سائرہ بانو
چھوٹی بہن ناجو کا فون آیا ’’باجی، زرباب کی گریجویشن کی تقریب ہے، میرے ساتھ چلیں۔ امجد کی نئی نئی پوسٹنگ ہوئی ہے، اُن کو فرصت نہیں ہے‘‘۔ لہجے میں اتنا پیار اور اندازِ گفتگو اتنا نرم کہ میں اپنی چھوٹی بہن کو منع نہ کرسکی، دن اور وقت معلوم کیا اور ساتھ جانے کی ہامی بھرلی۔ ایک دن پہلے ہی گھر بھر کے کام سمیٹنے تھے جو میں نے الحمدللہ پورے کیے، تاکہ تعلیمی سرگرمیوں میں وقت پر پہنچا جاسکے، چھوٹے بیٹے کی اسکول سے چھٹی لی تاکہ ناجو کے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔ زرباب بھائی بہنوں میں بڑی ہے۔ بہن کو فکر اپنے بچوںکی تھی، چار سے پانچ گھنٹے لازمی لگ سکتے تھے۔
ہم لوگ تاخیر سے پہنچے۔ گاڑیوں کی قطار در قطار تھی۔ زرباب نے اپنی گاڑی کی جگہ بنائی۔ ہم دونوں اس کے ساتھ ہولیے۔ داخل ہونے سے پہلے گائون اور کیپ پہنے زرباب نے رجسٹریشن کارڈ کی وصولی کی۔ پھر ہم لوگ کہیں جاکر ہال میں پہنچے۔ زرباب اپنی دوستوں میں گم ہوگئی۔ ہماری پوری کوشش رہی کہ وقت پر پہنچا جاسکے، کیوں کہ ڈگریاں تقسیم ہوں گی۔ والدین کی قطار در قطار تھی لیکن مہمانانِ گرامی پورے نہیں تھے۔ یہاں پر وقت کی ناقدری دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ جب استادانِ گرامی کا حال یہ ہے تو طالب علموں سے امید بے کار تھی۔ دس بجے کا پروگرام ساڑھے گیارہ کے بعد شروع ہوا۔ آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔ حمد و نعت لڑکوں نے سنائی۔ پھر جو مہمان تقریر کرنے آئے انہوں نے طالبات کو آگاہ کیا کہ آپ جھاڑو برتن نہیں کریں گی، آپ گریجویٹ ہیں، آپ معاشرے کا بہترین فرد بنیں گی۔ یعنی آپ نوکری کرکے روپے پیسے کمائیں گی، گھر کے مردوںکی محتاج نہیں رہیں گی۔ یہی الفاظ لڑکوں کے لیے تھے کہ آپ انجینئر بنے ہیں، ڈاکٹر بنے ہیں، کوئی معمولی نہ سمجھے ان ڈگریوں کو کہ معمولی سی جاب کرلے۔ میں ان کی تقریروں میں اتنی کھو گئی کہ پتا ہی نہ چلا کہ کب زرباب آئی، فوٹو سیشن کیا اور چلی گئی۔
ہمارے نوجوانوں کو کیا یہ غلط سبق نہیں دیا جارہا ہے؟ یہ تو نری معاشرے کے بگاڑ کی کوشش ہے۔ نہ لڑکی گھر کا کام کاج کرے گی، نہ لڑکا مطلوبہ جاب ملنے سے پہلے کوئی اور کام کرے گا۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی اپنے ماحول، معاشرے کی اچھائی اور برائی سے خوب واقف ہوگی اور سسرالی رشتے داروں سے بحسن و خوبی پیش آسکے گی۔ ایسے ہی ایک لڑکا تعلیمی میدان سر کرتا ہے تو اپنا وقت صرف اور صرف کمانے میں ہی نہیں لگانا چاہیے، بلکہ دین و دنیا دونوںکو بہتر طریقے سے لے کر چلنا چاہیے۔ تعلیم آگہی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کو یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا۔ یہ تصور دینا غلط روش ہے۔
منجمد کھانے
آج کل کھانوں کو منجمد کرنے کا رواج ہر گھر میں ہے۔ بغیر پکا ہوا گوشت فریزر میں رکھنے کی وجہ سے بھی کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اکثر خواتین فریزر میں گوشت کا ڈھیر لگاتی رہتی ہیں اور پہلے سے رکھا ہوا گوشت ڈھیر میں چھپ جاتا ہے، اس طرح وہ جلد استعمال نہیں ہوپاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فریزر سے گوشت، مرغی یا مچھلی پکانے کے لیے نکالی، اسے پانی میں ڈال کر پگھلنے رکھ دیا اور کسی وجہ سے وہ پکائی نہ جاسکی تو دوبارہ فریز کردی۔ یہ انتہائی خطرناک طرزعمل ہے، کیوں کہ منجمد خوراک کا درجہ حرارت جوں ہی کم ہوتا ہے بیکٹریا کی افزائش شروع ہوجاتی ہے۔
ٹوسٹرز
ان کی صفائی کرنا مشکل ہے، ان کو گھریلو قاتل بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں ہزاروں افراد کو کرنٹ لگنے اور ان کی موت واقع ہونے میں ٹوسٹرز کا بھی ہاتھ ہے۔ اس سے لگنے والا الیکٹرک شاک کمزور افراد کے لیے موت کا پیغام بن سکتا ہے۔ ناشتے کے وقت جلدی جلدی میں اکثر خواتین ٹوسٹر سے ڈبل روٹی کو نکالنے کے لیے چھری یا چمچ استعمال کرلیتی ہیں، الیکٹرک سے میٹل ٹکراتا ہے تو برقی شعاعوں کا اخراج زیادہ تیزی سے ہوتا ہے اور یوں سامنے والا کرنٹ لگنے سے بچ نہیں پاتا۔