بات نرمی سے کریں

555

عینی شاہ
اسکول میں عید میلادالنبیؐ کے سلسلے میں جیسے ہی نعت کے مقابلے کا اعلان ہوا ،تمام طالب علموں میں حصہ لینے کا شوق پیدا ہوگیا۔ہر کلاس ٹیچر نے اپنی اپنی کلاس میں اعلان کیا تھا کہ تمام بچے گھر سے نعت یاد کرکے آئیں گے۔ جس کی آواز اور طرز اچھی ہوگی اسے مقابلے میں شامل کیا جائے گا۔شان نے بھی ا س مقابلے میں حصہ لیا تھا نعتیہ مقابلے میں منتخب ہونے کے بعد شان نے اپنی کلاس میں لمبی لمبی چھوڑنا شروع کردی کہ “دیکھنا پہلا انعام تو مجھے ہی ملے گا۔ مگر عین مقابلے والے دن اْس کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ جاننے سے پہلے شان کا تھوڑا سا تعارف ہو جا ئے۔
شان پانچویں کلاس کا ذہین طالب علم تھا۔وہ اسکول کی تمام نصابی اور ہم نصابی سرگر میوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔اس کی بس ایک بْری عادت تھی اور وہ یہ تھی کہ شان بہت تیز آواز میں بات کرتا تھا۔اس کا لہجہ بولتے وقت ایسا ہوتا تھا کہ جیسے وہ لڑ رہا ہے۔ اس کے برابر میں بیٹھنے والے بچے اکثر ٹیچر سے شکا یت کرتے تھے کہ ” شان ہمارے کان پھاڑ دیے ہیں”۔ اس کی ٹیچر نے کئی بار سمجھا یا بھی کہ ” بیٹا بات کرتے ہوئے آواز دھیمی رکھنی چاہیے اور لہجہ بھی نرم ہونا چاہیے کیونکہ تیز آواز میں بات کرنے سے گلا اور آواز مستقل طور پر خراب ہوجاتے ہیں”۔ اْنھوں نے قرآن مجید کی سورۃ لقمان کی آیت نمبر19کا حوالہ دیتے ہوئے پوری کلاس کو بتایا کہ” آوازوں میں سب سے نا پسندیدہ آواز گدھے کی ہے جو کا نوں کو بْری لگتی ہے۔اس لیے ہمیں ہمیشہ آہستہ آواز میں بولناچا ہیے۔ ہمارے پیارے نبی ؐ بھی نہایت نرم لہجے میں گفتگو فرماتے تھے “۔ شان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی اور وہ آہستہ آواز میں بات کرنے کی کوشش بھی کر رہا تھا ،مگر چیخ چیخ کر بولنے اور اپنی بات منوانے کی اْسے اس قدر عادت ہو گئی تھی کہ وہ اکثر ٹیچر کی بتا ئی ہوئی بات بھول جاتا ۔جس دن مقا بلے میں حصہ لینے والے بچوں کو منتخب کیا جا رہا تو اس نے بہت اچھی طرز میں نعت سنا ئی تھی مگر اس کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اس نے ٹیچر سے وعدہ کیا تھا کہ مقابلے والے دن تک و ہ اپنا گلا ٹھیک کر لے گا۔
آج اسکول میں نعتیہ مقابلہ ہو نا تھا اور شان صبح سے بہت پریشان تھا ۔اس کی امی نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو وہ رونے لگا ۔ کیونکہ اس کی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ نعت پڑھنا تو دور کی بات ، اس سے تو بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ اس کی امی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ” بیٹا اسی لیے تو کہا جاتا تھا آپ سے کہ تیز آواز میں نہیں بولنا چا ہیے۔ مگر آپ کی سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا”۔شان کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔ اسے تو یہ سوچ کر اور بھی شر مندگی ہو رہی تھی کہ اس نے اپنے دوستوں کے سامنے خوب گپ ماری تھی اب وہ اسکول جائے گا تو سب اسکا مذاق اْڑائیں گے۔ یہ سوچ کر اس نے آج اسکول نہ جانے کا فیصلہ کیا اور خوب رویا۔اس کی امی نے اسے سمجھا یا کہ اب سے وہ آہستہ اور نرم لہجے میں بات کرنا شروع کردے تا کہ اگلے سال بھرپور طریقے سے مقابلے میں حصہ لے سکے۔ شان کو اپنی ٹیچر کی ساری باتیں یاد آنے لگیں جو انہوں نے بتائیں تھیں، آج اس نے اپنے دل میں بالکل پکا عہد کیا کہ آئندہ وہ ہمیشہ نرمی سے بات کرے گا۔

حصہ