نوشہرہ کی ایک آٹھ سالہ معصوم عوض نور کی تصویر اور اس کے لیے سوشل میڈیا پر مانگا جانے والا ’’انصاف‘‘ ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈ میں دو دن شامل رہا۔ ویسے جب سے وزیراعظم صاحب نے حالیہ دنوں یوٹیوبرز کے ساتھ ایک تعارفی میٹنگ میں یہ بتایا کہ ’’الیکٹرانک میڈیا تو بے لگام اور بے حد مہنگا تھا اس لیے ہم نے سوشل میڈیا پر محنت کی اور میری جیت میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے‘‘، سوشل میڈیا کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ معصوم عوض نور کے لیے بھی سوشل میڈیا پر شاید اسی نیت سے عوام نے قاتل کو سرعام پھانسی اور سخت ترین سزا کا مطالبہ پُرزور انداز سے جاری رہا۔ نور، اسماء، آصفہ، فرشتے، زینب کیسز کو یاد کرتے ہوئے افسوس اور دکھ کا اظہار جاری رہا۔ ارکانِ اسمبلی اور حکومت کو متوجہ کیا جاتا رہا۔ اداکارہ ماہرہ خان نے بھی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری سے ٹوئٹر پر استفسار کیا۔ ایک پوسٹ میں تو یوں بھی معاشرتی بے حسی کا رونا رویا گیا کہ ’’اگر ایک ڈراما سیریل کی ایک قسط نہ چلے تو آدھے سے زیادہ پاکستان سوشل میڈیا پر رونا دھونا مچا دیتا ہے، لیکن اس 7سالہ معصوم بچی کے اغوا، زیادتی اور قتل پر بے حس لوگ ویسا شور نہیں مچا رہے‘‘۔ یہی نہیں بلکہ اسی ہفتے سیہون کے ایک جج نے اپنے چیمبر میں لڑکی کا بیان لینے کے بہانے اُسے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ میڈیکل رپورٹ میں تصدیق کے باوجود تادم تحریر موصوف جج صرف معطل ہی ہوا ہے، باقی سب ’’مبینہ‘‘ کے دائرے میں وقت کھینچا جارہا ہے۔ طاقتورکا تو آپ جانتے ہیں، چاہیے وہ عدلیہ کا چھوٹا سا جج ہی کیوں نہ ہو۔ اس پر نامعلوم وجہ سے ’’ٹرینڈ‘‘ تو کوئی نہ بنا البتہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے خوب دل کی بھڑاس نکالی۔گو کہ ایک اور بیانیہ بھی سامنے آیا لیکن وہ اتنا پھیل نہیں سکا، اس بیانیے میں بتایا گیا کہ لڑکی پہلے سے شادی شدہ تھی اور اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوئی تھی، اس لیے اسے دارالامان بھیج دیا گیا۔ اب اس کہانی کو دیکھا جائے تو یہ بالکل خلیل الرحمن قمر کی تازہ سپرہٹ ڈراما سیریل ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی ہی ایک کاپی نکل آئی ہے جس میں ایک شادی شدہ لڑکی شوہر کو چھوڑ کر اپنے آشنا کے ساتھ شادی کرکے رہنا چاہتی تھی، یہ حق لینے وہ جس جج کے پاس گئی، اتفاق سے اس جج بھٹو صاحب نے سارا معاملہ تتربتر کردیا۔ معروف صحافی ارشاد بھٹی کی ٹوئٹ پر یہ تبصرہ ہوا کہ ’’اس تکلیف دہ بات سے بھی زیادہ دکھ یہ ہے کہ کچھ نہیں ہوگا، لڑکی دباؤ کی وجہ سے اپنا بیان واپس لے گی اور راوی چین کی بانسری بجائے گا۔ لعنت اس کرپٹ سسٹم پہ۔ لوٹ مار تو جاری تھی، اب عزتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ لیکن بھٹو زندہ ہے۔‘‘
