کھیل کھیل میں

377

آسیہ پری وش
کچن میں ہوتی کھٹر پٹر پہ علی کچن کی طرف آیا۔ سامنے ہی کھلے کیبنٹ کے سامنے چھپ کے بیٹھے اپنے چھ سالہ اور ساڑھے چار سالہ بیٹوں کو مزے مزے سے منہ میں کچھ چباتے دیکھ کر وہ ساری بات سمجھ کر مسکرا پڑا۔ شوبی صہبی۔
اچانک باپ کی آواز سن کر اپنی واردات میں مشغول وہ دونوں چونک پڑے اور دروازے میں کھڑے باپ کو دیکھ کر خفت سے مسکرانے لگے۔ یس پاپا، ان دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
‘’Eating sugar?’’
’No papa’’
ان دونوں کے سر بے اختیار نفی میں ہلے۔
Telling lies?
علی نے شرارت سے اپنے بیٹوں کی پسندیدہ نظم اور کھیل جاری رکھا تو وہ دونوں بھی باپ کی شرارت سمجھ کر مسکراتے ہوئے باپ کے ساتھ اس کھیل میں شامل ہوگئے۔
No papa
Open your mouth.
HA HA HA
ان دونوں نے منہ کھول دیے جس میں سے آدھی چبائی چینی ظاہر ہوکر ان کی چوری پکڑا رہی تھی۔ علی ان دونوں کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے۔ بیٹا آپ دونوں کو کتنی دفعہ یوں خالی خولی چینی کھانے سے منع کیا ہے۔ وہ ان کے سامنے بیٹھ کر ان دونوں کو پیار سے سمجھانے لگے۔ آپ کو پتا ہے ناں کہ زیادہ چینی کھانے سے آپ کے یہ ننھے منے سے پیارے دانت بھی خراب ہوسکتے ہیں۔ ان میں خطرناک کیڑے بھی لگ سکتے ہیں اور آپ کے کانوں میں بھی درد ہوسکتا ہے جس سے آپ کو بہت زیادہ تکلیف ہوگی۔ آپ کی مما آپ دونوں کے لیے مناسب چینی ڈال کر جو اتنی ساری میٹھی چیزیں بناتی ہیں کیا آپ کے لیے وہ چیزیں کھانا زیادہ اچھا نہیں ہیں؟ علی کے اتنے پیار سے سمجھانے پہ ان دونوں نے شرمندگی سے سوری پاپا کہا۔ لیکن علی کو اچھی طرح پتا تھا کہ خالی چینی کھانے کے شوقین ان کے دونوں بیٹوں کی یہ شرمندگی بھری سوری صرف چند گھنٹوں کے لیے ہے۔ پاپا ایک بار پھر سے کھیلیں؟ شعیب اور صہیب ایک بار پھر سے اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے کو مچلنے لگے تو علی بھی اپنے بیٹوں کی خوشی میں خوش ہوتے پھر سے کھیلنے کو تیار ہوگئے۔
شوبی صہبی۔۔۔ یس پاپا
ایٹنگ شوگر؟ نو پاپا
ٹیلنگ لائز؟ نو پاپا
اوپن یور ماؤتھ۔۔۔ ہا ہا ہا، وہ دونوں کھلکھلاتے ہوئے باپ سے چمٹ گئے۔ علی نے بھی ہنستے ہوئے انہیں بازووں میں بھینچ لیا۔ بیٹے اور پوتوں کے درمیان کھیلے جانے والے اس شرارت بھرے کھیل کو ان کے پیچھے کھڑے دلچسپی سے دیکھتے ذیشان صاحب کو بھی یہ کھیل بہت دلچسپ اور اچھا لگتا تھا۔ ان کا دل بھی اس کھیل کا حصہ بننے کو چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باپ بیٹے آپس میں ہنستے اور باتیں کرتے ہوئے کچن سے باہر چلے گئے۔
چند گھنٹوں بعد پھر سے کچن میں ہوتی کھٹر پٹر پہ علی بچوں کی شرارت سمجھ کر مسکراتے ہوئے کچن میں آئے لیکن اس دفعہ سامنے کا منظر دیکھ کر ان کے مسکراتے ہونٹ بھنچ گئے۔ پاپا! یہ کیا کررہے ہیں آپ؟ اچانک بیٹے کی آواز سن کر ذیشان صاحب ڈر کر اچھل پڑے۔ کسٹرڈ کا باؤل اور چمچہ ان کے ہاتھوں میں لرز گیا۔ بیٹے کو سامنے دیکھ کر وہ خفت سے مسکرائے۔
ماہم بیٹی نے کسٹرڈ بنایا تھا۔ وہ کھانے کو بہت دل کررہا تھا سو وہ تھوڑا سا چکھ رہا تھا۔
