عزیز جیلانی
یہ شہر اپنے بدترین حالات میں بھی مجھے کم ہی کَھلتا تھا۔ کبھی یاد کرنے بیٹھوں تو دو یا تین موقعوں سے زیادہ یاد نہیں کرسکتا۔ ہڑتالوں جلوسوں اور فسادات تک کے دنوں میں کبھی یہ شہر مردہ نہیں جان پڑا، مگر آج کچھ دیر کے لیے یہ محسوس ہوا کہ میرے آس پاس کا کراچی مرچکا ہے۔ اور اگر نہیں مرا تو اسے لازماً مرجانا چاہیے۔ مزمل ساب (صاحب) گزرگئے اور اب ان کی مٹی کراچی کے کسی سردخانے میں ان کے سوہنے بانگلا میں سماجانے تک اپنی ترتیب میں رہنے کا ڈھونگ کیے جائے گی۔ بیچ میں پہاڑ سا ہندوستان اور اُس کے اُدھر ان کا دیش، ان کا بنگلادیش!
کراچی کی مصروفیتیں مزمل ساب کو وقت سے پہلے کھاگئیں ورنہ یہ تو طے تھا کہ یہ سادہ لوح بنگالی کراچی میں مرنے کے لیے نہیں آیا تھا۔ گھر سے اور اپنوں سے ہزاروں میل دور کوئی مرنے نہیں آتا۔ پانچ چھ برسوں سے وہ واپسی کی کوششوں میں جُٹے تھے لیکن کئی بادھائیں تھیں جو انھیں روکے ہوے تھیں۔ اب جبکہ کوئی سبیل نکلنے ہی والی تھی تو اس سے پہلے وہ خود ہی۔ ۔ ۔ اگر وہ ایک دو برس اور جی لیتے تو شاید اپنے گھر میں مرنے کا سکھ حاصل کرسکتے تھے۔ جن کی خاطر عمر بھر پردیس میں بسے رہنے پر مجبور رہے ان بچوں کے قریب رہ کر انھیں کچھ وصیتیں کرسکتے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ وقت گزار سکتے تھے۔ دھندلا سا یاد پڑتا ہے کہ گیارہ بارہ برس، قبل ہمارے مدرسے کے دنوں میں بھی ان کے واپس لوٹ جانے کا ذکر چلا تھا لیکن تب بات اور تھی۔ وہ صحت مند نہیں تو کچھ اتنے بیمار بھی نہیں تھے۔ خیر! انھیں نہ تب جانا تھا نہ اب، سو وہ نہیں گئے۔ اب اگر خدا اور بنگال و پاکستان کی سرکاروں کو منظور ہوا تو مزمل ساب کے پاسپورٹ پر ان کی بے جان اور ٹھنڈی مٹی گھر پہنچادی جائے گی۔ یوں بھی زندہ گھر لوٹنے کے لیے دو باتوں کا اطمینان تو ضروری ہے۔ ایک؛ آپ نے اب تک کیا کیا؟ اور دوسرا؛ اب آپ کیا کریں گے؟ ان دونوں باتوں کا تعلق اور اہمیت ذاتی کم اور سماجی حوالوں سے زیادہ ہے۔ ہر سچے اور غریب آدمی کی طرح وہ بھی ان دونوں سوالوں کے جواب خود جانتے ہوے بھی کسی کے پوچھنے پر تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے تھے۔ ان کے پاس نہ ہی سماج اور لوگوں کا منھ بند کرنے جتنی دلیلیں تھیں نہ ہی بچوں اور گھر کا پیٹ بھرنے جتنی سبیلیں۔ اسی لیے تو بس آخر تک یہیں کراچی میں بسے رہے اور قرآن پڑھاتے پڑھاتے، اذانیں دیتے دیتے ختم ہوگئے۔
