ آئی تھی۔ زبیدہ کی شادی کی تیاری میں بھی زینب نے اپنی ہنرمندی اور سلیقہ دکھایا، سلائی کڑھائی خود بھی کی اور زبیدہ سے بھی خوبصورت میز پوش اور پلنگ پوش بنوائے۔ جس روز زبیدہ کی شادی ہوئی اُس روز ماسی نوراں کے چہرے پر عجیب اطمینان تھا۔ سب لوگوں سے بڑی محبت اور شکر گزاری کا اظہار کررہی تھی۔زینب، زبیدہ کے ساتھ ہی چلی گئی کیوں کہ اُسے اپنے بھائی کے شگن منانے تھے۔
ماسی نوراں رات کو جمیل سے بہت دیر تک باتیں کرتی رہی۔ پھر وہ دالان میں سونے چلی گئی۔ صبح جمیل سوکر اٹھا تو کافی دن چڑھ آیا تھا۔ نلکے پر ہاتھ منہ دھوکر جب وہ دالان میں آیا تو دیکھا کہ ماسی ابھی تک سو رہی تھی۔ اس نے قریب جاکر پکارا، لیکن کوئی جواب نہ پاکر چہرے سے چادر ہٹائی تو ماں کے چہرے پر ایسی ملکوتی مسکراہٹ تھی کہ جو کبھی نہ دیکھی تھی۔ ماسی نوراں خاموشی سے اپنے مالکِ حقیقی کے گھر سدھار چکی تھیں۔
والدین کے لیے سوالات
-1 کیا آپ ایک اچھے اسکول کی پہچان رکھتے ہیں؟
-2 کیا آپ ایک اچھے استاد کی شناخت کرسکتے ہیں؟
-3 اگر آپ کا بچہ اسکول جاتا ہے تو کیا آپ باقاعدہ اُس کے اسکول جاتے رہتے ہیں؟
-4 کیا آپ کو باقاعدہ اسکول میں آنے کی دعوت دی جاتی رہی ہے، وجہ خواہ کچھ بھی ہو؟
-5 کیا آپ کو بچے کے بارے میں کچھ معمولی مسائل، از قسم بھدی لکھائی، کسی شیطان بچے کی چھیڑ چھاڑ، گھر کا کام نہ ہونے کے برابر کرنے وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل درپیش ہیں، تو کیا آپ ان مسائل کے حل کی خاطر اعتماد کے ساتھ اسکول جا سکتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ وہاں اسکول میں کس سے رابطہ کرنا ہے؟
-6 کیا آپ کو بچے کے بارے میں کوئی اہم تشویش ہے جیسے اسکول سے خوف آنا، معمولی کارکردگی، بلا اطلاع اسکول سے غیر حاضری، کسی کی دھونس وغیرہ… تو کیا آپ اس کے بارے میں اعتماد سے اسکول والوں سے بات چیت کرسکتے ہیں؟
-7 کیا آپ کو اعتماد ہے کہ آپ کے بچے کو ماہر اساتذہ بڑے اچھے انداز میں پڑھا رہے ہیں؟
-8 اگر آپ کا بچہ اس وقت پرائمری اسکول میں ہے تو کیا آپ اپنے گردونواح میں کسی خاص ثانوی اسکول سے متعارف ہیں، جسے آپ دوسرے اسکولوں پر ترجیح دیں گے۔ نیز کیا آپ مطمئن ہیں کہ آپ اچھے اسکول کا انتخاب کرسکتے ہیں؟
-9 کیا آپ کو کچھ عام سی معلومات حاصل ہیں کہ راہنمائی اور پیمائش کی جدید آزمائشیں آپ کے بچے پر کیسے اثرانداز ہوسکتی ہیں؟
-10 کیا آپ اپنے بچے کے اسکول سے خوش ہیں، اور اسکول کے طریقۂ تعلیم سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ کا بچہ بھی آپ کی طرح خوش اور مطمئن ہے؟