آپ سوچیں بھی گے میں بار بار اسی موضوع پر آجاتا ہوں، کیا کروں کہ یہ میرے نزدیک وقت کا اہم ترین معاملہ ہے۔ پچھلے ہفتے بات جہاں ختم کی تھی وہیں سے شروع کرنی پڑ گئی کہ اس ایک ہفتے میں جنسی درندگی کے مزید سات واقعات سوشل میڈیا پر رپورٹ ہوکر زیربحث آئے۔ آج ہی ’پاکستان ٹوڈے‘کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صرف اسلام آباد میں نئے سال کے پہلے 20دنوں میں 21کیس رپورٹ ہوئے، یعنی روزانہ اوسطاً ایک بچہ یا بچی اغوا ہوئی اور زیادتی کا نشانہ بنی۔ جان لیں کہ یہ صرف ملک کے اہم ترین شہر دارالحکومت اسلام آباد کا حال ہے۔ ابھی مہینہ بھی نہیں گزرا 28 دسمبر کو مانسہرہ میں 10سالہ بچے سے کوئی 100مرتبہ زیادتی والا شرمناک، افسوس ناک اور تشویش ناک کیس سامنے آیا تھا۔ اس کیس کو بھارتی و انٹرنیشنل میڈیا نے خوب مرچ مصالحہ لگا کر بیان کیا تھا۔ انصار عباسی اپنا درد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اب تو کوئی دن نہیں گزرتا کہ ایسی خبریں پڑھنے کو نہ ملیں۔ یہ جرم بڑھتا ہی جارہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جانوروں سے بھی بدتر درندوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ قصور کی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد شاید سیکڑوں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہوں، لیکن اس دوران اگر کسی درندے کو سزا دیے جانے کے بارے میں سنا تو وہ صرف زینب کا قاتل تھا‘‘۔ اب پھر اس ہفتے 7 مزید کیس رپورٹ ہوکر سوشل میڈیا سے ہم تک پہنچے۔ ان کو 22کروڑ میں 7 نہ سمجھیے گا۔ یہ اُن ہزاروں میں سے صرف 7 ہیں جو رپورٹ ہوگئے۔ ان میں پہلا کیس تو نوشہرہ کے علاقے زیارت کاکا صاحب میں سات سالہ بچی عوض نور کو مدرسہ جاتے ہوئے اغوا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر پانی کی ٹینکی میں غوطے دے دے کر قتل کرنے کا تھا۔ تادم تحریر دو ملزم گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔
دوسرا کیس پنجاب کے شہر خانیوال میں دوستی سے انکار کرنے پر تھانیدار کی جانب سے لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا تھا۔ ایس ایچ او ظفر موہانہ کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
تیسرا کیس سیہون میں لڑکی سے سینئر جوڈیشل مجسٹریٹ کی مبینہ زیادتی کا تھا۔ کئی روزگزرنے کے باوجود جج کی معطلی اور لڑکی کو دارالامان بھیجنے کے سوا کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
چوتھا دردناک کیس قصور سے تھا جہاں 500 روپے میں جنسی عمل کے لیے بیٹی دینے والا باپ گرفتارہوگیا۔
پانچواںکیس کورنگی میں تعلیمی ادارے میں 6 سالہ کمسن طالب علم کے ساتھ مبینہ زیادتی کے الزام میں ٹیچر کی گرفتاری کا تھا۔
چھٹا کیس پنجاب کے ضلع پاکپتن کی تحصیل عارف والا میں کم عمر بچے سے زیادتی کا تھا۔ زیادتی کے الزام میں نجی اسکول کے سیکورٹی گارڈ کو گرفتار کرلیا گیا۔
ساتواں کیس ضلع بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس میں نوجوان کی گرفتاری کا تھا جس نے 12 سالہ لڑکی کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بناڈالا تھا۔
