فاطمہ عزیز
ایک استاد ہونے کے لیے آپ کے اندر صبر ہونا ضروری ہے، اور اگر آپ بچوں کے استاد ہیں تو صبر کا پہاڑ آپ کے اندر ہونا چاہیے۔ جی ہاں، بچوں کو پڑھانا ایک اتنا ہی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس کے علاوہ جذباتی اور ذہنی لحاظ سے بھی آپ کا مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ آپ کو نہ صرف ناسمجھ اور جذباتی بچوں کو اس بات پر رضامند کرنا ہوتا ہے کہ وہ آپ کا کہنا مانیں، بلکہ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھیلنے اور پڑھنے کا سلیقہ بھی سکھانا ہوتا ہے۔ ان کو نئی نئی چیزیں سکھانا، دنیا کے بارے میں بتانا، سبق پڑھانا ایک الگ مرحلہ ہے۔ اس لیے آپ کے اندر اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی خصوصیت ہونی چاہیے جس کے ذریعے آپ دوسرے لوگوں کو، اور بچوں کو کنٹرول میں رکھیں گے اور ایک بہت اچھا انداز بیاں‘ شیریں زبان ہونا بھی ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے یہ سب ایک ساتھ کرنا دل گردے والوں کا کام ہے۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ایک استاد کی معاشرے میں وہ عزت نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے، اور اس کا معاوضہ بھی کم ہوتا ہے۔ جو بھی استاد کے درجے پر زیادہ عرصہ فائز رہے اُس کو ضرور جذباتی سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اسی لیے اسلام نے استاد کو والدین کا درجہ عطا کیا ہے۔
پچھلے دنوں ایک ٹیچر نے جو کہ پری نرسری کے بچوں کو پڑھاتی تھیں، والدین کے نام پیغام بھیجا، اور ٹیچنگ سے اپنا رشتہ توڑنے کی اصل وجوہات بتائیں جو کہ آج کل کے معاشرے میں ہر استاد کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ’’ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے کم پیسے ملنے کی وجہ سے ٹیچنگ کو خیرباد کہا، لوگوں کے لیے یہ سمجھ لینا زیادہ آسان تھا کہ میں نے پیسوں کی وجہ سے پڑھانا چھوڑا، یا پھر مجھے کوئی اور مزید اچھی جاب مل گئی۔ بہ نسبت اس کے کہ وہ اصل وجہ جانیں، کچھ لوگ کہیں گے کہ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے اور ایسا سوچنے سے اسے سکون مل رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ مگر میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرا درس و تدریس جیسا مقدس پیشہ چھوڑنے کی اصل وجوہات کیا تھیں۔ آج کے زمانے میں بہت سے والدین کہتے ہیں کہ بچے سمجھ دار ہوگئے ہیں، تیز ہوگئے ہیں۔ مگر اصل میں ایسا نہیں ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، وہ معصوم پھول جیسے ہوتے ہیں۔ اصل میں والدین بچوں کی اس طرح تربیت نہیں کرپاتے جس طرح کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشرہ بھی تبدیل ہوگیا ہے اور اپنے منفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر چھوڑتا ہے۔
آج کے والدین نوکری کرتے ہیں جس میں گھنٹوں ان کا پتا نہیں ہوتا، اور جب گھر پر موجود ہوتے ہیں تو اپنے اپنے موبائل فون، ٹی وی، انٹرنیٹ پر لگے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کی تربیت صحیح طور پر نہیں ہوپاتی۔ بچوں پر میڈیا کا اثر بہت زیادہ آجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بدتمیز ہوجاتے ہیں تو ہم کہتے ہیںکہ آج کل کے بچے بہت تیز ہیں۔ ہم ان سے کیا توقع کریں جب ان کو سیکھنے کا صحیح ماحول ہی میسر نہ ہوپائے! بچے اس جگہ پر سب سے زیادہ شرارتیں کرتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں، وہ ماحول کو پرکھنے کا ہنر رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کہاں ان کی شرارت کا محبت اور نرم دلی سے جواب دیا جائے گا، کہاں ان کو توجہ سے آداب سکھائے جائیں گے۔ اسی لیے زیادہ تر بچے گھروں میں شرارت کرتے ہیں، غصہ کرتے ہیں، ضدی ہو جاتے ہیں۔ مگر ایسے بچے جو یہ سب اسکول میں کریں، جو اسکول میں غصے سے لڑ پڑیں، میزیں الٹ دیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ یہی کہ ان کو گھر میں ایک محفوظ ماحول نہیں مل رہا ہے، ان کو والدین سے وہ توجہ نہیں مل رہی جس کے وہ حق دار ہیں۔ دوسری طرف آج کل کے اسکول بھی اس بات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ بچے کو تمیز، طریقہ، معاشرے میں رہنے کے ادب و آداب سکھانے کے بجائے ٹیکنالوجی سکھائو، کمپیوٹر چلانا سکھائو۔ اور اس بات کا اسکول والوں کے پاس جواب ہوتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں، بچے ٹیکنالوجی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہونے چاہئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے رشتوں کو بھول جاتے ہیں، وہ آداب، محفل میں بات چیت کرنے کے طریقے، اٹھنا بیٹھنا کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ ان کے اوپر ٹیکنالوجی کا بھوت لاد دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اسکول کی پروفائل کے لیے اچھا ہے۔‘‘
