طلعت نفیس
ندا اسکول سے باہر آئی تو اس کی تلاشتی ہوئی نگاہیں چاروں طرف گھوم رہیں تھیں۔
راحمہ… وہ بچہ نظر نہیں رہا؟ پھر خود ہی بولی۔
ہاں آج اس کی اماں کا آپریشن ہے۔ بیچارہ اکیلا بچہ پھر اس کے اوپر چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی تو ہے۔
بس بھی کرو ندا وہ وین کی طرف جاتے ہوئے بولی۔ ہر وقت اس کے بارے میں ہی سوچتی اور باتیں کرتی ہو۔ مجھے تو وہ فراڈ لگتا ہے۔ راحمہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
ندا اور راحمہ ایک مقامی اسکول میں میٹرک کی طالبِ علم تھیں۔ وہ بچہ ان کے اسکول کے باہر ایک تھال میں کالے چھولوں کی چاٹ لاتا اور بیچتا مگر آئے دن وہ غائب ہو جاتا تھا۔ ندا گھر پہنچی جب اس کے خیالات کا دائرہ اس کے گرد ہی گھوم رہا تھا۔
ندا کی فیملی میں دو بھائی اور وہ سب سے بڑی اور اکلوتی تھی۔ امی ابو اور اس کی دادی ساتھ رہتی تھیں اور ندا اپنے گھر میں بھی یہ ہی دیکھتی تھی کے اس کی دادی بھی حیثیت کے مطابق ہر ایک کی مدد کرتی تھیں۔ اس لڑکے راجو کے لیے بھی وہ کئی دفعہ دادی سے مانگ کر پیسے لے جاتی۔ مگر دادی وہ تو کام کرتا ہے۔ چھولے بیچتا ہے۔ کوئی بھیک تو نہیں مانگتا نا۔ ندا بولی۔
بیٹا… بس جو کرو سوچ سمجھ کراکرو۔ امی بولیں۔
ٹھیک ہے ندا فرمانبرداری سے بولی۔
پچھلے دو دنوں سے وہ پھر غائب تھا۔ اور آج جمعہ تھا۔ ندا گھر پہنچی تو ماسی صفائی کررہی تھی۔
بھائی بھی گھر میں ہی تھا۔ رات کو سب گھر والے ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے۔ ابو بھی ہاتھ دھو کر آگئے۔
دادی نے با آواز بلند کھانے کی دعا پڑھی۔ پھر سب نے کھانا شروع کیا۔
آپ کی تنخواہ مل گئی۔ امی نے سوال کیا۔
ہاں… ابو نے امی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
وہ ماسی کو پیسوں کی ضرورت تھی اس کی بیٹی کی طبیعت خراب ہے۔ امی نے روٹی دادی کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے۔ اس کو تنخواہ کے علاوہ بھی کچھ دے دینا۔ ابو بولے۔ اب ندا کا دماغ پھر راجو کی طرف گھوم… واہ یہ کیا بات ہوئی میں جب کسی کی مدد کو کہتی ہوں۔ تو مجھے اتنا لمبا لیکچر ملتا ہے۔ وہ بھی تو بچہ ہے کسی کا… اس کی ماں کی طبیعت خراب ہے۔ ان کا اگر فوری آپریشن نہ ہوا تو وہ مر جائیں گی۔ سارے گھر کی ذمہ داری اس پر ہے۔ نداروتی ہوئی کمرے سے چلی گئی۔
ابو کو کچھ معلوم نہ تھا وہ سوالیہ نظروں سے امی کو دیکھنے لگے۔
امی نے ابو کو پوری بات بتائی۔ دراصل وہ بہت حساس ہے۔ ہر ایک کا دکھ اپنے دل پر لے لیتی ہے۔ اور کچھ ہمارے گھر کے ماحول کا بھی اثر ہے ورنہ بچے کہاں ایسے ہوتے ہیں۔ اپنی موبائل اور ٹیب کی دنیائوں میں مگن دادی بولیں۔
ابو اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ بیڈ پر لیٹی تھی۔
کیا ہوا میری بیٹی کو ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
ابو… مجھے بتائو میں کروں گا اس کی مدد کل تم اس سے سب پوچھ کر آنا اس کی امی کہاں ایڈمٹ ہیں میں پورا خرچہ اٹھائوں گا اسپتال کا ابو بولے۔
چلو اب چل کر کھانا کھائو۔ ایسے کھانا چھوڑ کر نہیں آتے۔ یہ رب کی نہ شکری ہوتی ہے۔ ابو کمرے سے نکلتے ہوئے بولے۔
کیا طے پایا ابا بیٹی کے درمیان… امی دونوں کو خوش خوش آتے دیکھ کر بولیں۔
بس یہ میرا اور میری بیٹی کا پرائیوٹ معاملہ ہے ابو مسکرا کر بولے۔
چلو ندا کھا کے تم برتن دھو لو پھر ہم بازار چلیں گے۔ گھر کا کچھ تھوڑا بہت سامان لینا ہے۔ اور تم عبایا بھی لے لینا۔ اپنا امی بولیں۔
اماں آپ کو کچھ منگانا ہے۔ امی نے دادی سے پوچھا۔
دیکھو تم لوگ میری بچی کو بے وقوف سمجھتے ہو اس نے عبائے کا فیصلہ خود کیا ہے۔ دادی امی سے بولیں۔ اللہ تم کو استقامت دے۔ آمین امی نے کہا۔
آج وہ خوشی خوشی اسکول جا رہی تھی۔ کیونکہ ایک تو عبائے کی خوشی اور دوسرے… ابو نے راجو کی مدد کا وعدہ کیا تھا۔
صبح تو راجو ہوتا ہی نہیں تھا۔ چھٹی کے وقت وہ تھال کے ساتھ ہوتا تھا۔ دو دن سے غائب تھا۔
آج جب وہ اور اعمہ باہر نکل رہیں تھیں تو دل ہی دل میں ندا دعا کررہی تھی آج راجو مل جائے۔ مگر وہ نظر نہ آیا۔ کبھی کبھی وہ تھوڑا آگے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ آگے بڑھ کر اسکول کے کونے سے جھانکنے لگی۔ راجو کی پیٹھ تھی ندا کی طرف اور وہ چند اوباش قسم کے لڑکوں کے ساتھ کھڑا سگریٹ کے مرغولے بنا رہا تھا۔
یار اپنی بے وقوف باجی سے کچھ بڑی رقم پکڑونا تاکہ کچھ دن تک خرچہ پانی چلے۔ اسکا ایک دو ست بولا۔
بڑا ہاتھ مارنے کے چکر میں ہی تو ہوں میں تبھی تو غائب ہوں کل جاکر بولوں گا ہوں ہوں ہووں… اس نے رونے کی ایکٹنگ کی اماں بیمار ہے۔ آپریشن کروانا ضروری ہے۔ ورنہ اماں مر جائے گی۔ راجو اس کا مضحکہ اڑا رہا تھا۔
کتنی دفعہ بے چاری اپنی اماں کو مروائے گا۔ ایک لڑکا بولا۔ اب تو کوئی اور بہانہ سوچ لے۔ ان لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مار کے ٹھٹھ لگایا۔ وین کے چنگاڑھتے ہارن کی آواز سے مردہ قدموں سے آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ آج راجو کی ہمدردی کا نقاب اس کے چہرے سے ہٹ گیا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کے اگر میں ابو کو لے کر جاتی اور جب یہ پردہ ہٹتا تو کتنی شرمندگی ہوتی۔ اللہ نے ان کو بچالیا تھا۔