میرا مقصد آپ کو ڈرانا نہیں بلکہ غفلت سے جگانا ہے، کیونکہ یہ جان لیں کہ پاکستانی شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ، پروڈیوسر زیبا بختیار کے تازہ بیان کے مطابق وہ لاتعداد کیس تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے جو ہمارے خصوصاً ایلیٹ گھروں میں جاری ہیں۔ یہ زیادتیاں کہیں نوکری، کہیں طلاق، کہیں طاقت کے بل پر دبی ہوئی چنگاری بنی ہوئی ہیں۔ آمنہ مفتی بی بی سی پر اپنے جذبات کا اظہار اس تناظر میں یوں کرتی ہیں کہ ’’معاشرے کے بگڑے ہوئے رویوں کو درست نہ کیا گیا تو صورتِ حال روز بروز بگڑتی جائے گی۔ نہ ماں باپ ہر وقت بچوں کے ساتھ لگ کر بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کی سیکس ایجوکیشن یا سیلف ڈیفنس اس معاملے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔‘‘ اہم بات یہ بھی ہے کہ 10جنوری کواسی حوالے سے حکومت نے ’زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری بل‘ بھی منظور کروایا، جس کے مطابق کسی بھی اطلاع پر دو گھنٹوں کے اندر کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور تین ماہ میں کیس کی سماعت کرنی ہوگی، یعنی کیس کا فیصلہ بھی تین ماہ میں کرنا ہوگا، اس میں پولیس کی کوتاہی پولیس کے لیے قابلِ سزا جرم ہوگی۔ اس بل کے تحت قومی کمیشن برائے حقوقِ بچگان کا نام تبدیل کرکے ’زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘ رکھا گیا ہے اور اس ادارے کی سربراہی ایک ڈائریکٹر جنرل رینک کا افسر کرے گا جس کی تعیناتی وزیراعظم قواعد وضوابط کے تحت کریں گے، جبکہ دیگر اراکین کا تقرر بھی قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ یہ ادارہ بچے کی گمشدگی سے لے کر اس کی بحفاظت بازیابی، اور بازیاب ہونے والے بچوں کی بحالی کے لیے مؤثر اقدامات کرے گا۔ بچوں کے جنسی استحصال کے مقدمے میں دی جانے والی سزا کو 10 سال سے بڑھا کر 14 سال کردیا جائے گا۔ اگر کسی بھی کم عمر لڑکے یا لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد قتل یا شدید زخمی کردیا جاتا ہے، یا اسے خواہشِ نفسانی کے لیے فروخت کردیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو موت کی سزا دی جائے گی، یا پھر عمر قید، اور یا پھر زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم سے کم 7 سال قید کی سزا دی جائے گی۔ جائداد کے حصول کے لیے اگر 18 سال سے کم عمر بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے تو ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو 14 سال قید اور جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ 18 سال سے کم عمر بچے کو ورغلا کر یا اغوا کرکے اُس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر لے جانا، یا اُسے اُس کے والدین یا قانونی سرپرست کی تحویل سے محروم کیا جانا قابلِ سزا جرم ہوگا۔
