وقت ہی نہیں ملتا

495

سروے: مریم شہزاد
آج کل ہر کسی کی زبان پر بس ایک ہی جملہ ہے ’’وقت ہی نہیں ملتا‘‘۔ بات تو سچ ہے مگر سمجھ کسی کے نہیں آتا کہ وقت کیوں نہیں ملتا؟ وہی صبح ہے، وہی شام ہے، سہولیاتِ زندگی میں بھی اضافہ ہی ہورہا ہے، مگر پھر بھی وقت کی کمی کا گلہ کرنے میں مردوزن دونوں شامل ہیں۔ لیکن اس وقت ہم صرف خواتین کی بات کریں گے کہ آخر وقت کیوں نہیں ملتا؟ جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ گھریلو استعمال کی مشینری ہر گھر میں موجود ہے جو گھنٹوں کا کام منٹوں میں اور منٹوں کاکام سیکنڈوں میں کردیتی ہے، اس کے باوجود خاص کر عورتیں ہی وقت کی کمی کا رونا زیادہ روتی نظر آتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم پچھلا دور دیکھیں تو اس میں مسالا پیسنے سے لے کر کپڑے دھونے تک کے سارے کام خود عورتیں اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں، اس کے باوجود ظہر کی نماز تک فارغ ہوجاتی تھیں، اور پھر بھی ان کے پاس وقت اور توانائی کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔ بچے بھی ماشاء اللہ کم از کم پانچ تو لازمی ہوتے تھے، مگر سب صاف ستھرے اور تہذیب یافتہ۔ صحت پر مکمل توجہ دی جاتی تھی جس کے لیے اچار، مربے، چٹنیاں، اور بچوں کے لیے اچھے اور مزے دار کھانے وغیرہ بھی گھر پر ہی بنائے جاتے تھے۔ ’’کھلائو سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘ کا اصول مدنظر رکھتے تھے۔ اتنے سارے کاموں کے باوجود ملنا ملانا، پڑوسیوں کی خیر خبر، بیماروں کی عیادت اور تیمارداری کے لیے بھی وقت ہی وقت تھا۔ آج بھی یقینا بہت سے گھرانے ایسے ہوں گے جہاں کے مکینوں کے پاس وقت کی کمی نہیں ہے، مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے کچھ خواتین سے بات چیت کی ہے تاکہ وہ وجوہات معلوم ہوسکیں جن کی وجہ سے عورتیں وقت کی کمی کا شکار ہورہی ہیں۔
مسز سلیم کے خیال میں اس کی ایک بڑی وجہ گھر کے مردوں کا دیر سے کاروبار یا نوکری پر جانا ہے، جس کی وجہ سے گھریلو کام بھی دیر سے شروع ہوکر دیر سے ہی ختم ہوتے ہیں، یا کچھ عورتیں مردوں کوکام پر اور بچوں کو اسکول بھیج کر دوبارہ سو جاتی ہیں، جس سے بقول ہمارے بزرگوں کے، نیستی ہوتی ہے اور برکت اٹھ جاتی ہے، اور وقت بھی نہیں بچتا۔
…٭…
فرحانہ فیروز کہتی ہیں کہ وقت تو بہت ہے مگر اس کے صحیح مصرف کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہے، اور یہ رہنمائی گھر کے بڑوں، اور علماء کو کرنی چاہیے، بلکہ سب کو ایک دوسرے کے لیے اچھی سوچ کے ساتھ رہنمائی کرنی چاہیے۔ ہمارے بڑے وقت کا درست استعمال جانتے تھے۔ آج ہم وقت ضائع کرتے ہیں۔ وقت سب کے پاس ہے، بے لوث محبتیں ختم ہوگئی ہیں، جذبے ختم ہوگئے ہیں۔
…٭…
ثوبیہ الیاس وقت کی کمی کا باعث بچوں کی اچھی پرورش اور تربیت میں مگن ہونے کو بتاتی ہیں، کہتی ہیں کہ اچھی ماں بننا ایک فل ٹائم جاب ہے، اور اس کے بعد گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کے بعد کسی اور کام، حتیٰ کہ اپنے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔
…٭…
فاطمہ عبدالخالق کی رائے ہے کہ وقت تو ہر شے کے لیے ہوتا ہے لیکن ہم لوگ سوشل میڈیا پہ اتنا زیادہ وقت صرف کرڈالتے ہیں کہ باقی چیزوں کے لیے وقت کی قلت ہوجاتی ہے۔ اگر کاموں کے لیے ٹائم ٹیبل بنالیا جائے تو وقت ہی وقت ہوگا۔
…٭…
بشریٰ باڑی کے نزدیک وقت زندگی ہے، اسی لیے تو اس میں برکت کی دعا بھی سکھائی گئی ہے۔ ہمارے وقت میں سے برکت لے جانے والی چیزیں سیل فون، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا ہیں، ان کا درست استعمال بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس چیز کے لیے آپ وقت نکالنا چاہتے ہیں، نکل آتا ہے…اصل بات ہے لگن کی۔
…٭…
حیا کہتی ہیں: وقت تو شاید ہوتا ہے لیکن ہمیں اس وقت کو کارآمد بنانا نہیں آتا۔
…٭…
