کُل پاکستان حمد و نعت کانفرنس اور حمدیہ‘ نعتیہ مشاعرہ

1430

نثار احمد نثار
ادارہ چمنستانِ حمد و نعت ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کے زیر اہتمام آرٹس کونسل آف پاکستانن کراچی کے تعاون سے دو روزہ کل پاکستان حمد و نعت کانفرنس اور مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس پروگرام کا پہلا سیشن آرٹس کونسل آف کراچی کے آڈیٹوریم میں پانچ بجے شام شرع ہوا۔ افتتاحی اجلاس کی مجلس صدارت میں ڈاکٹر ریاض مجید‘ پروفیسر منظر ایوبی‘ محسن اعظم ملیح آبادی‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ صوفی شاہ محمد کمال سلطانی‘ گہر اعظمی‘ تابش الوری اور ڈاکٹر عزیز احسن شامل تھے تاہم جب طاہر سلطانی استقبالیہ خطبے کے لیے اسٹیج پر آئے تو انہوں نے واجد امیر‘ ڈاکٹر شاکر کنڈان‘ پروفیسر غازی علیم الدین‘ ریاض ندیم نیازی اور محسن علوی کو بھی اسٹیج کا حصہ بنایا۔ اس سیشن کی نظامت محمد عرفان نے کی۔ حافظ محمد نعمان طاہر نے تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسول کی سعادت حاصل کی۔ اس نشست میں تابش الوری نے تین قراردادیں پیش کیں قرارداد نمبر ایک: آج کی کُل پاکستان حمد و نعت کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ عدالتی فیصلے کے مطابق اردو زبان کو جلدازجلد سرکاری دفاتر میں نافذ العمل کیا جائے اور اس حوالے سے تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔ قرارداد نمبر2۔ سیرت کانفرنس کی طرز پر تمام صوبائی علاقوں میں حمد و نعت کانفرنس کا اہتمام کیا جائے جہاں حمدیہ اور نعتیہ مقالہ جات پیش کیے جائیں اس سلسلے میں نقد انعامات و اسناد بھی جاری کی جائیں۔ قرارداد نمبر 3 سیرت رسول کے موضوع پر اور نعتیہ شاعری کی منتخب کتب پر ملنے والے اعزازیہ میں اضافہ کیا جائے۔ تمام حاضرین نے ان تینوں قراردادوں کو اتفاقِ رائے سے منظور کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ جلدازجلد ان قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ طاہر سلطانی نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آج میں اپنے ساتھیوں اور آرٹس کونسل کی مدد سے حمد و نعت کانفرنس کے ساتھ ساتھ حمدیہ اور نعتیہ مشاعرے بھی ترتیب دے سکا ہوں۔ ہمارے اس نیک کام میں جن شخصیات نے ہماری معاونت کی ہے میں ان کا ممنون و شکر گزار ہوں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اگر مخیر حضرات دل کھول کر ہماری اعانت کرتے تو ہم اس پروگرام کو مزید بہتر بنا سکتے تھے‘ ہم اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ہر ماہ طرحی مشاعروں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹس کونسل پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ آئندہ سال حمد و نعت کانفرنس اور حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ آرٹس کونسل کراچی کے پلیٹ فارم سے ہوگی۔ ادارہ چمنستانِ حمد و نعت ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ اس موقع پر جدہ سے تشریف لائے ہوئے محسن علوی نے بالفاظ بلند کہا کہ انہوں نے سعودی عرب میں بے شمار نعتیہ مشاعرے کروائے ہیں نعت کی ترویج و اشاعت میں ان کا بھی حصہ ہے لیکن مجھے اس کانفرنس میں روسٹرم پر نہیں بلایا جارہا لہٰذا میں واک آئوٹ کر رہا ہوں۔