دیکھ لیں اب تو قانون بھی بن گیا، لیکن مسئلہ ہنوز اپنی جگہ قائم ہے۔ شاہنواز فاروقی نے ایک تفصیلی تحریر میں کچھ پرانے لیکن معاملے کی ہولناکی بتاتے ہوئیاعداد و شمار کا احاطہ اس طرح کیا ہے کہ ’’امریکہ کے سی بی این نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی سے متعلق جرائم میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2015ء میں برطانیہ کے چیف جسٹس لارڈ تھامس دو لڑکیوں کے قتل کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر دستیاب ننگی فلمیں ماضی کے مقابلے میں عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کو کہیں زیادہ جرائم پر مائل کررہی ہیں۔ امریکہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر جونیئر نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ننگی فلموں اور تصاویر میں اضافے کی سطح سے بچوں کے استحصال، ان پر تشدد اور Child Abuse کے واقعات میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ کے نیشنل سینٹر نے 2011ء میں گمشدہ اور استحصال زدہ بچوں کی ایک کروڑ 70لاکھ ویڈیوز اور Images کا جائزہ لیا۔ یہ تعداد 2006ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تھی۔ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سیکنڈ میں 28 ہزار 258 امریکی انٹرنیٹ پر ننگی فلمیں یا ننگی تصاویر ملاحظہ کررہے ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر گھنٹے ننگی فلمیں اور تصاویر دیکھنے پر ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر صرف کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے امریکی ایک سال میں 95 ارب ڈالر ننگی فلموں اور تصاویر پر خرچ کرتے ہیں۔ ایک ڈالر کو 100 روپے کے مساوی قرار دے کر دیکھا جائے تو امریکی ایک سال میں ننگی فلموں اور ننگی تصاویر پر ’’صرف 95 کھرب روپے‘‘ خرچ کرتے ہیں۔‘‘
آپ کو یاد دلادوں کہ یہی وہ پاکستان ہے جہاں اگر سرکاری ٹی وی کی انائونسر کے سر سے دوپٹہ کھسک جاتا تھا تو پی ٹی وی کے خلاف فحاشی و عریانی پھیلانے کے الزام میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوجاتے تھے۔ مگر اب افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے کے اندر سے اس غیرتِ ایمانی کے شعور کو ختم کرنے کی مہم کامیاب رہی۔ اب یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فلموں، اشتہارات اور ڈراموں کی نیم عریاں، غارت گر ایمان یا Seductive خواتین کو قبول کرلیا گیا ہے، یہاں تک کہ معاشرے کو اب اس کی کوئی فکر نہیں کہ انٹرنیٹ کے ذریعے جو ننگی فلمیں اور تصاویر امریکہ، یورپ اور باقی دنیا کے لوگوں کو دستیاب ہیں، وہی ہمارے نوجوانوں کو بھی بآسانی مہیا ہوچکی ہیں اور تباہی پھیلا رہی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب، اُس کے مقامی آلہ کاروں، اندھے، بہرے، گونگے علماء، مذہبی و سیاسی جماعتوں، دانشوروں اور صحافیوں کی خاموشی اور عدم تحرّک نے معاشرے کی Value Shock کو اتنا کمزور کردیا ہے کہ جو معاشرہ 1980ء کی دہائی میں ٹی وی کی انائونسر کے دوپٹے کو مسئلہ بنائے ہوئے تھا وہ اب اس سے ہزار گنا ضرر رساں جنسی مواد کو خاموشی سے قبول کررہا ہے۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ زہرانٹرنیٹ تک محدود رہے گا اور بدترین شکلوں میں ہمارے معاشرے میں عام نہیں ہوگا تو وہ درج بالا واقعات کو پڑھ کر اپنی خوش فہمی یا غلط فہمی دور کرلے۔ جنسی درندوں کا یہ غول اتنا پھیل چکا ہے کہ نہ شاگرد اپنے استاد سے، نہ ہی بیٹی باپ سے محفوظ ہے۔ نہ بہن بھائی سے، نہ ہی بھانجی ماموں سے، اور نہ ہی کوئی بھتیجی چچا سے محفوظ ہے۔ کیونکہ اتنے خطرناک زہر کی موجودگی میں ہمارے مذہبی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی شعور کا زوال اور ہمارا عدم تحرک ایسی کسی بھی چیز کو ممکن بنارہا ہے۔ ہمیں اولادوں کو بچانا ہے تو سزاؤں سے زیادہ ماحول کو صاف کرنا ہوگا۔
یہ تو ’جنسی بھوک‘ مٹانے کے لیے بدترین اقدامات سے متعلق موضوع تھا جس پر بات چلتی رہے گی، لیکن اس ہفتے ہمارے حکمرانوں نے ’پیٹ کی بھوک‘ مٹانے کے لیے بدترین حرکت کا ارتکاب کردیا۔ اس پر بھی خوب بات ہوئی۔ نشئی کھا گیا غریب کا آٹا، میری امید آٹا، گندم چار آٹا خور حکمران، پاکستان تحریک بحران جیسے ہیش ٹیگ چلتے رہے اور عمران خان حکومت پر بن بادل برسات کی مانند برستے رہے۔ تحریک انصاف بحران نہ ہونے اور کسی قسم کی شارٹیج کی انکاری رہی، لیکن عوام کو دکانوں سے آٹا نہیں ملا، روٹی مہنگی کردی گئی۔ حکومت نے گندے فائن آٹے کی بوریوں کی نمائشی تقسیم 43 روپے کلو کے حساب سے مختلف مقامات پر ظاہر کروائی لیکن وہ آٹا تو محدود ہوتا اور دس منٹ میں ختم ہوجاتا۔ ایسے میں وزرا کے بیانات جلتی پر تیل چھڑکتے رہے، جیسے وزیر ریلوے نے ’’’نومبر دسمبر میں لوگ روٹیاں زیادہ کھاتے ہیں اس لیے آٹا کم پڑ گیا‘‘ والی بات کردی۔ ایک اور صوبائی وزیر نے آٹے کا پیڑا چھوٹا کرنے، اور ایک نے ’’آٹا مہنگا ہے، کھانا چھوڑ دیں‘‘ کی بات کردی۔ بس پھرکیا تھا، اپوزیشن ہو یا عوام… روٹی تو سب ہی کھاتے ہیں ناں۔ مسلم لیگ(ن) کی خاتون رہنما نے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ مجھے تو آٹا کہیں نہیں مل رہا، تو اُن کے گھر کے باہر آٹے کی بوریاں ڈال دی گئیں اور پھر تصاویر کو خوب وائرل کیا گیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد ’کرپٹ بیازی رجیم‘ کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ میں چلتا رہا، کیونکہ بھرپور دعووں کے باوجود پاکستان میں 2018ء کے مقابلے میں 2019ء میں کرپشن بڑھ گئی تھی اور پاکستان عالمی رینکنگ میں نیچے چلا گیا تھا۔ نئے پاکستان اور تبدیلی پر خوب ٹک ٹاک ویڈیوز بنا بناکر شیئرکی جاتی رہیں۔ پھر اس سے دو دن قبل ہی ایک خطاب میں وزیراعظم نے جب یہ کہا کہ تنخواہ میں ان کا اپنا گھر نہیں چلتا تو یہ تو بس حد ہی تھی۔ لوگوں نے وزیراعظم صاحب کا دو افراد پر مبنی خاندان نکال کر دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ سے حساب کتاب جوڑا تو بس پھر ایسی ایسی ویڈیوز تخلیق کی گئیں کہ ایوارڈ ملنا چاہیے اُن کے تخلیق کاروں کو۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان صاحب نے ورلڈ اکنامک فورم میں اِس بار بھی بغیر لکھی تقریر کی تو وہ بھی قابل تعریف رہی، مگر صرف تقریر۔ اسی طرح کشمیر پر بھی مستقل اس ہفتے ایک نہ ایک ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنتا رہا اور یاد دلاتا رہا کہ مقبوضہ کشمیر آج 170دن بعد بھی ایک جیل ہی کا منظر پیش کررہا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں شہریت بل کے خلاف مظاہروں کی شدت میں پھیلاؤ اور مستقل اضافہ سوشل میڈیا پر مستقل محسوس کیا جاتا رہا۔ بھارت کے معروف ترین سینئر اداکار نصیر الدین شاہ بالآخر ایک انٹرویو میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ70سال بعد بحیثیت مسلمان انڈیا میں رہنا ممکن نہیں رہا، انہوں نے دیگر بڑے بھارتی فلم اسٹارز کو بھی خاموش رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ بھارت میں ہی نہیں پاکستان میں بھی ٹوئٹر پر ایک دن ان کے نام ’نصیر الدین شاہ‘ کا ٹرینڈ بن گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے ذیل میں ’دو قومی نظریہ‘ کو ہم تقویت دیتے رہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے سیکولر طبقات تو قیام پاکستان کی مذہبی بنیادیں مانتے ہی نہیں، مگر اب ان کو بھی کچھ نہ کچھ بولنا پڑرہا ہے۔ ان کی تنقید کے جواب میں متعصب بھارتی اداکار ’انوپم کھیر‘ کی ویڈیو بھی وائرل رہی۔ بھارتی ہندو اسے پبلسٹی اسٹنٹ کہتے رہے، کیونکہ نصیرالدین شاہ نے دیگر افراد کو زبردستی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ہی نصیرالدین شاہ کے ماضی کو کھنگال کر انہیں برطانیہ نواز ثابت کرڈالا۔
ان سب کے ساتھ ایک اور اہم موضوع سوشل میڈیا پر لایا گیا۔ جی ہاں ’’لایا گیا‘‘۔ سوشل میڈیا پر اکثر بہت سارے ایشوز کو پیسے خرچ کرکے لایا جاتا ہے تاکہ اس پر بات ہو، توجہ ملے۔ وہ تھا ’’زندگی تماشا‘‘ کا۔ پاکستان کے معروف لبرل فلمساز و ڈائریکٹر سرمد کھوسٹ نے اس کہانی کو لکھا بھی اور ڈائریکٹ بھی کیا۔ زبردستی کی مرچیں لگانے کے لیے مرکزی کردار ایک نعت خواں کا لے لیا، پھر مزید ستم یا بتی سلگانے کے لیے یہ کیا کہ ٹریلر کے آخر میں ’لبیک یارسولؐ اللہ‘ کے پیٹنٹ نعرے کا ایک ٹکڑا بھی لگا دیا۔ اب تحریک لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے احتجاج کیوں نہ ہوتا! انہوں نے فلم کا ایسا کام اُتارا کہ سرمد سلطان کو لالے پڑ گئے، سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلوانا پڑگیا۔ مگر سب بے سود۔ پنجاب حکومت، وفاقی و سندھ حکومت سب نے دو دو بار سنسر سے گزارنے کے باوجود فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی۔ امکان اب صرف اس بات کا ہے کہ اگر سرمد اپنی فلم کے کردار بدل دے تو شاید فلم کی نمائش ممکن ہو، وگرنہ صرف ٹریلر پر ہی گزارا چلے گا۔ ویسے احسان ماننا چاہیے سرمد کو کہ ابھی تک تحریک لبیک نے ٹریلر پر پابندی نہیں لگوائی۔ اس چکر میں ٹریلر کے ہی دو ہفتوں میں 4 لاکھ سے زائد ویوز تو صرف یوٹیوب پر ہوگئے ہیں۔ جیو نیوز نے اس پر دو پروگرامات بھی کیے، مگر سب تحریک لبیک کے احتجاجی مظاہروں کے اعلان کے سامنے بے سود رہے۔ فلم کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب فلم کی کہانی بھیج دی گئی۔ فلم کی ریلیز سے قبل فلم کو ٹریلر کی بنیاد پر اوورلیک ہوئی معلومات کی بنیاد پر اسلامی شعائر کے خلاف قرار دیا گیا۔ میں خود بھی قبل از وقت فلم کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سرمد سلطان نے بھی خوب خطوط لکھے اور مدد کی اپیل کی، کیونکہ وہ اپنا بھی خاصا پیسہ اس فلم کے لیے بحیثیت پروڈیوسر لگا چکے تھے۔ فلم کے غم میں مرے جانے والے معروف اینکر شاہ زیب خان زادہ نے اپنے پروگرام میں کمنٹ بھی کیا کہ ’’چند لوگوںکا جتھا کامیاب ہوگیا‘‘۔ حیرت، افسوس اور فلم ساز سے بے تکی وابستگی کی انتہا ہے کہ انہیں ملک میں چوتھے نمبر پر ووٹ لینے والی جماعت چند لوگوں کا جتھا لگی اور وہ اپنی کم علمی کی بنیاد پر بار بار اُنہیں ’چند لوگ‘ کہتے رہے، لیکن فلم کے حق میں کتنی بڑی اکثریت تھی، وہ یہ نہ بتا سکے۔ یوٹیوب پر صرف اس فلم کی حقیقت سے متعلق بنائی گئی بے شمار ویڈیوز بھی خوب وائرل رہیں۔ میں نے بذاتِ خود ٹریلر اور اس سے متعلق مہر علی ؒکی ایک مشہور پنجابی نعت ’اج سکھ متراں دی ودھیری ہے‘ کی ویڈیو اور تھیم سانگ ’زندگی تماشا‘ دیکھا۔ میں ٹریلر سمیت دونوں ویڈیوز دیکھ کر صرف اس نتیجے پر پہنچاکہ کم از کم ٹریلر میں ایسی سنسنی یا حساس موضوعات کو دکھائے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ فلم میں معاشرتی اصلاح کا کوئی بہت خوبصورت پیغام پوشیدہ ہو، لیکن پاکستان کی صورت حال سمجھنے اور جاننے کے باوجود ایسا کرنا خودکشی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ سرمد سلطان اس سے قبل منٹو اور دیگر حساس موضوعات پر بھی فلم بنا چکے ہیں، لیکن دوسری جانب ان کے کندھوں پر عمیرہ احمد کا ’شہر ذات‘ بھی ہے۔ ویسے سوشل میڈیا پر خوب آڑے ہاتھوں لیا گیا لیکن بھونڈے انداز میں۔ کئی گروپس میں اس فلم کو ’قادیانی ملحدین‘ کی جانب سے ایکٹ کی جانے والی فلم قرار دیا گیا۔ اس نئی منفرد اصطلاح پر میں نے افسوس کا اظہارکیا کہ ’ قادیانی‘ اور ’ملحد‘ہونا دو انتہائی متضاد باتیں ہیں، ان کو زبردستی جوڑ کر تنقید بھی غلط کی جا رہی ہے۔ لوگ لکھتے ہیں کہ اس فلم میں مساجد، مدارس کو کھلم کھلا دہشت گردانہ پیش کیا گیا۔ یہ جملہ بھی انتہائی بودا تھا، کیونکہ فلم تو کسی نے دیکھی ہی نہ تھی۔ امتِ مسلمہ کو غیرتِ ایمانی کا ثبوت دینے کے لیے پوسٹ شیئر کرنے کا کہا گیا۔ لوگ ویڈیو بناکر اپنی وضاحتیں دیتے رہے۔کوئی لکھ رہا تھاکہ اس فلم میں پوری نعت خواں کمیونٹی کو ہٹ کیا گیا ہے تو صرف تحریک لبیک ہی کیوں میدان میں ہے، باقی مذہبی جماعتیں کہاں ہیں؟ ایک اور صاحب لکھتے ہیں کہ ’’خلیل الرحمن قمر کے ڈرامے نے تو اسلامی شعائر کو خوب ’’زندہ‘‘ کیا، اُس پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی گئی، بلکہ لائنوں میں لگ کر سینما کے ٹکٹ لیے جارہے ہیں۔ نیٹ فلیکس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتی فلم جاری کی گئی، وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلی گئی۔ اسی طرح باقی پاکستانی ڈرامے یا فلمیں کون سا اسلام پھیلا رہے ہیں یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے۔ صرف مذہبی بنیاد کافی نہیں۔