قدسیہ مدثر
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا جو ایک کشمیری بچی فاطمہ پر گزرے اذیت ناک لمحات کی علامتی منظر کشی تھی۔ اس کلپ کے پس منظر میں کشمیریوں کا سوچ کر دل دہل سا گیا کہ پتا نہیں 175 دنوں کے شدید کرفیو میں کتنی فاطمہ ایسے عذابوں سے گزر رہی ہوں گی، کلپ میں دکھایا گیا کہ ایک معصوم کشمیری بچی فاطمہ کو بھائی کی سالگرہ مناتے۔ اسکول جاتے گڑیا کے ساتھ کھیلتے دکھایا گیا۔ اس کے والد بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم تھے جن کے ایک ہفتے بعد کی آمد نے فاطمہ کی خوشی کو چار چاند لگا دیے۔پھر !!!
بریکنگ نیوز چلتی ہے کہ بھارتی فورسز نے وادی پر کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ بیمار بچی خوف زدہ ہو کر ماں سے لپٹ جاتی ہے پھر چند بھارتی فوجی دروازہ توڑتے آتے ہیں اور عزیز ازجان بھائی کو لے جاتے ہیں اور کچھ دیر بعد اس کی ماں کو لے جاتے ہیں اور بھائی کا لاشہ چھوڑ جاتے ہیں۔اور فاطمہ بھائی کی لاش کو سامنے رکھے محو حیرت ہے۔جو خیالوں میں بھائی سے آزادی کا مطلب پوچھ رہی ہوتی ہے جو اسے کہتا تھا بڑی ہو گی تو بتاؤں گا۔پھر فاطمہ نے گھر میں ہی اپنے بھائی کی قبر کھودتے ہوئے آزادی کا مطلب اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔اور ساتھ ہی یہ کہتی رہی ہم لیں کے رہیں گے آزادی۔ہے حق ہمارا آزادی۔
یہ کہانی ہے کشمیر کے ہر گھر کی جہاں ہزاروں معصوم بچے اس سانحے سے روزانہ گزرتے ہیں۔اور آزادی کی قدرو قیمت کیا ہوتی ہے یہ ہم آزاد فضا میں سانس لینے والے کیا جانیں۔
کشمیریوں کی 71 سالہ جدوجہد خون ریزی کی ایک داستان ہے جسے سب لوگ اس طرح پڑھا کریں گے۔جیسے آج کشمیریوں کی دہائی ہر ریاست کے لیے صرف ایک تلخ حقیقت کے سوا کچھ نہی۔
کشمیر بنے گا پاکستان پہلے ایک آرزو تھی ایک حق کی آواز تھی آزادی کی ایک آس تھی۔لیکن اب کشمیر ایک خواب ہے جس کے مکمل ہونے کی تعبیر بھی بس ایک خواب دکھائی دیتی ہے۔
26 جنوری بھارت میں یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔جبکہ پوری دنیا میں بسنے والے کشمیری یوم سیاہ مناتے ہیں۔کشمیری یوم سیاہ منا کر عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ بھارت کو یہ حق نہی کہ وہ یوم جمہوریہ منائیں کیونکہ بھارت کے سب سے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا جو وعدہ کیا تھا اسے اب تک پورا نہیں کیا گیا۔اگر دیکھا جائے تو بھارت جو نام نہاد جمہوریت کا دعویدار ہے جس نے اپنے ملک میں انارکی پھیلا کر شہریت کا قانون پاس کروایا۔ جس میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی انہیں اپنے ملک میں بیگانہ قرار دینا۔ ان سے شہریت کا حق چھین لینا۔ جمہوریت کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔
اس نام نہاد جمہوریت نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو پامال کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو سات لاکھ فوج کی مدد سے کالونی بنا رکھا ہے۔جہاں بھوک پیاس بنیادی ضروریات سے محرومی۔علاج کی سہولتوں کا میسر نا ہونا۔اپنوں کی دوری۔آزاد فضا میں سانس نا لینا۔ایک المیہ بن گیا ہے۔جموں کشمیر میں گرتی لاشیں۔لٹتی عزتیں۔بہتے خون اور گونجتی معصوم چیخوں پر سے آنکھیں اور کان بند کرکے اگلا دن داخل ہو جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر لاک ڈاؤن کو 6 ماہ گزر گئے۔پوری وادی میں انسانیت سسک رہی ہے اور بلند چنار جل رہے ہیں۔دنیا بھر کے کشمیری بھارت کے یوم جمہوریہ پر یوم سیاہ منا کر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جمہوریت زدہ قومیں کیسی ہوتی ہیں۔