نماز مغرب کے بعد کانفرنس کا دوسرا سیشن شروع ہوا جس کی نظامت بالترتیب ڈاکٹر محمد طاہر قریشی اور ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے کی۔ اس سیشن میں سب سے پہلے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے اپنے مقالے میں جہانِ حمد کے تحت ہونے والے مشاعروں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے طاہر سلطانی کو خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر نے حمدیہ نعتیہ ہائیکو کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تمام اصناف سخن درآمدہ ہیں ان میں ہائیکو بھی شامل ہے جو جاپان سے تعلق رکھتی ہے۔ اب پاکستان میں اور بالخصوص کراچی میں ہائیکو صنفِ سخن میں نعتیہ اور حمدیہ مشاعرے ہو رہے ہیں اور ہائیکو میں بھی حمد و نعت کے مجموعے شائع ہو رہے ہیں جن میں دبستان پنجاب سے تعلق رکھنے والے محمد اقبال نجمی کے حمد و نعت کے مجموعے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے مقالے پر ہائیکو کے اوزان پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔ ریاض ندیم نیازی نے حمد میں نعت کے رنگ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں اللہ کا ذکر ہوتا ہے وہاں پر ذکرِ مصطفیؐ بھی ہوتا ہے پہلے کلمے میں اللہ کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی شامل ہے اس کلمے کے بغیر ہم دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتے۔ حمد میں نعت کا تذکرہ اس طرح بھی آتا ہے کہ ہم اپنے رسولؐ کے توسط اور وسیلے سے اللہ کی مدد مانگتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے اردو شاعری میں تخلیق حمد کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اللہ کی وحدانیت کو تلاش کرتا ہے ہر زمانے کی شاعری میں خدا کا تصور ملتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب غزلوں کے مجموعے میں ایک حمد اور نعت تبرکاً شامل کی جاتی تھی اب تو حمد و نعت کی مجموعے تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں اس موضوع پر تحقیقی کام ہو رہا ہے جیسے جیسے ہم علم سے بہرمند ہو رہے ہیں ویسے ویسے ہم پر مظاہر قدرت منکشف ہو رہے ہیں اور حمد و نعت میں جدید سائنس کو شامل کر رہے ہیں۔ پروفیسر جاذب قریشی نے جہانِ حمد کے مسافر کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جہان حمد کے روح رواں طاہر سلطانی کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ پچاس برسوںمیں نعت نگاری نے بہت فروغ پایا ہے اس سلسلے میں جن شخصیات نے اپنا کردار ادا کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔
محسن اعظم ملیح آبادی نے اکیسویں صدی میں حمد کی معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حمد کے دو طریقے ہیں نمبر ایک رسمی عبادت‘ نمبر دو شاعری و نثر کی صورت میں اللہ کی تعریف کرنا بھی عین عبادت ہے۔ خدا کا وجود انسان کی ضرورت ہے۔ مختلف شعری جہتوں میں سے کسی بھی شکل میں حمد کہی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے حمد کے محرکات و ماخذات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ادیان میں اللہ کا تصور ملتا ہے تاہم اسلام میں حمدیہ شاعری ہمارے دین کا حصہ ہے ایک زمانے میں حمدیہ مضامین بہت محدود لکھے جاتے تھے اب سائنس نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ خدا کی قدرت کے مظاہر دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سائنس کی روشنی میں خدا کی قدرت کو سمجھیں اور حمدیہ شاعری میں اس کا تذکرہ کریں۔ حمد نگاری میں جدید نظریاتِ شائنس کو شامل کرنا ہے۔ اللہ کی صفات غیر فانی ہے آدمی کی زندگی محدود ہے اللہ کی حمد و ثنا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