استانی کا کہنا ہے کہ ’’مجھ سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ آپ ٹیکنالوجی استعمال کرلیتی ہیں؟ کیوں کہ یہ ہمارے لیے اہم ہے۔ یعنی ان کو یہ نہیں جاننا کہ میں بچوں کے ساتھ کیسی ہوں، کیا میں بچوں کو سنبھال لیتی ہوں، کیا میں بچوں پر توجہ دے پائوں گی۔ ان کو ٹیکنالوجی سے دل چسپی ہے۔‘‘
استانی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ بچوں کو اچھی باتیں سکھانا بھی اہم ہے، لیکن اس چکر میں دوسرے اہم مضامین کو یکسر نظراندازکردیا جاتا ہے اور زیادہ تر بچوں کا جب اچھا رزلٹ نہیں آپاتا تو اس کا ذمہ دار بھی ٹیچرز کو ٹھیرایا جاتا ہے۔ پھر ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ ٹیچرز کی ٹریننگ کی جائے جس میں ٹیچرز کا شرکت کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ اسی سال پری نرسری بچوں کے لیے حساب کا ایک ٹیسٹ رکھا گیا جس کے لیے ٹیچرز کی تین دفعہ کلاس لی گئی۔ پھر وہی سبق بچوںکو سکھانے میں ٹیچرز کو تین ہفتے لگ گئے جو کہ یقینا ایک مشکل کام تھا اور معصوم بچوں پر بوجھ تھا۔‘‘
انہوں نے ایک اور مسئلے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج کل کے والدین استاد کو پڑھانے والا نہیں سمجھتے بلکہ اپنے آپ کو ایک گاہک کی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ پیسے دے کر بچوں کے لیے تعلیم خرید رہے ہیں، اور اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ استاد اُن کا ہر کہنا مانے گا۔ بجائے اس کے کہ وہ شکر گزار ہوں کہ استاد ان کے بچوں کو تعلیم جیسی نعمت عطا کررہے ہیں، اور استاد کو پارٹنر کا درجہ دیں کہ وہ ان کے بچے کی تربیت میں ان کا اتنا ہی ہاتھ بٹا رہا ہے جتنا وہ خود، یا پھر اس سے بھی کہیں زیادہ۔ مگر والدین استاد کو عزت نہیں دے پاتے۔ بہت سے والدین بچوں کو چھٹی کراتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ آپ حاضری پر سختی کرتی ہیں۔ ا گر آپ اسکول ہی نہیں بھیجیں گے تو بچہ سیکھے گا کیسے؟ والدین شکایت کرتے ہیں کہ اسکول کے نوٹیفکیشن ان تک نہیں پہنچتے۔ تو اس میں کس کا قصور ہے؟ آپ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا تعلق رکھیں کہ وہ اسکول کی باتیں آپ کو بتائیں، نہ کہ آپ سے چھپائیں۔ کچھ والدین شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے کو سختی کی عادت نہیں ہے اور اس کو کسی بات سے منع نہ کیا کریں۔ اگر بچوں پر سختی نہ کی جائے، ان کو اچھا برا نہ سمجھایا جائے تو پھر وہ سیکھیں گے کیسے؟ پھر والدین شکایت کرتے ہیں کہ بچہ بدتمیز ہوتا جارہا ہے۔‘‘
استانی کا کہنا تھا کہ ’’اس دو طرفہ دبائو کی وجہ سے میری ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہورہی تھی، میں جانتی تھی کہ بچوں کو توجہ چاہیے جو کہ ان کو مل نہیں پارہی، اور جب اپنی پریشانی کا اظہار اسکول مینجمنٹ سے کرتی تو جواب آتا کہ بچوں کے لیے اپنا سکون برباد نہ کریں۔ جب آپ بچوں سے محبت رکھتے ہوں، ان کو پڑھانا لکھانا ایک جذبے کے تحت کرتے ہوں تو یہ باتیں برداشت نہیں ہوپاتیں، یہ بات قابلِ قبول نہیں ہوتی کہ بچے گندے میلے کپڑوں میں اسکول آرہے ہیں، کیوں کہ ان کے گھر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ آپ ان بچوں کو وہ توجہ نہیں دے پائیں گے جو والدین کی طرف سے ملتی ہے۔ کم توجہ اور پڑھائی کا دبائو بچوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہماری جیسی ٹیچرز کو بھی ڈسٹرب کردیتا ہے۔ ہم اتنے پریشان ہوجاتے ہیں کہ ہمارا ذہن کام میں نہیں لگ پاتا، غصہ کرنے لگتے ہیں، برداشت کم ہوجاتی ہے، جس کا اثر ہماری فیملی پر بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا کہ پڑھانا چھوڑ دوں گی کیوں کہ میری ذہنی صحت اس سے متاثر ہوتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’جب خود ذہنی طور پر پریشان ہوں تو آپ کسی کی مدد نہیں کرسکتے، اگر آپ کا ذہن ایک نکتے پر مرکوز نہیں ہو پارہا تو آپ بچوں کی پوری کلاس پر کیسے توجہ دے پائیں گے! اس وجہ سے میں نے اپنا ریٹائرمنٹ فنڈ چھوڑا، اپنی پیڈ چھٹیاں چھوڑ دیں اور فیصلہ کیا کہ ایک بچے سے شروع کروں گی، وہ بچہ جو میرے گھر پر ہے، اور دوسری خواتین کو بھی سمجھائوں گی کہ وہ گھر پر اپنے بچوں پر توجہ دیں، کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ اگر گھر پر سکون ہو تو سب اچھا ہوتا ہے۔‘‘