جس ملک کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا آئین سیکولر ہے اور یہاں تمام اقلیتوں کو آزادی حاصل ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو بھارت میں رہنے والے اقلیتیں شہریت کے بل کو لے کر سڑکوں پر کیوں نکل آئیں۔کیونکہ ان کے حقوق کو سلب کر کے جمہوریت کو گالی دی جا رہی ہے۔کشمیر۔آسام۔مشرقی پنجاب میں بے چینی کیوں ہے ؟
بھارتی وزیرخارجہ نے اس بل کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان‘ بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک میں اذیت زدہ ہندوؤں کے لیے شہریت بل ہے۔ جو اس ملک سے آئے اور ہندوستان میں آباد ہوئے۔ نیشنل رجسٹریشن بل دراصل ایک بھارتی شہریت بل ہے۔جو 1955 بھارتی ایکٹ کی ترمیمی صورت ہے۔2013 میں اس ایکٹ پر ترمیم ہوئی۔ اور بھارت حکومت کا دیرینہ منصوبہ 2021 میں اس قانون کو پورے ملک میں نافذ کرنا ہے۔
لگتا تو کچھ یوں ہے کہ بھارت “نازی اقدام ” کی طرح عمل کرنے جا رہا ہے ہٹلر نے جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن فوجوں کو حکم دے کر ہولوکاسٹ کا آغازکیا تھا۔جس میں یہودیوں کو چن چن کر مارا گیا۔اس طرح مذہب اور نسل پرستی کی بنیاد پر جنگ چھڑ گئی۔اس مثال کو بھارت دوبارا دوہرانا چاہتا ہے۔۔
عمومی طور پر جمہوریہ ایک خود مختار ریاست کا دوسرا نام ہے جہاں ریاست میں ذیلی انتظامی و سیاسی اکائیاں وجود رکھتی ہیں۔اور پارلیمنٹ کے افراد ملک کے فیصلے باہم رضا مندی سے کرتے ہیں لیکن خود کو جمہوریہ کہنے والا بھارت خود اپنے کی ملک میں انتشار کو ختم نہیں کر پا رہا۔بلکہ مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔
حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے 71 سال سے کس جواز کے تحت آزادی کا جشن منا رہا ہے۔جبکہ بھارت نے پوری وادی کا آذادی کا حق چھین رکھا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں قبرستانوں میں پچھلے دس سالوں میں اسی ہزار نئی قبروں کا اضافہ ہوا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔جمہوری ملک ہونے کے دعویدار کی حیثیت سے بھارت کا فرض تھا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ جمہوری انداز سے حل کرتا لیکن اس نے ہمیشہ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔اور بھارت یہ بات خوب جانتا ہے کہ کتنی لاکھوں فوجیں کشمیر پہ مسلط کر دیں لیکن کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہی کیا جاسکتا۔حریت راہنما سید علی گیلانی نے ہمیشہ اپنے خطاب میں کہا مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج کے مکمل انخلا اور حق خود ارادیت کے حصول تک کشمیری عوام کی جدوجہد جاری رہے گی۔یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے طاقت کا اندھا استعمال کیا جاتا ہے۔اور تمام پاکستانی قوم یہ مطالبہ کرتی ہے کہ تمام امت مسلمہ اور عالمی برادری کشمیر میں بھارتی مظالم کو روکنے کے لئے اہم کردار ادا کرے۔OIC کا اجلاس بلا کر کشمیر کے ممکنہ حل کی طرف پیش رفت کی جائے اور کشمیریوں کے حق رائے دہی کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بنیادی حق خود ارادیت دیا جائے ۔