کانفرنس کے تیسرے سیشن میں جن ماہرانِ عقل و دانش نے نعت نگاری کے حوالے سے اپنے مقالات پیش کیے ان میں ڈاکٹر محمد طاہر قریشی نے ہماری ملّی شاعری میں نعیہ عناصر کے موضوع پر کہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی اس تحریک میں شاعروں نے اپنا حصہ ڈالا۔ انہوں نے اس زمانے کے سیاسی جلسوں میں اس قسم کی نعتیں پیش کیں جن میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اللہ سے فتح و نصرت طلب کی۔ 1965 اور 1971ء کی جنگوں کے دوران لکھے جانے والے ملّی نغمات میں بھی نعتیہ اشعار موجود ہیں اس قسم کی شاعری سے ہمارا ایمان اور جذبۂ پاکستانیت مضبوط ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاکر کنڈان نے اپنے طویل مقالے میں ان نعت گو شعرا کا تذکرہ کیا کہ جو ہندوستان اور پاکستان میں کہیں نہ کہیں فوجی خدمات سے جڑے رہے۔ پروفیسر جاذب قریشی کے مقالے کا موضوع تھا ’’نعئت کا سفر‘ جدیدیت کے تناظر میں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پچھلی صدی کی گزشتہ تین دہائیوں کی درمیان اردو ادب میں نعت نگاری کو وسعت اور ارتقا حاصل ہوا ہے۔ نعت کی سائیکی‘ نعت کے لہجہ و اسلوب کے علاوہ نعت کی آواز و لفظیات میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محنت تو وہی ہے لیکن نعت اپنے شعری تخلیق اور فنی روّیوں کے ساتھ زندگی کے بنیادی اعتماد اور کائنات کے جدید تجربوں کے ساتھ آگے بڑھی ہے خاص طور پر حالیؔ سے اقبالؔ تک نعتیہ شاعری میں بہت سے نئے راستے کھلے ہیں اور ۵ادمِ تحریر یہ سفر جاری ہے۔
ڈاکٹر شہزاد احمد نے اپنے مقالے میں ان نعت گو شاعرات کا ذکر کیا کہ جن کے نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر غازی علیم الدین نے آدابِ نعت گوئی کے موضوع پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے کہا کہ فی زمانی نعت خوانوں نے فلمی طرز پر بھی نعتیں پڑھنی شروع کردی ہیں اور بہت سے شعرا نعت میں عبد و معبود کے درمیان فرق نہیں رکھتے ۔ حسبِ مراتب رسول سے تجاوز کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نعتیہ شاعری میں اکیسویں صدی میں نعت کی معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے نعتیہ ادب میں پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر ریاض مجید نے کہا کہ غزل کی 400 سال کی روایت اب نعت میں تبدیل ہوگئی ہے نعت کی موجودہ صورت حال اب اس بات کی متقاضی ہے کہ غزل کے تمام محاسن نعت میں آئیں‘ اب نعت ایک صنفِ سخن کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اکیسویں صدی میں نعت ایک توانا صورت میں ہمارے سامنے آرہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نعت گوئی میں سیرت رسول اور شمائل رسول کے ساتھ کمالاتِ نبوت کو بھی لکھیں۔ حب رسول کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی۔ نعت نگاری مسلمانوں کو متحد کرنے کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں نعتیہ ادب پر سیمینار ہوں تو ہماری نئی نسل اسلامی تعلیمات سے باآسانی مستفیض ہو سکتی ہے جامعہ کراچی میں بھی ایک ’’نعت چیئر‘‘ ہونی چاہیے البتہ نعت گو شعرا کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق بنایا جائے۔