پاپا آپ کو پتا تو ہے کہ شوگر کی وجہ سے یہ سب میٹھی چیزیں آپ کے لیے کتنی نقصان دہ ہیں۔ آپ کو کچھ احساس بھی ہے کہ جب آپ کی شوگر بڑھ جاتی ہے تو آپ کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی کتنی تکلیف میں آجاتے ہیں۔ یہ تھوڑا سا کسٹرڈ چکھنے سے اگر آپ کی طبیعت خراب ہوگئی تو کس کو پریشانی ہوگی۔ کون آپ کو اسپتال لے کر بھاگے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے۔ باپ سے بات کرتے ہوئے علی کی وہ ساری نرمی اور شگفتگی کہیں غائب ہوگئی تھی جو کچھ دیر پہلے اولاد سے بات کرتے ہوئے اس کے لہجے میں تھی۔ علی نے غصے سے باپ کے لرزتے ہاتھوں سے کسٹرڈ کا باؤل چھین کر واپس فریج میں رکھا دیا۔ میں ماہم سے کہتا ہوں آئندہ وہ فریج کو تالا لگا کر رکھے۔ بہت مشکل سے آنسو ضبط کرتے باپ پہ ایک تیز نظر ڈال کر علی کچن سے باہر نکل گیا اور ذیشان صاحب کے بہت مشکل سے روکے آنسو بھی باہر نکل پڑے۔ وہ آنسو جو اگر بیٹے کے سامنے بھی چھلک پڑتے تو بھی بیٹے پہ کوئی اثر نہ ہوتا۔
پاپا پاپا۔۔۔ ذیشان صاحب نے روتی آنکھوں کے ساتھ منہ سے بیٹے کی غصے بھری آواز نکال کر اپنے، بیٹے اور پوتوں کے پسندیدہ کھیل کا خود کو حصہ بنانے کی خواہش پوری کرنی چاہی۔
یس بیٹا۔ ذیشان صاحب کی آواز میں بے پناہ دکھ اتر آیا۔
ایٹنگ شوگر؟نو بیٹا۔ بیٹے کی غصیلی آواز میں پوچھ کر وہ اپنی روتی آواز میں منمنائے۔
ٹیلنگ لائز؟ نو بیٹا۔
اوپن یور ماؤتھ۔۔ ہا ہا ہا، غصے بھری آواز کرختگی میں بدل کر انہوں نے منہ کھولا جس میں کچھ بچا ہوا کسٹرڈ ظاہر ہورہا تھا۔
باپ کے غصے اور دادا کے آنسوؤں کی اصل وجہ سے بے خبر کچن کے دروازے پہ آکر کھڑے ہوئے شعیب اور صہیب کو دادا کا اکیلے میں ہی کھیلا جانے والا یہ کھیل اپنے کھیل سے زیادہ دلچسپ لگا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو شرارت سے دیکھتے اپنے کمرے میں آگئے۔
پاپا پاپا۔۔۔ شعیب نے غصے سے پکارا۔
یس بیٹا۔۔ شعیب کی غصے بھری پکار پہ صہیب نے اپنے لہجے کو بوڑھی اور روتی آواز میں بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے منمناتے جواب دیا۔
ایٹنگ شوگر؟ صہیب کی منمناہٹ سن کر شعیب نے اپنی آواز میں مزید رعب پیدا کردیا۔ نو بیٹا۔
ٹیلنگ لائز؟ نو بیٹا۔
اوپن یور ماؤتھ، ہا ہا ہا۔۔ صہیب نے ڈرتے ڈرتے منہ کھول دیا۔ پھر وہ دونوں بھائی کھلکھلا کر ہنسنے لگے اور ایک دفعہ پھر سے اپنے من پسند کھیل کو اس ہاتھ آئے نئے طریقے سے کھیلنے کی تیاری کرنے لگے۔
بیٹوں کے کمرے کی طرف آتے علی نے دروازے میں رک کر ایک عجیب سے احساس کے ساتھ بیٹوں کا یہ کھیل دیکھا جس میں بوڑھے لہجے میں روتے، منمناتے ساڑھے چار سالہ صہیب میں اسے اپنا آپ دکھائی دیا تو اپنا چھ سالہ بیٹا شعیب اسے جوان شعیب لگا جس کے سامنے وہ باپ ہونے کے باوجود خود کو بونا اور چھوٹا محسوس کررہے تھے۔
باپ سے بدتمیزی کرنے والے علی کے لیے یہ صرف ایک کھیل نہیں تھا بلکہ مستقبل کی آگہی دیتا ایک ایسا احساس تھا جس نے اسے باپ سے معافی مانگنے کے لیے ندامت سے سر جھکا کر باپ کے کمرے کی طرف قدم بڑھانے پہ مجبور کردیا تھا۔

حصہ