ہما فیصل کے مطابق: وقت کو صحیح استعمال میں لینا آجائے تو پھر وقت ہی وقت ہے۔ آج کل جس سے بھی ملو وہ یہی کہتا ہے کہ ٹائم نہیں ہے۔ مگر ہم مسلمان ہیں اور ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بھی سکھائی ہے کہ ’’اے اللہ ہمارے اوقات میں برکت عطا فرما‘‘، اور یہ بھی بتایا کہ اللہ نے صبح کے وقت میں برکت رکھی ہے۔ میرے طریقہ زندگی میں یہ الفاظ نہیں ہوتے، اگر میں کوئی کام نہیں کرپاتی تو یقینا اس میں میری اپنی کوئی کوتاہی ہوتی ہے۔ میں سب کاموں کی پلاننگ کرلیتی ہوں۔ جب ہم کسی بھی چیز پر زیادہ فوکس کرتے ہیں جیسے آج کل سب موبائل سے پریشان ہیں کہ پانچ منٹ کی چیز دیکھنے میں دو گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں اور پتا بھی نہیں چلتا تو ٹائم نہیں ملتا۔ ہر کام کو اتنا ہی وقت دیں جتنا اُس کا حق ہے چاہے کھانا کھانا ہو یا پکانا، سونا ہو یا شاپنگ، ٹی وی ہو یا موبائل یا اور کچھ… پلاننگ بہت ضروری ہے۔ یہ ہم کو خود بھی سیکھنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی سکھانا ہے ۔
…٭…
گل رعنا نسیم اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتیں کہ ٹائم نہیں ملتا۔ وہ کہتی ہیں: ہمارے دین میں صبح سویرے کی برکات کو خاص اہمیت حاصل ہے، اگر ہم اس بابرکت وقت میں اپنا کام شروع کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنی ساری ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام نہ دے سکیں۔ وقت کی کمی کی شکایت اُن کو ہوتی ہے جو اپنا وقت منظم نہیں کرپاتیں۔ اس کی وجہ زیادہ سونا، موبائل یا کچھ بھی ہوسکتی ہے، یا پھر وہ ترجیحی کام کو آخر میں رکھ کر غیر ضروری کام پہلے انجام دے رہی ہوتی ہیں۔ ٹائم تو سب خواتین کو یکساں ملتا ہے، کچھ اس میں گھریلو کام کے ساتھ معاشی ذمہ داریاں بھی اٹھا لیتی ہیں، جبکہ کچھ دین کے کاموں میں بھی سرگرم رہتی ہیں۔
…٭…
ثمرین سلیم کہتی ہیں: سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو یہ شکایت کیوں ہوتی ہے کہ وقت نہیں ملتا! اگر صبح جلدی اٹھ جائیں تو سب کام خودبخود ٹھیک ہوجاتے ہیں، اور پھر اپنے لیے بھی آسانی سے ٹائم مل جاتا ہے۔ صرف روٹین سیٹ کرنا ہوتا ہے اپنے گھر کے ماحول کے حساب سے۔
…٭…
ڈاکٹر عزیزہ انجم کہتی ہیں: بات تو آپ نے درست پوچھی ہے، ہر شخص یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ ٹائم نہیں ہے۔ اصل میں اہم اور غیر اہم کاموں کی تقسیم ایک کامیاب اور متحرک شخص کے لیے بہت ضروری ہے۔ وقت ہی سب سے قیمتی ہے، اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں بہت سے کام کرنے ہیں۔ اگر وقت کو اہم اور ضروری کاموں میں لگایا جائے تو قدرے غیر اہم کاموں کے لیے وقت نہیں نکلتا۔ اگر ایسا ہو تو گھبرائیں نہیں۔
…٭…
نورالعین کے خیال میں ایسا لگتا ہے گویا وقت پَر لگا کر اُڑ گیا ہو، لیکن سچ مانیں تو ایک بات نوٹس کی، اور وہ یہ کہ فجر کے بعد سے اگر کاموں کو ترتیب وار کیا جائے تو جلد نمٹ جاتے ہیں اور آرام کے لیے بھی وقت مل جاتا ہے۔ وہ مصروفیات جن کی وجہ سے وقت نہیں ملتا: گھر میں اگر کوئی بیمار ہوجائے تو ان دنوں سارا روٹین ہل جاتا ہے اور سیٹ ہونے میں خاصا وقت لیتا ہے۔ کبھی دیر سے آنکھ کھلے، یا کوئی اسائنمنٹ مل جائے تو ٹائم مینج کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
…٭…
رابعہ عمر کہتی ہیں: الحمدللہ مجھے وقت کی کمی یا اتنی مصروفیت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ میرے خیال سے اگر ٹائم مینجمنٹ سے ہر کام کیا جائے تو اس طرح کی پرابلم نہ ہو۔ باقی بات ترجیح کی بھی ہے کیونکہ جس کام میں ہماری دلچسپی ہوتی ہے اس کے لیے ہم ہر حال میں وقت نکال ہی لیتے ہیں۔
…٭…
یہ مختلف خواتین کی آراء اور تجاویز ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پہلے وقت میں برکت اسی وجہ سے تھی کہ لوگ دن کو دن اور رات کو رات سمجھتے تھے اور اسی کے مطابق سوتے جاگتے اور کام کرتے تھے، مگر اب جبکہ قدرت کے اصولوں کو پامال کیا جارہا ہے تو وقت بھی ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے ۔

حصہ