ترجمان اسلام، سید مودودیؒ!۔

571

مرتب: اعظم طارق کوہستانی

حضرت اقبال نے کیا خوب کہا تھا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ ور پیدا

اللہ نے اس امت کو گذشتہ صدی میں حسن البنا، سید مودودی اور سید قطب جیسی عظیم ہستیوں کے وجود سے نوازا۔ ایسے نابغۂ روزگار مدتوں بعد کسی قوم کو نصیب ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ قومیں اپنے محسنین کو ان کی زندگی میں نہیں پہچان سکتیں۔ سید مودودیؒ ملت اسلامیہ کا عظیم ترین سرمایہ تھے۔ ان کی پوری زندگی سراپا جہاد تھی۔ باطل کے ایوانوں میں ان کی فکر نے ہمیشہ زلزلے برپا کیے۔ قادیانی فتنہ ہو یا عیسائی مشنری یلغار، ہر ایک کے سامنے انھوں نے بند باندھ دیے۔ وہ 1979ء میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے مگر ان کی حسین یادیں اب بھی ان کے مداحین کے دلوں میں رچی بسی ہیں۔
سید مرحوم کے کارنامے ہمہ پہلو، ہمہ جہت اور جامع ہیں۔ آپ کا اصل کام فکری رہنمائی اور قلم و قرطاس کا صحیح استعمال ہے۔ جہاد قلم، زبان اور سیف سبھی سے کیا جاتا ہے۔ دیرپا اثرات قلمی جہاد ہی کے ہوتے ہیں، جو سید مودودیؒ کی اصل پہچان ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تمام تصانیف، موثر، دل و دماغ کو اپیل کرنے والی اور ایک مخلص داعیٔ حق کا دردِ دل لیے ہوئے ہیں۔ ان کتابوں نے بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ہے۔ ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم ان کی تحریریں پڑھ کر اسلام سے روشناس ہوئے۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی کتب کے مطالعے کی بدولت خود بے شمار مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔ مولانا مودودیؒ کا کمال تھا کہ جن علاقوں کا کبھی سفر نہ کیا تھا، وہاں کے حالات سے بھی باخبر تھے۔
1974ء تک کینیا میں قادیانیوں کا مشن خاصا فعال تھا۔ لیکن پاکستانی دستور میں چوتھی آئینی ترمیم کے بعد جب پاکستان پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تو پوری دنیا میں ان کے اثرات سمٹنے لگے۔ ان کے مبلغ شیخ مبارک اخبارات کے ذریعے سے اپنے نظریات کا پرچار کرتے تھے، لیکن ان کے ہر آرٹیکل کا جواب ہم بھیجتے جو اخبارات میں چھپ جاتا۔ اس عرصے میں قادیانیوں کے ایک مشنری نے قرآن ہائوس میں آکر میرے ساتھ مناظرہ کیا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ ایک موضوع کو چھوڑ کر دوسرے موضوع پر بحث چھیڑ دیتا۔ اس مباحثے کے دوران مولانا مودودیؒ کا کتابچہ ختم نبوت زیر بحث آیا جو ہم نے کینیا میں انگریزی اور سواحلی میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ اس کی زبان سے یہ بات نکلی کہ علما نے ہمارے خلاف بڑی بڑی کانفرنسیں کیں، بڑے جلوس نکالے، لیکن اس شخص نے جتنا نقصان ہمیں پہنچایا ہے، کوئی نہیں پہنچا سکا۔ اس کا اشارہ مولانا مودودیؒ اور ان کے مقالے ختم نبوت کی طرف تھا۔
کینیا پہنچنے پر مجھے معلوم ہوا کہ وہاں وائس آف کینیا پر اسلامی پروگرام قادیانی پیش کرتے ہیں، بہت افسوس اور تعجب ہوا۔ کینیا کے چیف قاضی شیخ عبداللہ صالح فارسی (مرحوم و مغفور) سے اس موضوع پر بات کی تو انھوں نے وزارت اطلاعات کو متوجہ کیا۔ چنانچہ قادیانیوں کی بجائے یہ پروگرام اسلامک فائونڈیشن کے سپرد ہوا۔ الحمد للہ اسلامک فائونڈیشن کے تحت سال ہا سال تک ہم اردو، انگریزی اور سواحلی میں اسلامی پروگرام پیش کرتے رہے۔ اب بھی یہ پروگرام سپریم کونسل آف کینیا مسلمز کی نگرانی میں جاری ہے۔