مزمل ساب کا تعلق نواکھلی سے تھا اور تیس برس قبل وہ کام کی تلاش میں کراچی آئے تھے۔ ایک سال تک چھوٹی موٹی دیہاڑی مزدوریاں کرتے رہے اور اس کے بعد رنچھوڑلائن بازار کی جامع مسجد میں بطور مؤذن اور مسجد ہی کے دارالعلوم میں مدرس مقرر ہوئے۔ کاندھا دینے والے چار لوگ تو کسی کو بھی کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں لیکن ایسے ٹوٹ بٹوٹ اور Me too کے دور میں باپ سے بھی زیادہ محترم رکھنے والے شاگردوں کا ملنا ناممکن نہیں تو بہت ہی کٹھن ضرور ہے اور وہ مسلسل تیس برس تک انہی کٹھنائیوں کو مات دیتے رہے۔ کئی بچوں کو قرآن پڑھایا۔ آدھے ادھورے، کچے پکے ہر طرح کے حفاظ تیار کیے لیکن ان کے سبھی شاگردوں میں ایک جیسی اور عجیب چیز یہ پیدا ہوجایا کرتی کہ وہ لاشعوری طور پر کھرے کھوٹے مولویوں اور قاریوں کا فرق جاننے میں کم ہی دھوکا کھاتے۔ مزمل ساب مولوی نہیں، محض حافظ تھے مگر ایسے حافظ جو بہت بڑا قاری جان پڑتا تھا۔ ان کے دل میں قرآن کے تئیں جو محبت تھی وہ پڑھتے اور پڑھاتے وقت سُروں میں پھوٹا کرتی۔ مزمل ساب قرآن کے راگی تھے۔ ان کا سامع ان سے کم پہ ہرگز راضی نہیں ہوتا۔ انھیں پیشہ وارانہ معاملات میں کبھی کسی سے مرعوب ہوتے نہیں دیکھا۔ کئی مولویوں، پِیروں اور رئیسوں کی اولادوں کو پڑھایا مگر نہ کسی کی خوشامد کی، نہ کسی کے آگے سر نہوڑایا۔ تمام قسم کی پیشہ وارانہ پینترے بازیوں سے کوسوں دور مزدوروں کا سا مزاج رکھنے والے درویش آدمی تھے۔ مولویوں، پیروں اور سیٹھوں سے ملتے وقت ان کی مسکراہٹ میں ایک عجیب طرح کا مصنوعی پن جھلک اٹھتا جس سے سامنے والا فوراً بھانپ لیتا کہ اس آدمی سے اب کوئی فضول بات کی تو لڑ بیٹھے گا۔ ان کے مزاج میں ایک کمال بے نیازی اور دنیاداری سے بے رغبتی کا چلن تھا جو انھیں اپنے جیسے دوسروں سے ممتاز رکھتا تھا۔ کھانے میں البتہ میٹھا، اس میں بھی گلاب جامن مرغوب رکھتے اور پان کا شوق فرماتے۔ کوئی نہ کوئی طالبِ علم ہر چوتھے پانچویں دن اپنی ڈیوٹی سمجھ کر ان کے لیے تازہ گلاب جامن لے آیا کرتا۔ مزمل ساب اپنی قرات، نیند اور شاگردوں کو پیٹنے کی وجہ سے شہرہ رکھتے تھے اور ان کی کلاس طرح طرح کی شرارتوں، بدتمیزیوں کی حد تک اوچھے پن اور کلاس کے دوران دھماچوکڑیاں مچانے میں مدرسے بھر میں بدنام۔ ڈھائی تین سو طلبا میں بھی ان کی کلاس کے لڑکے دور سے ہی پہچانے جاتے اور مدرسے کی اصطلاح میں ‘حرامی پن’ میں سبھی لڑکوں کی لیڈری کررہے ہوتے۔ مدرسے میں طلبا کی کارکردگی کے پیشِ نظر ان کی ترقی یا تنزلی کے نتیجے میں انھیں ایک سے دوسری کلاس میں منتقل کیا جانا معمولی بات تھی مگر اس معمول کے کام سے ان کی کلاس کے لڑکوں کو دور ہی رکھا جاتا، البتہ کبھی کبھار دوسری کلاسوں سے یہاں منتقلیاں ہوجایا کرتیں۔ اور ایک بار جو کوئی لڑکا یہاں آجاتا تو پھر یا تو قرآن پورا کرکے نکلتا یا پھر مدرسے سے ہی بھاگ کھڑا ہوتا۔ ایک بار مزمل ساب تین ماہ کی رخصت پر بنگلادیش گئے۔ عام طور پہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کلاس کا حصہ باٹا کرکے سبھی لڑکوں کو دوسری کلاسوں میں بھیج دیا جاتا مگر کلاس کی ریپوٹیشن اور دوسرے قاری صاحبان کی ہچکچاہٹ کے پیشِ نظر ایک صاحب کو، جو کہ مدرسے کی بہت پرانی کھیپ میں سے تھے اور رمضان کے دنوں میں اکثر گردان نکالنے مدرسے کے کسی کونے میں بیٹھے رٹّے لگاتے پائے جاتے تھے، انھیں مزمل ساب کی کلاس سونپ دی گئی اور جنھیں آگے چل کر کلاس کے لڑکوں کی جانب سے ‘نفسیاتی کی پدوی تفویض کی جانا تھی، انھیں تین ماہ کے لیے کلاس کے سپرد کردیا گیا۔ تفصیلات میں نہ پڑتے ہوئے اتنا بتا دینا کافی ہوگا کہ تین ماہ تو دور رہے، وہ صاحب ایک ڈیڑھ عشرہ ہی ٹِک سکے اور مجبوراً مہتمم صاحب کو کلاس کا چارج لینا پڑا۔ عام طور پہ ظہر کے بعد مزمل ساب کلاس میں اپنی نیند پوری کیا کرتے اور لڑکے آپسی حساب کتاب دیکھتے۔ لیکن ہر شش ماہی امتحان سے مہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے سے ہی قاری صاحب جس ڈنڈی پہ ٹھوڑی ٹکا کے نیند لیا کرتے وہ مدرسے کی اصطلاح میں ‘مولا بخش کا روپ دھارن کرلیتی اور پورے سال کی پڑھائی کی کسر نہ صرف یہ کہ انہی دنوں میں پوری ہوجایا کرتی بلکہ وہی لڑکے جو اودھم مچانے اور بدتمیزیوں کے سبب مدرسے کا کلنک بنے رہتے، خوب نیک نامیاں سمیٹتے اور ٹاپرز میں جگہ پاتے۔ اس ایک آدھ مہینے میں تمام قاری صاحبان اور بالخصوص طلباء کی توجہ کا مرکز مزمل ساب کی کلاس رہا کرتی۔ اب مزمل ساب نہیں ہیں، ان کی کلاس اب بھی ہے اور اس میں بڑے بڑے ڈھور ڈنگروں کی جگہ صرف چھوٹے بچے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی کلاس کے لیے دوسرا کوئی قاری دیکھ لیا جائے گا اور ان بچوں کو دوسرا استاد بھی مل جائے گا۔ لیکن نواکھلی میں مزمل ساب کے تیرہ چودہ برس کے لڑکے اور دو لڑکیوں کو اپنا باپ کبھی نہیں مل سکے گا۔ وہ باپ جس کی یادیں ان کے پاس کم ہوں گی اور جسے یاد رکھنے کے لیے انھیں کئی جتن کرنا ہوں گے۔ ماں اور کسی ایک آدھ عزیز کی یادداشتوں پر بھروسا کرکے اپنے باپ کی یادوں کا ایک الگ جہان ترتیب دینا ہوگا۔ رہی ان کے شاگردوں کی تو وہ اس دور میں بھی اُس خیرالقرون کے آدمی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ قاری مزمل الحق صاحب اگر عہدِ نبوی میں رہے ہوتے تو حضور رسالت مآب کی جانب سے قرآن پڑھانے پر ہی مامور ہوتے۔