پروفیسر منظر ایوبی نے کہا کہ میرا موضوع گفتگو ہے ’’نعت گوئی ایک امتحان۔‘‘ اس سلسلے میں عرض ہے کہ نعت گوئی میں غلو کی گنجائش نہیں ہے‘ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اپنے دامن پر ذرہ برابر دھبہ برداشت نہیں کرسکتا۔ نعت کہتے وقت احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے‘ جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے۔ ہماری ذرا سی کوتاہی ہمیں دائرۂ اسلام سے خارج کر سکتی ہے۔ اس نشست کے اختتام پر طاہر سلطانی نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور مولانا عبدالجبار نقش بندی نے دعا کرائی جس میں پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے اتحاد بین المسلمین پر زور دیا گیا۔ اس کانفرنس کے دوسرے روز حمدیہ اور نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی مجلس صدارت میں ڈاکٹر ریاض مجید‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ تابش الوری‘ محسن اعظم ملیح آبادی‘ پروفیسر منظر ایوبی اور واجد امیر شامل تھے۔ جب کہ ڈاکٹر شاکر کنڈند‘ ریاض ندیم نیازی مہمانان خصوصی تھے۔ حمدیہ مشاعرے کی نظامت سلمان صدیقی نے کی جس میں فیروز ناطق خسرو‘ سلمان صدیقی‘ رشید خان رشید‘ نعیم انصاری‘ حنیف عابد‘ شارق رشید‘ آسی سلطانی‘ نشاط غوری ‘ نجیب قاصر‘ عزیز الدین خاکی‘ شجاع الزماں خان‘عقیل احمد عباسی‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ نصراللہ غالب‘ عاشق شوقی‘ علی کوثر‘ زبیر صدیقی اور ذوالفقار سید پرواز نے اپنا کلام پیش کیا۔ نعتیہ مشاعرے میں راشد نور نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور نعت بھی پیش کی ان کے علاوہ جن شعرا نے نعتیہ کلام پیش کیا ان میں اختر سعیدی‘ حافظ عبدالغفار حافظ‘ یامین وارثی‘ خالد حسن رضوی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ حامد علی سید‘ نعیم انصاری اور نظر الاسلام شامل تھے۔ نیز مجلس صدارت میں شامل شعرا اور مہمانانِ خصوصی نے حمدیہ اور نعتیہ کلام نذر سامعین کیا۔ حافظ نعمان طاہر نے تلاوت کلام مجید اور نعت رسول پیش کی۔ سید اطہر علی نے بھی ترنم کے ساتھ نعت رسولؐ پیش کی۔ اس موقع پر الحاج شمیم الدین نے اعلان کیا کہ اللہ کے 99 اسمائے گرامی میں وہ چاہتے ہیں ہر اسم پر شعرا حضرات ایک ایک قطعہ کہیں میں اسے کتابی شکل میں شائع کروائوں گا جس کا نام ’’حمدنامہ چمنستان‘‘ ہوگا اور یہ کام طاہر سلطانی کی نگرانی میں ہوگا۔
حمدیہ اور نعتیہ مشاعرے کے اختتام پر فیصل آباد سے آئے ہوئے ممتاز شاعر اور دانشور ڈاکٹر ریاض مجید نے کہا کہ قیام پاکستان سے اب تک اس نوعیت کی کوئی کانفرنس نہیں ہوئی تھی‘ یہ کُل پاکستان حمد و نعت کانفرنس ایک تاریخی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اس کا تمام تر کریڈٹ اہل کراچی بالخصوص طاہر سلطانی کو جاتا ہے جنہوں نے شبانہ روز محنت کے بعد اس کانفرنس کے انعقاد کو یقینی بنایا۔ یہ ایک بڑی روایت ہے جس کے استحکام کے لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے۔ حمد و نعت کے حوالے سے لکھی جانے والی تاریخ میں اس اوّلین کانفرنس کا ذکر ضرور ہوگا۔ آخر میں کانفرنس کے روح رواں شاعر حمد و نعت محمد طاہر سلطانی نے کلمات تشکر ادا کیے مجلس صدارت کے ارکان ڈاکٹر ریاض مجید‘ پروفیسر منظر ایوبی‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ محسن اعظم ملیح آبادی اور دیگر نے مسند نشینوں کی خدمت میں اجرک پیش کیں اور تمام شعرا کو تعریفی اسناد پیش کیے گئے۔ آختر میں چائے اور دیگر لوازمات سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ دوسرے دن صبح فیروز ناطق خسرو نے باہر سے آنے والے مہمانوں کو ناشتے پر مدعو کیا جب کہ مہمانوں کے لیے ظہرانے کا اہتمام ادب نواز اور علم پرور شخصیت لیاقت علی پراچہ نے کیا تھا۔

اکادمی ادبیات کراچی کا مذاکرہ اور مشاعرہ

اکادمی ادبیات کراچی کے زیر اہتمام لاطینی کے بطن سے پیدا ہونے والی مغربی زبانیں اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ مہمانانِ خاص لندن سے آئے ہوئے معروف شاعر غالب ماجدی‘ پرتگال سے آئے ہوئے یامین عراقی‘ سعودی عرب سے آئی ہوئی نادیہ غوث‘ نصیر سومرو‘ نوشہروز سے غلام حسین چاند تھے۔ اس موقع پر رفیع الدین راز نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ انگریزی برطانیہ کے قدیم باشندے انگلو یکسن کہلاتے تھے۔ ان لوگوں کی زبان بھی اینگلوسیکسن کہلاتی تھی‘ لاطینی زبان کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک کسی نہ کسی طور سے رومن سلطنت میں شامل تھے۔ برطانیہ پر بھی لاطینی زبان کے اثرات تھے اس لیے لاطینی زبان ہی کو آسان کرکے لاطینی زبان میں سے 25 حروف تہجی منتخب کر لیے گئے جسے انگریزی الفابیٹ کا نام دیا گیا۔ نصیر سوِمرو نے کہا کہ آج کی جدید مغربی زبانوں میں سے کوئی بھی زبان ایسی نہیں ہے کہ جس کا رشتہ لاطینی زبان سے نہ رہا ہو۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ جدید اقوام اپنی اپنی سرحدوں میں اس وقت خود کو ایک الگ قوم اور مکمل تہذیب تصور کرتی ہیں۔ اس کے برعکس لاطینی زبان کی تاریخ کے حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ غالب ماجد نے کہاکہ امریکن انگلش‘ اٹالین زبان‘ اسپینش زبان‘ جرمن زبان‘ ہالینڈ کی زبان‘ ڈنمارک کی زبان‘ ترکی کی زبان‘ فرانس کی زبان‘ سویڈن کی زبان ان تمام زبانوں کے حروف تہجی وہی لاطینی کے ہیں جو کہیں نہ کہیں سے ملتی جلتی یا ملائی گئی ہیں جس کی سادہ مثال (امریکا‘ برطانیہ) جرمن انگریزی (ہالینڈ جرمنی) (سویڈن جرمنی) (ڈینش سویڈش اور ڈچ سے ملتی ہے) ترکی زبان ماضی میں عربی اور فارسی میں پید اہوئی یہ ساری زبانیں ایک دوسرے سے لاطینی ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ پنجابی اور سرائیکی زبان میں فرق سمجھ لیں اپ اگر سرائیکی زبان بولنے والے ہیں تو آپ کے لیے پنجابی بولنا لکھنا قطعی مشکل نہ ہوگا۔ ان زبانوں میں ہر جگہ صرف لہجے کا معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ ان زبانوں میں صرف لہجے کا معمولی سا فرق ہوتا ہے۔ آخر میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں رفیع الدین راز‘ فیروز ناطق خسرو‘ غالب ماجدی‘ نصیر سومرو‘ محمد یامین عراقی‘ نشاط غوری‘ حنیف عابد‘ ڈاکٹر رحیم ہمراز‘ سید اوسط علی جعفری‘ جمیل ادیب سید ‘ فرح دیبا‘ نازیہ غوث‘ شجاع الزماں خان‘ تاج علی‘ رعنا عبدالستار رستمانی‘ محمد علی زیدی‘ محمد رفیع مغل‘ خالد لغاری نے کلام پیش کیا۔

حصہ