جن دنوں پاکستان پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا، میں ان دنوں براعظم افریقا میں سید مودودیؒ کے قائم کردہ ادارے اسلامک فائونڈیشن نیروبی میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ اسی ادارے کی ایک اور شاخ مغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا میں قائم تھی۔ ہمارے دوستوں نے وہاں بھی قادیانی فتنے کا خوب مقابلہ کیا۔ قادیانی اس قدر شاطر اور چالاک تھے کہ اسلام کے لبادے میں نائیجیریا کے سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے اور اپنا ہم نوا بنا لیتے۔ نائیجیریا کے ایک بہت بڑے قبائلی چیف بھی ان کے نرغے میں آگئے۔ ان کے قادیانی ہونے سے پورے قبیلے اور علاقے میں قادیانیوں نے پنجے گاڑ لیے۔ اسلامک فائونڈیشن کانو، نائیجیریا نے مولانا مودودیؒ کے کتابچے مسئلہ ختمِ نبوت کا انگریزی ترجمہ (Finality of Prophethood) انگریزی اور مقامی زبانوں میں پھیلایا۔ اس قبائلی چیف تک بھی کسی نہ کسی طرح یہ کتابچہ پہنچ گیا۔ قادیانیوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے چیف کے خوب کان بھرے کہ یہ شخص تو گمراہ ہے اور اسلام کا دشمن ہے۔ مگر اس نے کہا کہ نہیں مجھے دیکھنا تو چاہیے کہ یہ کہتا کیا ہے۔ اس نے پورا کتابچہ پوری توجہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھا۔
کتابچہ پڑھنے کے بعد اس چیف کے ذہن میں ہل چل مچ گئی۔ اللہ کی قدرت کہ رات کو خواب میں اس نے دیکھا کہ وہ اپنے محل کے وسیع و عریض لان میں اکیلا بیٹھا ہے اور اس کے چاروں جانب ایک باڑ ہے جس میں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اچانک اس باڑ کو آگ لگ گئی، اس نے جان بچانے کے لیے چیخ و پکار کی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ خوف کے عالم میں اس نے دیکھا کہ باڑ کے ایک جانب کتابچہ ختم نبوت کا عنوان لکھا تھا اور اس جانب سے باڑ جل چکی تھی اور راستہ بن گیا تھا۔ اس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور یوں اللہ نے اسے راہ نمائی دی کہ مسئلہ ختم نبوت اس کی سمجھ میں آگیا۔ اسی دوران یہ خبریں بھی نائیجیریا پہنچیں کہ پاکستان جو قادیانیوں کا گڑھ ہے وہاں کی پارلیمنٹ نے انھیں غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا ہے تو چیف بالکل یک سو ہوگیا اور اس نے قادیانیت چھوڑ کر پھر اسلام کو سینے سے لگا لیا۔ ظاہر ہے ایسے کتابچے کو قادیانی اپنے لیے پیغامِ موت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بعد میں اس چیف کو بتایا گیا کہ مولانا مودودیؒ کو اسی مسئلے پر فکری راہ نمائی دینے کے نتیجے میں ایک مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی تھی مگر انھوں نے ناموس رسالت پر جان قربان کر دینے کا عزم ظاہر کیا اور حکمرانوں سے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ اللہ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان کی جان بچا لی اور ان کے مخالفین دم بخود رہ گئے۔ اس سے اُس کے یقین و ایمان میں اور مضبوطی آئی۔ یوں قادیانیوں کو جگہ جگہ شکست ہوئی۔
کینیا کے شمال مشرقی علاقے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، عیسائی مشنریوں نے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے قصبات اور دیہات تک اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔ جب ۱۹۶۳ء میں اس علاقے کے مسلمانوں نے کینیا سے آزادی حاصل کرکے اپنے آپ کو مسلمان ملک صومالیہ سے جوڑنے کے لیے جدوجہد کی تو اس خانہ جنگی میں بے شمار مسلمان مرد مارے گئے۔ آبادیوں کی آبادیاں یتیموں اور بیوائوں کی وجہ سے کسمپرسی کا شکار ہوگئیں۔ اب عیسائی مشنریوں کو موقع ملا کہ وہ ہسپتالوں، اسکولوں، یتیم خانوں اور دیگر تعمیرات کے نام پر ان بستیوں میں گھس جائیں۔ ان کے بے شمار مشنری اس کام میں لگ گئے، جنھوں نے مسلمانوں کو گمراہ کیا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے عیسائیت قبول کرلی۔ ایک قصبہ جہاں عیسائیوں نے یلغار کی وہاں ہمارا بھی مرکز تھا۔ اس قصبے کا نام قربت اللہ ہے اور یہاں عیسائی مشنریوں نے بچیوں کا ایک پرائمری اور ہائر سیکنڈری اسکول اور انھیں آفس سیکرٹری، سٹینو اور ٹائپسٹ کی تعلیم دینے کے لیے ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ کا ادارہ قائم کیا۔ کئی برس تک بچیوں کو تعلیم دینے کے بعد وہ سمجھے کہ یہ بچیاں اب مکمل طور پر انھی کے رنگ میں رنگ چکی ہیں اور ان کا اپنے دین اورخاندانی پس منظر سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے۔ اس لیے ان کے نام تک تبدیل کر دیے گئے، مگر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا جس سے تہلکہ مچ گیا۔ جب ان بچیوں کی پاسنگ آئوٹ تقریب آئی تو وہ اتوار کے دن اپنے معمول کے خلاف گرجا گھر میں حاضر نہ ہوئیں، بلکہ اپنے ہاسٹل میں بستروں ہی میں دبکی رہیں۔ مشنری عملے نے یہ منظر دیکھ کر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور کہا کہ فادر گرجا میں سرمن دے رہے ہیں اور تم ابھی تک تیار ہی نہیںہوئیں۔ ایک لڑکی نے ہمت کرکے کہا: ’’ہم تو مسلمان ہیں اور مسلمان گرجا گھروں میں نہیں مسجدوں میں جایا کرتے ہیں۔‘‘ لڑکی کی اس جرأتِ ایمانی سے ایک طوفان تو آنا تھا، سو وہ پورے زور شور سے آیا۔
اس ماحول اور ادارے میں ایک بے بس لڑکی کی یہ بات ایک دھماکے سے کم نہ تھی۔ ادارے کی انتظامیہ کے ہاں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں اس ادارے سے فارغ کرنے اور ان کی اسناد نہ دینے کا فیصلہ ہوا۔ اللہ غریق رحمت کرے، ایک مسلمان ممبر پارلیمنٹ حاجی محمد خولے خولے، جو اس علاقے سے ذرا دور کے حلقے مرسابت کی نمایندگی کرتے تھے بہت نیک مسلمان تھے۔ ان سے فائونڈیشن کے دیگر احباب کی طرح میرا بھی دوستی کا تعلق تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے حج بھی اکٹھے کیا تھا۔ اس معاملے میں مرحوم میدان میں آگئے۔ انھوں نے یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹھا دیا۔ چنانچہ دستور میں مذہب کی آزادی کا جو حق کینیا کے تمام شہریوں کو دیا گیا تھا، اس کی بدولت حکومت کی مداخلت پر بچیوں کو ان کی سندات جاری کر دی گئیں۔ اس پر چرچ میں تحقیق شروع ہوگئی کہ: ’’اتنا عرصہ مشنریوں کے زیر اثر رہنے کے باوجود ان بچیوں کو کیاہوگیا تھا کہ انھوں نے اپنے آپ کو عیسائی کے بجائے مسلمان قرار دے دیا؟
تحقیق پر پتا چلا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب دینیات کا سواحلی ترجمہ اس انقلاب کا محرک بنا۔ کتاب کے مترجم ممباسا کے مشہور مسلمان سکالر جناب چراغ دین شہاب دین مرحوم تھے۔ اسلامک فائونڈیشن کی طرف سے اس کا ترجمہ چند ہی سال قبل سواحلی زبان میں ہوا تھا۔ دراصل اس ادارے میں ایک لڑکی کے پاس کسی ذریعے سے یہ کتاب پہنچی تو اس نے اس کا مطالعہ کیا۔ وہ کتاب سے بہت متاثر ہوئی۔ اس کے بعد اس نے اپنی دوسری ہم عمر لڑکیوں کو اعتماد میں لے کر یہ کتاب پڑھنے کو دی۔ آہستہ آہستہ سب لڑکیوں نے یہ کتاب پڑھ لی اور آپس میں طے کیا: ’’ہم مسلمان ہیں اور ہمیں مسلمان ہی رہنا چاہیے۔‘‘ پہلی لڑکی کا نام جس نے یہ کتاب پڑھی فاطمہ تھا مگر اسے مارگریٹ بنا دیا گیا تھا۔ پھر حلیمہ (نینسی)، خدیجہ (این)، عائشہ (جیری) اور مریم (میری) اور دیگر بچیاں یہ کتاب پڑھتی چلی گئیں اور اپنی اپنی شناخت پاکر صلیبی چنگل سے نکل آئیں۔ الحمد للّٰہ علی ذلکیہ ہے صدقۂ جاریہ جس کی بدولت مرشد ہم سے بچھڑنے کے باوجود ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

میری محسن کتاب

سید ابواالاعلیٰ مودودیؒ

’’جاہلیت کے زمانہ میں میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اُتار چکا ہوں۔ مگر جب آنکھ کھول کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں اُلجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں پھر بھی حل نہ کرسکے۔ ان کو اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا ہے۔ میری اصلی محسن بس یہی کتاب ہے اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے۔ حیوان سے انسان بنادیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے، انگریزی میں اس کنجی کو ماسٹر کی (شاہ کلید) کہتے ہیں جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو میرے لیے یہ قرآن ’’شاہ کلید‘‘ ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں کھل جاتا ہے جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔
حوالہ: ہفت روزہ آئین ( تفہیم القرآن نمبر)۔

حصہ