شہلا خضر
قدرت اس بار کراچی کے معصوم، پیارے، دلارے باسیوں پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔ گرمیاں آئیں تو ’’ہیٹ ویو‘‘ کے متواتر حملے، برسات کا موسم آیا تو بارش یوں جم کر برسی کہ آدھا شہر اور پوری سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں… اور اب موسمِ سرما کا دھماکے دار آغاز’’سائبیرین‘‘ یخ بستہ ہوائوں سے ہوچکا ہے۔ کئی برس کے ریکارڈ ٹوٹے اور کراچی کے باسی گرم ملبوسات اور کمبلوں کی خریداری کرتے نظر آئے، اور بچپن کی اس نظم کی یاد تازہ ہوگئی: ۔
ہائے رے سردی، ہائے رے سردی
سارے بدن میں برف سی بھر دی
شام ڈھلتے ہی خشک میوہ جات بیچنے والے کی پکار اور ہمنوا گھنٹی کی ٹن…ٹن سن کر بچے، بوڑھے، جوان سب ہی من پسند میوہ جات خریدنے کو ہوجاتے ہیں بے تاب۔
چلغوزے بھائی تو ترقی کرتے کرتے بامِ عروج کا ستارہ بن گئے ہیں، جن کا ملنا ہر کسی کے نصیب میں نہیں، بس’’باجی مونگ پھلی‘‘ ہی مستقل مزاجی سے عوام الناس سے وفاداری نبھا رہی ہیں۔
ہمیں اپنے بچپن کا وہ زمانہ اب بھی یاد ہے کہ جب سردیوں کے آغاز ہی سے ابا جان ’’ایمپریس مارکیٹ‘‘ سے بڑے بڑے خاکی تھیلے اخروٹ، مونگ پھلی، چلغوزے اور ریوڑیوں کے لے آتے، جنہیں ہماری والدہ باورچی خانے میں نصب خصوصی لکڑی کی چھوٹی سی مقفل الماری میں رکھتیں اور روزانہ رات کھانے کے بعد ہم سب بہن بھائیوں کو الگ الگ پلیٹ بنا کر حصے سے تقسیم کرتیں… پَر آج تو اتنے بڑے میوہ جات کے تھیلے صرف ’’ہول سیل‘‘ دکانوں پر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مہنگائی کے بھوت نے یوں گھیر رکھا ہے کہ اب تو پائو،آدھا پائو،کلو، آدھا کلو کے پہاڑے پڑھتے رہتے ہیں۔
خیر جی آپ ٹینشن نہ لیں، سردی کو بہلانے کے لیے ’’کم خرچ بالا نشیں‘‘ سوغاتیں بھی دستیاب ہیں، مثلاً گاجریں لائیے… مربے، اچار، حلوے اور گجریلے بنا کر تناول فرمائیے۔ مٹر پلائو کسے نہیں بھاتا، چاہے کوئی پوتا ہو یا دادا۔ پاکستان کی زرخیز مٹی کی سوغات کینو، موسمبی، فروٹر نہایت مناسب ریٹ پر ہیں دستیاب۔
’’کراچی آئٹس‘‘ نے تفریحی مقامات کی کمی کے باعث نئے نئے ’’ششکے‘‘ اپنا لی ہیں۔ خصوصاً نوجوان نسل میں ’’ڈھابہ کلچر‘‘ بہت مقبول ہے۔ سائبیرین سردی کی سیلیبریشن کے لیے کوئلہ چائے، ایکسپریسو کافی اور چکن اسموکی پراٹھے سب ان ڈھابوں پر دستیاب ہیں۔
ان یخ بستہ ہوائوں کی بدولت سب گھروں میں دبک جاتے ہیں، اور یوں اہلِ خانہ کو ’’فیملی ٹائم‘‘ گزارنے کا نایاب موقع قدرت فراہم کرتی ہے، جو کہ عام دنوں میں ناپید ہوچکا ہے۔
جب شام ڈھلتے ہی گلیاں اور بازار سنسان ہوجاتے ہیں تو گھر کے درودیوار پر بھی سکون سا طاری ہوجاتا ہے، اس پُرسکون فضا میں علم وادب سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں اور خوب فن پارے تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔
تو جناب آپ بھی اس سہانے موسم کا لطف اٹھائیں اور پیارے رب کا شکر ادا کریں، بس اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں آس پاس کوئی ایسا نادار یا سفید پوش ہو جسے موسم کی شدت سے بچنے کے لیے آپ کی مدد کی ضرورت ہو تو آپ اس کی مدد کرکے اپنی ’’ونٹر سیلیبریشن‘‘ کا حقیقی لطف اٹھائیے